منگل, مئی 21, 2024
ہومآرٹیکلزآزادی کے دیوانوں کا مکالمہ1: تحریر:مھراب مھر

آزادی کے دیوانوں کا مکالمہ1: تحریر:مھراب مھر

آسمان پر کالے بادل اپنے پر کھولے پورے سرزمین کو لپیٹ میں لے کر اپنے آنسو برسا رہی تھی درخت جڑی بوٹیاں ان آنسوؤں میں نہا کر تازہ دم ہو رہے تھے پہاڑ اپنے دھول مٹی دھو کر برساتی نالوں میں بہا رہے تھے۔ پہاڑ کے نیچھے چھوٹے چھوٹےبرساتی نالے سانپ کی طرح پیچ و تاب کے ساتھ آنسووں کی رنگت کو بھورے رنگ میں تبدیل کر کے ڈھول کی تاپ پر ناچنے کا سر پیدا کررہے تھے ۔ اس موسم میں لطف اندوز ہو کر پرندے ٹہنیوں پر اپنی چہچہاٹ کو روک نہیں پا رہے تھے سال بھر کی قحط سالی کے بعد آسمان کے گرتے آنسو موت کو زندگی بخش رہے تھے موت کے بعد زندگی کا تصور ہی انسان کے بکھرے روح کو یکجاہ کرنے کا سبب پیدا کر رہے تھے زندگی و موت کے بیچ درد و تکلیف کا کربناک عمل زندگی کو زندگی بخشنے کا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ موت کی حقیقت زندگی سے محبت کا سبب بنتی ہے زندگی سے محبت ہی موت کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے زندگی و موت کے بیچ اس سفر میں ہزاروں خواہشیں امنگیں پاتال پر لٹک کر ابدی نیند سو جاتے ہیں اور رہ جاتے ہیں وہ خیالات و نظریات کہ جن کی بنیاد پر زندگی سے محبت و موت کی حقیقت کو سمجھ کر سفر جاری رکھا جاتا ہے انھیں نظریات کی رو سے معاشروں کی ازسر نو تخلیق ہو جاتی ہے اور آزاد سماج میں سانس لینے کا جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔علی اپنے خیالوں میں اپنی سرزمین کی خوبصورتی کو دیکھ کر آزادی کے حسین پری سے بغل گیر ہورہا تھا شاکر نے آواز دی. کیا ہم آزادی لے پائیں گے؟ ہنستے مسکراتے علی نے جواب دیا انشااللہ. شاکر پھر سے اپنے توپ علی طرف گھما دیا اچھا مطلب اللہ کی مرضی پر آپ نے سب کچھ چھوڑ دیا اگر اللہ نے چاہا تو ہم آزاد ہونگے بصورت دیگر نہیں. ویسے بھی جو کام ہمارے بس میں نہ ہو اسے اللہ کے مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اللہ کوئی معجزہ کرے انسان جب بے بس ہوتا ہے تو خدا سے رجوع کرتا ہے نہ کہ وہ ہر چیز کو اپنے عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور ہم بھی ایسے ہی ہیں جہاں پر بے بس ہوتے ہیں تو اپنے نظریات کو مافوق الفطرت معجزوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں اور اپنے زور بازو کے بدلے کسی اور کے طاقت پر انحصار کرتے ہیں تاکہ کوئی اور آ کر اس عذاب تکلیف سے ہمارہ جان چھڑائے جب ہم اس سوچ کے ساتھ محو سفر ہیں تو پھر کامیابی کی توقع رکھنا بے وقوفی ہی ہوگی. تم کہنا کیا چاہتے ہو میں نے جوکہنا تھا کہہ دیا کہ ہم بھی اپنی آزادی کے لیے مافوق الفطرت طاقت پر آنکھیں ٹکائے ہوئے ہیں تاکہ وہ آ کر ہمیں آزادی دلا دے. علی ہنستے ہوئے میں نے تو ایسا نہیں کہا اور نہ کہ اکیسوی صدی میں ایسا ممکن ہے اس