جمعه, آوریل 26, 2024
Homeآرٹیکلزوطن کا سچا فرزند شہید سعید :تحریر:مہراب مہر

وطن کا سچا فرزند شہید سعید :تحریر:مہراب مہر

چتکان کے چھوٹے سے بازار میں لوگ دکانوں کے باہر بیٹھے زندگی کے خوش گپیوں میں مصروف ہے حاجی صاحب مصمم ارادے کے ساتھ دنیا کے مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے تمام دکانوں کو چھوڑ کر سعید بلوچ کے دکان کے سامنے کھڑے ہو کر حسب روایت علیک سلیک کے بعد موٹر سائیکل کی خرابی کا کہتا ہے اور کچھ وقت بیٹھ کر سعید بلوچ کے ساتھ بلوچستان کے عمومی مسائل پر بات چیت کرتا ہے سعید بلوچ بلا جھجک بلوچستان کی دلخراش صورتحال کا ذکر کرتا ہے کہ اس دفعہ جہد آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوگی کیونکہ اب نوجوانوں نے اس کا بیڑا کندھوں پہ اٹھایا ہے حاجی صاحب آٹھ کر چلے گئے سعید  کونے میں چھپے بارود کو ڈبے میں دبا کر سڑک کے کنارے نصب کرتا ہے اور دشمن کی آمد پر اپنے بنائے ہوئے ریموٹ سے اڑا دیتا ہے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شہید حمید جمال کو ساتھ لے لیتا ہے آج تو کلیجہ ٹھنڈا ہوا شہید داود بھی آ پہنچتا ہے شہید یونس کے لیے پیغام بھیجتے ہیں وہ بھی پہنچ جاتا ہے شہید سعید نے ایک چھوٹا دیگچی بمعہ گوشت و دیگر سامان کے ساتھ اٹھایا ہوا ہے آج دشمن پر موثر حملہ ہوا سب خوش ہیں شہید سعید دیگر دوستوں سے بات چیت کررہا ہے شہید داود دیگ پکا رہا ہے اس گوشت کی مٹھاس کچھ اور ہی ہوگی اور خوشبو بھی کمال کی ہے جانتے ہو شہید سعید اپنے دن بھر کی کمائی آس خوشی میں ہمیں پکنک دے رہا ہے کہ دشمن پر موثر حملہ ہوا ہے چاروں دوست تحریک آزادی کے ہمسفر و ہم راہ ہونے کے ساتھ بہت ہی قریبی دوست ہیں ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے ساتھ علیحدہ شناخت رکھتا ہے لیکن کچھ لوگ معاشروں میں نمایاں کردار کے طور پر ابھرتے ہیں کیونکہ انکے بروقت فیصلے انھیں عظیم سے عظیم تر بنا دیتے ہیں شہید سعید بھی ایسے ہی ایک کردار تھے اس نے اپنی آنکھ انتہائی غریب گھرانے حسن کے گھر میں کھولی. بچپن غربت میں گزری نوجوانی میں قدم رکھتے ہی انھوں نے گھر کا بار بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا وہ خاموش طبع نفیس انسان تھے جوانی میں وہ قومی جہد سے منسلک ہو چکے تھے وہ شہید ٹھیکیدار یونس شہید داود شہید حمید جمال کے ساتھ کام کرتے تھے انہوں نے بی ایل ایف کے پلیٹ سے 2008میں ٹریننگ لی اور شہری نیٹ ورک سے جڑ گئے اور انتہائی  بہادری کے ساتھ میدان میں اپنے بے لوث جذبے کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتے رہے وہ گوریلا جنگ کے ہنر بخوبی جانتے تھے اپنے دیگر دوستوں سے زیادہ اس میں یہ صلاحیت  تھی وہ اپنے آپکو کیموفلاج کرنے کے ساتھ ٹیکنیکل طور پر وہ کم بارودی مواد سے زیادہ نقصان دینے کا ہنر بخوبی جانتے تھے وہ بطور انجینئر کام کرتے تھے وہ خود اپنے دکان میں موٹر سائیکل بناتے تھے اور کسی ٹیکنیکل ادارے سے پڑھے بغیر وہ اپنے دکان میں تجربے کرکے سیکھ چکے تھے اور اپنے اس ٹیکنیکل علم کو وہ قومی جہد آزادی کے لیے استعمال میں لا رہے تھے اور وہ اپنے اس ہنر کی وجہ سے دشمن کو یکے بعد دیگرے نقصان دیتے رہے. وہ ہر وقت دشمن کو نقصان دینے کے لیے ترکیبیں بناتے تھے اور جلد اپنے ترکیب پر عمل کرتے تھے. اس میں کام کرنے کی لگن تھی وہ مکمل طور ایک فوجی تھے اور فوجی تمام قوانین جو ایک گوریلا پر لاگو ہوتے ہیں وہ اپنے اوپر لاگو کرتا تھا وہ خود آزاد تھا لیکن تحریک کے ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر وہ خود کو مکمل پابند بناتے تھے وہ اپنی مدد آپ کے تحت جہد کے لیے وسائل پیدا کرتے تھے اور تحریک کے لیے کام کرتے تھے وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے ہر کام کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ دن کو اپنے گیراج میں کام کرتے تھے اپنی گھریلو ضروریات و گزر بسر کا بندوبست کرتے تھے رات کو وہ اپنے منصوبوں پر عمل کرتے تھے وہ ایماندار مخلص نڈر سپاہی تھے وہ وقتا فوقتاً کیمپ جاتے تھے اور نئے وسائل لیکر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے دشمن کو اسکے دوستوں تک رسائی حاصل ہوچکی تھی شہید حمید جمال کوئٹہ سے پنجگور آتے ہوئے راستے سے فورسز نے اغواہ کر لیا تھا لیکن وہ شہر میں اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا اس دوران سیاسی اختلافات کی بنیاد پر وہ بی آر اے کے ساتھ منسلک رہے اور بی آر اے میں بھی وہ ایمانداری کے ساتھ اپنی جد وجہد جاری رکھی دشمن کے کاسہ لیس اسے اسکے گھر والوں کو دھمکی دیتے رہے لیکن وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے قومی فرائض سر انجام دیتے رہے.وہ اپنے دوستوں سے اکثر کہا کرتے تھے اگر ایسی نوعیت آئی کہ دشمن مجھ تک پہنچ گئی تو یقین جانو. زندہ حالت میں وہ مجھے گرفتار نہیں کر سکے گا وہ اسی سوچ کے تحت بے آسرا وار شہر میں اپنے کام جاری رکھا ہوا تھا وہ دشمن کے لیے خطرہ بن چکے تھے وہ بی آر اے کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے شہید حمیدجمال دشمن کے زندان میں موت و زندگی کی کشمکش میں تھے شہید ٹھیکیدار یونس پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور شہید داود بی ایل اے میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اس چھوٹے سے گروپ کے دوست حالات کے تحت علیحدہ علیحدہ میدانوں میں وطن کی آزادی کے لیے دوڑ رہے تھے شہید سعید پنجگور میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دشمن کے مدمقابل کھڑے تھے وہ اپنی موت کا فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ دشمن کے مدمقابل رہ کر اسے شکست دینگے وہ اپنے ٹھکانے پر تھے وہ اپنے بچوں و بیوی سے ہزار قسمیں و وعدے کیے تھے لیکن وطن کی آزادی کے اس جہد میں وہ انھیں پورا نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ اس عظیم مقصد کے لیے اپنی ماں و بچوں کو بلوچستان کی آزادی کا خواب دکھاتے تھے ان کے گھر والے بلوچستان کی آزادی کا خواب لیے اپنے دن غریبی میں گزار رہے تھے وہ اپنے ٹھکانے پر  محو خواب تھے دشمن اسکے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر چکا تھا وہ اٹھ چکا تھا. صبح کے قریبا چار بجے تسپ پنجگور میں شہید اپنے مورچے میں پہنچ چکے تھے چاروں طرف دشمن نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا شہید سعید مسکراتے ہوئے اپنی بندوق دشمن کی طرف کرکے جنگ شروع کردی بندوق کی آوازیں علاقے کے لوگوں کو حواس باختہ کرچکے تھے بلوچ مائیں سرمچاروں کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے وہ بلوچستان کے ان محافظوں کی سر کی سلامتی کے لیے ہاتھ اوپر اٹھائے ایک روشن صبح کی امید لیے ہوئے تھے شہید سعید دلیری کے ساتھ دشمن کے مدمقابل ڈٹ کر مقابلہ کر رہا تھا وہ دشمن کا منہ توڑ جواب دے رہا تھا وہ اپنے مورچے بدل بدل کر دشمن پر وار کر رہا تھا صبح کی پہلی کرنین زمین کو اپنی روشنی سے منور کر رہی تھی شہید سعید اب تک لڑ رہا تھا دشمن روشنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر چاروں اطراف سے حملہ آور ہوا شہید سعید اپنے قول کے تحت دشمن کو گرفتاری دینے سے اپنی موت کو ترجیح دی اور وہ دشمن کی گولیوں کی بوچھاڑ میں زمین پر گر گیا 26 فروری 2013 کی یخ بستہ صبح میں وطن نے اپنے جانثار لخت جگر سے اپنی پیاس بجائی اور ہمیشہ کے لیے وطن کا یہ جانباز سپاہی بلوچ تاریخ میں امر ہوگیا. شہید سعید کے ساتھ جدوجہد میں اسکا بھائی امان اللہ بھی ساتھ تھا وقت کی بے رحمی دیکھیں شہید سعید وطن کے لیے جام شہادت کو پی گیا جبکہ اسکا بھائی اسکی شہادت کے بعد وطن کی آزادی کے بیرک کو ہاتھ میں لیے میدان جنگ کا حصہ بنا رہا لیکن اسکی شہادت کے تین سال بعد وہ اپنے بھائی سمیت تمام شہداء کے خون کو بھول کر دشمن کے سامنے سرنگوں ہوگیا یہ ہے تاریخ کی بے رحمی کہ ایک وطن کے لیے امر ہوگیا جبکہ دوسرا بھائی وطن سے غداری کرکے دشمن کے گود میں بیٹھ گیا وقت ہے زندگی ہے اپنے مختلف رنگوں کو دکھاتا رہتا ہے ایک طرف دشمن سے وفاداری ہے تو دوسرا بھائی وطن سے وفاداری کا سوگند لیکر امر ہوتا ہے. یہ فرق عشق وطن میں ہمیشہ نمایاں رہتا ہے اور یہی فکر و سوچ وطن سے محبت کرنے والوں کا انوکھا باب رقم کرتا ہے 

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز