جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزنام نہاد قوم پرستی:تحریر:مھراب مھر

نام نہاد قوم پرستی:تحریر:مھراب مھر

چودہ اگست پاکستان کی آزادی کا دن اور ہندوستان کی بربادی کا دن ثابت ہوا۔ جب برطانوی سامراج نے ہندوستان کو مسلم و ہندو کے نام پر تقسیم کرکے دو ملکوں کے وجود کو سامنے لے آئے۔ ایک ہندوؤں کی سرزمین قرار پائی اور دوسری مسلمانوں کی. کشمیری بیچ کے ہی رہے۔ نہ مسلمان بن سکے اور نہ ہی ہندوو۔ نہ ہندوستان کا حصہ بن سکے نہ پاکستان کا. آج تک کشمیری سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر چاہتے ہیں یا پاکستان کا اٹوٹ انگ بن جائیں گے۔ ان 69سالوں میں کشمیر کی سرزمین خون میں کئی بار نہالائی گئی۔ بنگال نے 1971 میں مسلمان قوم کی سرزمین سے بنگلادیش بننے کا کامیاب سفر طے کر لیا۔ سندھی بلوچ و پشتون نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے. انکی سرزمین ثقافت تاریخ زبان پنجابی کے رحم و کرم پر رہی۔ بلوچستان سات مہینے و کچھ دن آزاد رہنے کے بعد بزور طاقت و سازش کے تحت پھر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسی دن سے لیکر آج تک بلوچ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جبکہ پشتون پاکستان کی غلامی کو قبول کرنے کے ساتھ پاکستانی فوج کے لیے ایندھن بنتے رہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے وقت وہ پاکستان کی فوجی قیادت کے تلے مجاہد بن کر روس کے خلاف افغانستان میں خون کی ھولی کھیلنے لگے۔ اور پھر پاکستانی فوج کی بی ٹیم بن کر ہر محاذ پر فوج کے لیے ایندھن بنتے رہے۔ کشمیر میں ضرورت پڑی وہ حاضر تھے۔ بلوچستان میں ضرورت پڑی وہ بروقت پہنچ گئے۔ اور اپنی قومی شناخت کو بھول کر ہر وقت میں کسی نہ کسی ملک کا پراکسی بنتے رہے۔ اور پشتون قیادت پاکستان کی غلامی کی قبولیت کے ساتھ اپنی پہچان دنیا میں بحیثیت انتہا پسند بناتے رہے۔ اور یہ انتہا پسندی پنجابی شاطر چالبازوں کی مرہون منت پشتون قوم کے نصیب میں قرار پائی۔ اور پشتون نے پراکسی کی حیثیت اسے تہہ دل سے قبول کرلیا۔ پشتو کلچر اسلامی کلچر کا روپ لینے لگی۔ اور بحثیت قوم پشتون شہید غفار خان کے بعد بے منزل سفر پر روانہ ہوگئی۔ اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔ انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ان کا اصل مسلہ کس کے ساتھ ہے؟ وہ بھی کشمیریوں کی طرح اٹوٹ انگ بنیں گے یا افغانستان کے خلاف جہاد کے مہرے بنیں گے۔ انکی وطن کب اور کہاں ہے انھیں نہیں معلوم. وہ صرف اسلامی تصور کو لیے استعمال ہورہے ہیں ۔اور اپنا ہی خون بہا رہے ہیں۔ سندھ میں وہ سندھیوں کے خلاف کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اور بلوچستان میں وہ بلوچ کے خلاف ریاست کی بی ٹیم بن جاتے ہیں۔ اور جنوبی پختونخواہ میں وہ پاکستانی فوج کے لیے سونے کی چڑیا کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی طالبانائزیشن کی پروموشن کے بعد فوج کے ہاتھوں پشتونوں کا قتل عام پاکستانی فوج کی بیرونی ممالک سے امداد کا بہترین ذریعہ قرار پایا۔ اور پشتون صرف سرحد کا نام تبدیل کرکے اسی خوش فہمی میں ہیں کہ انھوں نے سرحد کا نام تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور بالکل اسی طرح جنوبی پختونخواہ کے قوم پرستوں کی طرح بلوچستان کے مڈل کلاس قوم پرستوں کا ہے۔ جو کچھ مراعات کو کامیابی کا بڑا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن وہ اس بات سے بالکل بھی انجان ہیں۔ وہ شعوری قومی تحریک و بلوچ وطن کے خلاف ریاست کی بی ٹیم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے دن کی مناسبت سے تقریبات پر پشتون پہلے سے ہی پیش پیش تھے۔ اور اب نیشنل پارٹی و بی این پی و دیگر بھی انگریز کی بھگی کو کھینچنے کے لیے پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ان پشتونوں و ان بلوچوں کو اب شاہد یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ پنجابی فوج اپنے مفادات کے لیے کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنانے میں دیر نہیں کرے گی محمد علی لیاقت علی خان جرنل ضیا الحق ذوالفقار بھٹو بے نظیر بھٹو یہ سبھی پاکستان کے نمک حلال تھے۔ لیکن پاکستان نے انھیں کیا دیا۔ خاص کر بھٹو خاندان نے اپنے قوم سے غداری کرکے سندھیوں کو ہمیشہ کے لیے غلامی کے دلدل میں پھینک دیا۔ اور ساہی جی ایم سید کے بعد سندھی بھی بے منزل مسافر بن گئے۔ اور سندھ میں پاکستانی فوج کے مہاجرین جو وقتا فوقتا سندھیوں پشتونوں و بلوچوں کے لیے درد سر بن رہے ہیں۔ پشتونوں و نام نہاد بلوچوں کو شاہد اب احساس ہو جائے کہ پاکستان کی وفاداری کے بدلے بلوچوں و پشتونوں کو لاشوں کے تحفے ملے ہیں۔ اور ملتے ر ہیں گے۔ اگست کا مہینہ پہلے سے ہی بلوچوں کے لیے سوگ کا مہینہ رہا ہے۔ لیکن اب پشتونوں کے لیے بھی سوگ کا مہینہ ثابت ہو رہا ہے۔ آٹھ اگست کو سول ہسپتال میں خود کش دھماکے میں وکیلوں کی ہلاکت پاکستانی فوج کی اس سوچ کی نشاندہی کر رہی ہے کہ وہ جلد یا بدیر حالات کو مزید بگھاڑ کر اپنے اقتدار کے لیے راستہ ہموار کرے گا۔ اس سے پہلے راحیل شریف کے پوسٹرز لگانے و جنوبی پختونخواہ و دیگر علاقوں میں راحیل شریف کے لیے چاکنگ اسی کڑی کا حصہ ہیں کہ فوج کے لیے رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے. اور پشتون قوم پرست محمود خان اچکزئی جوشیلے تقاریر کرکے کچھ دنوں کے بعد خاموشی کی دوائی کھا کر پھر سے پشتونوں کی خون کی ہولی کو دیکھتا رہے گا۔ اب شاہد پشتون قوم پرستوں کو احساس ہوجانا چاہیے کہ وہ پنجابی کا بغل بچہ بن کر اپنے ہی فرزندوں کو قتل کرتے رہے۔ اب اگر پشتون قوم پاکستان زندہ باد نہیں کہے گا تو یہ خوش بختی کی بات ہے۔ دیر آید درست آید. گزشتہ سولہ سالوں میں بلوچ سیاسی ورکروں کی مسخ شدہ لاشیں تواتر کے ساتھ سڑک کے کناروں پر پڑے وطن کی آزادی کے لیے بلوچوں کو پاکستان سے نفرت کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ اور تسلسل کے ساتھ فوج آپریشن و بلوچ قتل عام پر پشتون قوم پرستوں کی خاموشی المیہ سے کم نہیں. اور ایک غلام قوم کی حیثیت سے پشتون لیڈر شپ بلوچ جہد آزادی کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی بلوچ لاپتہ افراد و فوجی آپریشنز کے خلاف انھوں نے زبان کھولی۔ بلکہ وہ خاموش حمایت کے ساتھ ریاست کا حصہ رہے۔ شاہد اب یہ ظلم انکی طرف بھی رخ موڑ چکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پشتون اپنے حقیقی دشمن سے نالاں اپنے اقتدار کے لیے پوری پشتون قوم کو آگ میں دھکیل چکی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ پشتون قوم پرست پنجابی سے ناطہ توڑ دے نہ کہ یہ لاشیں انکے لیے بھی تواتر کے ساتھ آتے جائیں گے. پشتون آج بھی جنوبی پختونخواہ میں اسلام کے نام پر مررہے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے پشتون پشتون قوم پرستی کی بجائے اپنے اقتدار کے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ اور بلوچ نام نہاد قوم پرستوں کی طرح اپنے ہی قوم کے ساتھ خون کی ہولی کھیل کر اقتدار کے مالک بنتے ہیں۔ اب وکلا کی شہادت نیشنل پارٹی سمیت بی این پی و پختونخواہ میپ کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ پنجابی سے اپنا ناطہ توڑ دے نہ تو وہ صرف افسوس ہی کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی سمیت ڈاکٹر مالک و محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ واقعے میں اپنے محبوب ساتھی گنوا چکے ہیں۔ اور ایسے نڈر وکلا جو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اگست گیارہ بلوچ کی آزادی کا دن ہے۔ اور چودہ پاکستان کی آزادی کا دن. اور پشتون قوم پرست چودہ اگست کی تقریبات میں پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد آئندہ پشتون قوم پرست چودہ اگست پر کیا کردار ادا کرینگے۔ کیا وہ بلوچ قوم پرستوں کے شانہ بشانہ سوگ منائیں گے۔ یا اپنے ہی پیاروں کی شہادت کو بھول کر ریاستی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے رہیں گے. گزشتہ رات شہید گزین قمبرانی و شہید سلمان قمبرانی کی لاشیں بلوچ قوم کو چودہ اگست کی مناسبت سے تحفے میں ملے۔ جو کہ ایک سال سے لاپتہ تھے۔ اور گزشتہ روز جعلی مقابلے کا نام دے کر انھیں شہید کیا گیا۔ اور بلوچستان میں کومبنگ آپریشن کے ذریعے بلوچ علاقوں پر یلغار شروع کی گئی ہے۔ ڈیرہ بگٹی و کوہلو میں گزشتہ تین دن سے آپریشن چودہ اگست کی مناسبت سے بلوچ قوم کیلئے تحفہ تھا۔ اور نام نہاد بلوچ و پشتون قوم پرست اس تمام کھیل میں برابر کے شریک رہ کر بی ٹیم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر اب نہیں تو پھر کھبی نہیں. اگر اب تک پنجابی کی بلوچ دشمنی و پشتون دشمنی کو نام نہاد قوم پرست نہ سمجھ چکے ہیں تو پھر جلد یا بدیر ان سے اپنا کام لیکر انھیں بھی ذوالفقار بھٹو و بے نظیر بھٹو کی طرح موت کے گھاٹ اتار دینگے۔ پھر نہ قوم کے رہیں گے و نہ دشمن کے….!
یہ بھی پڑھیں

فیچرز