سرمایہ دور میں مفادات کی جنگ ہیں ہماری آزادی کسی کے مفاد میں ہے تو وہ بقول آپکے مافوق الفطرت بن کر ہماری مدد کرے گا لیکن وہ بھی اس صورت میں جب وہ اپنے مفادات کو ہمارے سرزمین پر محفوظ پائے گا تو وہ ضرور ہماری مدد و کمک کرے گا اسے انسانی ہمدردی سے زیادہ اپنے مفادات کی فکر ہوتی ہے اور اس دنیا میں ایک دوسرے سے دوستی و دشمنی مفادات کے بل بوتے پر ہوتی ہے آپکے سوچ کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی کا انتظار کرنا چاہیے لیکن ہم تو ایسا نہیں کر رہے ہیں بلکہ میدان جنگ کا حصہ بن کر اپنی وس و طاقت سے ہم سے جو بن پا رہا ہیں ہم کر رہے ہیں اور اس سے زیادہ ہمارے پاس طاقت نہیں. جو لوگ یا دوست ہم سے زیادہ توقع رکھتے ہیں یہ انکی کمزوری ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور ہماری قوت سے زیادہ توقع رکھتے ہیں دیکھو جنگ ایک بے رحم عمل ہے جنگ کے قصے بہت ہی زیادہ رومانوی ہوتے ہیں انگلش و ھندی فلموں کو دیکھ کر جنگ سے لطف اندوز ہونا یا کسی کاروائی کے ویڈیو کو دیکھ کر وا وا کرنا اور اپنے من پسند نتیجے تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں اور اسی مواد کے تحت جنگ کا تجزیہ کرنا و دنیا کے اتار چڑھاؤ پر بحث مباحثہ و تجزیہ کرکے حقائق سے چشم پوشی ہی ہوتا ہے اور اسی وجہ سے جب ان کے سامنے حقیقت آ جاتی ہے تو وہ مایوسی کی گہری کھائی میں گر کر پھر ان میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی. اس طرح ایسے لوگ مایوس ہو کر یا تو خاموشی کا چادر اوڑھ کر مافوق الفطرت کرداروں کی طرف دیکھتے ہیں یا یورپی ممالک سے آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ دشمن کے سائبان تلے چلے جاتے ہیں اس سے نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی گلہ. سوال کا محور یہ ہے کہ آیا یہ لوگ اتنے کمزور دل تھے جو آزادی کو لڈو سمجھ کر کھانا چاہتے تھے اور جب انکے سامنے حقیقت آشکار ہوئی اور آزادی کے لیے سخت حالات کا سامنا ہوا وہ برداشت نہ کرسکے وہ مایوس ہوئے میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ایک شخص جب جہد آزادی میں قدم رکھتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سال میں جنگ اسکے لیے رومانویت ہو ایڈونچر ہو لیکن جلد ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ حقیقت کتنی سخت و تکلیف دہ ہے پھر اتنے سالوں کے بعد دشمن کے سائبان تلے جانا یہ نہ سمجھنے والی بات ہے تو پھر تم کیا کہنا چاہتے ہو. میرے خیال کے مطابق جہد آزادی میں تمام لوگ اس سوچ کے تحت آتے ہیں کہ انھیں اپنے قومی حقوق کا تحفظ نظر آتا ہے اور وہ غلامی کے بے رحم جبر و تشدد و اپنے تاریخ و ثقافت کے ساتھ کھلواڑ کے خلاف وہ قومی احساس و جذبے کے ساتھ جہد آزادی کا ہمسفر بنتے ہیں اور پھر اس وقت وہ اتنے پختہ نظریے کے ساتھ جہد کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ ان میں نظریاتی پختگی پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے اور ہم سے مراد ادارے کی ہیں کہ وہ تسلسل کے ساتھ ان نوجوانوں کی تربیت کرے تاکہ وہ نظریاتی طور پختہ ہوں اور شعوری طور جہد کا حصہ ہوں کیونکہ جذبہ کے بنیاد پر لوگ جہد میں شامل ہوتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت ان سے کام لیتے ہیں اگر جذبہ کو نظریہ و شعور کا پابند نہ رکھا گیا تو جذبہ جلد ٹھنڈا ہو کر کوئی اور رخ اختیار کرے گا اور چھوٹا سا عمل انھیں کمزور کرکے مایوسی کے گود میں بٹھائے گا اور ادارتی حوالے سے جو کام کرنا تھا وہ نہ ہوسکا ہے اس وجہ سے آج پورے بلوچستان میں تحریک کی حالت یکساں ہے اسکی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کہ ہم نے ادارتی حوالے سے کام نہ کیا اور جذبات کی بنیاد پر جہد آزادی کی جنگ لڑتے رہے اس وجہ سے ہم کمزور ہوئے اور اپنے لوگوں کی شعوری تربیت نہیں کی. یہ آپ کا نقطہ نظر ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ نقطہ نظر درست ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ غلط ہو. فرق صرف زاویہ نظر کی ہے جس زاویے سے آپ دیکھتے ہیں میں وہاں سے نہیں دیکھتا. دو لوگ بہ یک وقت ایک ہی مسئلے پر دو مختلف آرا کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں کی معلومات علم و شعور ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور ہر ایک اپنے ہی زاویے کو صحیح سمجھتا ہے اور اگر اپنے زاویے نظر کو درست سمجھ کر اس پر ہٹ دھرم رہے گا تو یہی سے مسلئے جنم لینگے ہٹ دھرمی ہی مسئلوں کی وجہ بنے گا اب بات زاویہ نظر کی ہے جو مشتحق ہے علم و شعور سے. اگر آپ کی علمی بستار اور ہے اور دوسرے کی اور. تو یہی سے فرق پیدا ہوگا پھر بھی مسئلہ علمی زانت کا نہیں بلکہ نظریہ کا ہے آزادی کو نظریہ مان کر ہم دیکھیں تو طریقہ کار گوریلا جنگ دنیا سے مدد و کمک پر ہم سب ایک متفق ہیں خیر یہ تو اور مسلئے ہیں اب آتے ہیں شعور پر. میں بذات خود یہ سمجھتا ہوں کہ لوگ بالکل جہد آزادی کو ایڈوینچر سمجھ کر جہد آزادی کا حصہ بن گئے لیکن ان وقت و حالات میں لوگوں کی تربیت کا دار ومدار عمل پر رکھا گیا کہ وہ سب کچھ عمل کر کے ہی بہتر سیکھ سکتے ہیں اور رسمی تربیت سے غیر رسمی تربیت کو اہمیت دی گئی جس پر ہمیں کامیابی ملی. اگر ہم اس بات کو جواز بنا کر بحث کرے کہ لوگ مایوس اس وجہ سے ہوئے کہ ان کی تربیت نہیں کی گئی تھی اتفاق نہیں کرتا ہاں کمزوریاں بہت ہیں اور آزادی تک یہ کمزوریاں رہیں گے اور کم و زیادہ ہونگے اگر کمزوریاں نہ ہوتے تو ہم اتنے عرصے تک غلام نہ رہتے سب سے پہلے یہ بات ذہین نشین کر لینی چاہیے کہ ہم غلام ہے اور غلام ہر حوالے سے ہی قابض کے دست نگر ہوتا ہے اور اسکی تربیت قابض کے اداروں میں ہوتی ہے اور وہ اسی شعور کے ساتھ جہد آزادی کا حصہ بنتا ہے اور تحریک میں آنے سے پہلے اس میں قابض کے تمام رویے غلامانہ نفسیات کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اس بنیاد پر اس کی تربیت کا عمل مسلسل جہد میں ہی ہوتا ہے اور پھر ہر فرد کا مسئلہ دیگر سے علیحدہ ہوتا سب کے بارے رائے ایک نہیں ہوتی کسی کی مایوسی کی وجہ بیرونی مدد نہ ملنا ہو سکتا ہے کسی کا دشمن کا زیادہ طاقتور ہونا کسی کا ہماری کمزوری. وغیرہ غرض یہ سب جہد کا حصہ ہیں آزادی کی جنگ کی جب ابتد ہوئی تو موب کے تحت لوگ تحریک میں شامل ہوئے کچھ نام کمانے کچھ شوبازی و کچھ اس جہد کی گہرائی کو سمجھ نہ پائے اور نہ ہی ریاستی ظلم و جبر و آنے والے حالات کا ادراک کر سکے کہ جہد آزادی کا مقصد موت و زندگی کے بیچ دکھ و تکلیفوں کا سفر ہے اور اس سفر کا مقصد ہی آزادی ہے کہ اپنی چھوٹی دنیا میں رہ کر وطن کو آزاد کرنے کا وہ عزم ہی آزادی ہے دنیا کے ممالک اپنے مفادات کا تحفظ جس ملک میں سمجھتے ہیں وہ اسی کے ہو کر رہتے ہیں اس پر پھر کھبی بات کرینگے آپ جن لوگوں کی بات کرتے ہیں ان میں ہر شخص کا قصہ ہی مختلف ہے اب دیکھ لو کچھ قبائلی سوچ کے تحت تحریک سے جڑ گئے کچھ نوجوان حالات کی سنگینی سے بے خبر جذبے کے تحت تحریک کا حصہ بنے اور اپنے اندر تبدیلی نہ لا سکے کہ وہ کتنے بڑے و عظیم مقصد کے لیے جہد کر رہے ہیں بلکہ وہ جلد ہی اپنے خواہشات کو چھوڑ نہ سکے اور تحریک کو اپنے مفادات کے ڈگر پر لے جانے کی کوشش کرنے لگے اور اپنے مسائل کاحل تحریک سے جڑنے کو سمجھتے رہے اور تحریک سے وابستہ رہ کر اپنے مسائل حل کرتے رہے جیسے بعض لوگ اپنے پرانے گھریلو مسلوں کو تحریکی مسائل بنا کر ایک دوسرے پر بندوق تانتے رہے وہ تحریک کو اپنے لیے شیٹلر بنا کر تحریک سے جڑے رہے اسطرح ایسے لوگ جو ایک منصوبے کے تحت تحریک کا حصہ رہے وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے بعد تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرتے گئے اور حالیہ مسائل کا بنیاد یہی ہے اس میں تنظیمی و تحریک کا مسلہ نہیں کہ اداروں نے انھیں سنبھالنے یا انکی تربیت نہیں کی. اور ان بیس سالوں میں ضرور کمزوریاں رہے ہیں کوتاہیاں رہے ہیں لیکن وہ انھی ہر سطح پر حل کرنے کی کوششیں کی گئی اور وہ ایک حد تک حل ہورہے تھے اور دنیا میں کوئی چیز بھی مکمل نہیں ہوتا ہر عمل کسی سوچ کو مکمل کرنے کے لیے ہوتی ہے اور ہم بھی اپنے وطن کو آزاد کرنے کے لیے میدان عمل میں ہے اور ہم بھی سیکھنے کے کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور ایسے مسائل آتے رہیں گے اور ان مسائل سے ڈر کر رو پوش ہونا جرم ہے بلکہ ان کے حل کے لیے پختہ یقین کے ساتھ جدوجہد کی جائے تب ایسے مسائل کا حل ممکن ہو سکے گا اس پر پھر کھبی بات کرینگے بارش رک گئی تھی نمی کی خوشبو چاروں طرف پھیل چکی تھی آزادی کے دیوانے اپنے خیالوں میں آزادی کے حسین پری سے بغل گیر ہورہے تھے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز