منگل, مئی 21, 2024
ہومآرٹیکلزدشمن کی پہچان :تحریر بشیر زیب بلوچ

دشمن کی پہچان :تحریر بشیر زیب بلوچ

"خود کو پہچانو ایک کیا تم ہزار جنگیں جیت جاؤگے‘‘
شکست، مایوسی اور راہ فراریت کے اسباب کا بنیادی فلسفہ ہمیشہ اپنے اور دشمن کی عدم پہچان میں پنہاں ہے۔اپنی قوت کو نہ سمجھنا ہو ، یا پھر دشمن کی طاقت کا عدم پہچان دونوں صورتوں میں یہ جنگ کے بنیادی محرک یعنی طاقت کے بابت غلط اندازوں کو جنم دیتا ہے اور آپ کو شکست اور مایوسی کے دھانے پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر آپ اپنی اصل قوت کو نہیں پہچانتے ، آپ یہ نہیں جانتے وہ کیا ہے اور کتنا ہے پھر آپ ایک بے رحم جنگ میں اپنے مضبوط جہتوں کے بجائے دشمن کے سامنے اپنا کمزور پہلو پیش کردیتے ہیں ، شطرنج کے بساط کی طرح ایک کمزور چال دشمن کو موقع دے دیتا ہے کہ وہ آپ پر ایک وار کرے اور پھر دبوچ لے۔ اسی طرح اگر آپ دشمن کے حقیقی قوت اور اس کی صلاحیتوں سے نا آشنا ہیں پھر یا تو آپ ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار ہوکر نقصان اٹھائینگے یا پھر دشمن کے کمزور پہلوؤں کو سامنے دیکھ کر بھی عدم پہچان کی وجہ سے وار کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ بہر صورت نقصان آپ ہی اٹھائیں گے۔
ایک انسان جب موضوعیت کا شکار ہوکر تصورات کی بنیاد پر قدم اٹھاتا ہے یا پھر کوئی فیصلہ کرکے قدم اٹھاتا ہے تب جب بھی اس کے خیال حقیقت کے سامنے روبرو ہوجاتے ہیں تو تصور زمینی حقائق سے ٹکرا کا پا ش پاش ہوجاتے ہیں ۔ تب انسان اپنے خام خیالی ، غلط فہمی یا پھر خوش فہمیوں کی وجہ سے خود کو خود فریبیوں کے ایسے گرداب میں پاتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا بہت مشکل کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے اور وہ
خود کو قدرے نوخیز مگر درشت حالات میں پاکر ششدرہ رہ جاتا ہے۔ یہی کیفیت اسے مایوسی اور بزدلی کی طرف دھکیل دیتا ہے ۔
قوم ، قومی مزاج ، قومی حالات و تقاضے اپنی جگہ مسلمہ حقائق ہیں اور ہر پل جہد کاروں اور جہد پر اثر انداز لا محالہ ہوتے رہتے ہیں لیکن قوم کی رائے ، سوچ ، نقطہ نظر اور خواہشات کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی آزادی کی تحریکوں کی پالیسیاں بنی ہیں اور نا بگڑی
ہیں اور نہ ہی بننے و بگڑنے چاہیں ۔ کیونکہ ایک قوم کے عام افراد پر معمولی سیاسی ، سماجی یا معاشی دباؤ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور وہ معمولی دباؤ سے اجتماعی فوائد کو بالائے تاک رکھ کر انفرادی بچاؤ یا فائدے کی طرف مائل ہوجاتا ہے ۔ یہ مزاج غیر مستقل مزاجی اور سطحیت پیدا کردیتا ہے جو کسی بھی تحریک کیلئے زہر قاتل ہے ۔ ہاں البتہ مذکورہ بالا محرکات کو مد نظر رکھ کر زمینی حقائق کے تحت فیصلہ کرنا درست ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح دشمن کے حوالے سے قومی مزاج اور قومی رائے اپنی جگہ لیکن المیہ تب جنم لیتا ہے جب جہدکار کارکنوں سے لیکر
ذمہ اروں تک قوم یا عوام کی طرح سوچنا یا اثر انداز ہونا شروع ہوجائے۔ تو پھر قوم کے ایک عام فرد اور ایک جہد کار کے مابین شعور، علم اور آگاہی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ پھر عوام اور جہدکار سوچ کے حوالے سے ایک صف میں کھڑے ہونگے۔جو تحریک کیلئے قطعاً مناسب نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر دشمن ریاست پاکستان کے حوالے یہ رائے قائم کرنا کہ فلاں دور یا وقت میں بلوچوں پر اس قدر ظلم و جبر کا بازار گرم نہیں تھا یا پھر موجود حالات کے تندہی سے یہ اخذ یا امید کرنا کہ آنے والے وقت میں حالات بہتر ہونگے۔ یا یہ سوچنا کہ پہلے کیوں حالات ایسے سخت نہیں تھے اب ہوئے، یا ان سخت حالات کے بابت یہ تصور قائم کرنا کہ یہ سب ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہورہا ہے محض سطحیت اور بلوچ قومی تحریک کے تاریخی حرکت سے نا آشنائی ہے ۔ بالفرض اگر یہ ظلم و جبر ہماری کمزوریوں کا حاصل ہے پھر اس کا مطلب ہے دشمن ریاست بری الذمہ ہوگیا
قطع نظر ہماری اپنی کمزوریوں یا خامیوں کے، لیکن ریاست کی مرحلہ وار پالیسوں کو نظر انداز کرنا بھی لاعلمی ہے ۔ریاست کی جنگ ظلم جبر حربہ سازش نسل کشی تباہی بربادی بلوچوں کو مکمل فنا کرنے کی پالیساں ہیں اور ان پر عمل درآمد اسی دن سے شروع ہے جس دن بلوچ سرزمین پر پاکستان قبضہ گیر ہوا۔لیکن ضرور ت اور ہماری ردعمل کے باعث شدت، شکل اور طریقہ کار مختلف ہوتا رہا ہے۔یہ دشمن ریاست کی اپنی پالیسی اور حکمت عملی ہوتا ہے کہ اسے کب اور کس وقت میں کہاں اور کس طرح کرنا ہوگا۔یعنی کبھی وہ گلاب جامن کے اندر زہر ڈال کر کھلاتا ہے تو کبھی بغیر گلاب جامن کے زبردستی منہ میں زہر ٹھونستا ہے۔ بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خاطر جو دستیاب حربے ہوں اور جو بھی وقت و حالات کے مطابق ممکن ہو دشمن وہ تمام منصوبوں اور پالیسیوں پر شروع دن سے انتہائی تیزی کے ساتھ عمل درآمد کررہا ہے۔ دشمن کی قوت کے استعمال کو بھٹو ،مشرف، ایوب خان وغیرہ سے جوڑنا یا اس کی شدت کا تقابل ماضی کے جبر سے کرنا عوامی سطحی رائے ہوسکتا ہے لیکن اگر یہی تحریک کو حرکت دینے والے جہد کار کا بھی نقطہ نظر ٹہرا تو پھر یہ ناکام پالیسیوں ، خستگی ، انتشار اور غیر مستقل مزاجی کو جنم دیتا ہے۔
آج کی صورتحال اس لحاظ سے مختلف اور شدت کے سا تھ محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ قوم بھی دشمن کے خلاف انسرجنسی میں مصروف
عمل ہیں۔جب مظلوم ظالم یعنی قبضہ گیر کے خلاف نجات کے حصول کی خاطر انسرجنسی کی راہ اپناتی ہے تو قبضہ گیر دشمن بھی کاونٹر انسرجنسی کی پالیسی پر مکمل اتر جاتا ہے۔پھر وشمن مرحلہ وار تسلسل کے ساتھ کاونٹر انسرجنسی کی تمام طے شدہ حربوں کو بروئے کار لاتا ہے۔پھر مظلوم اور ظالم کی حوصلوں کی جنگ نفسیاتی حوالے سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی جس تیزی سے اور وسیع پیمانے پر مزاحمت ہوگی اتنی ہی تیزی سے دشمن کے بے رحم قوت کا استعمال ہوگا مطلب دشمن کی قوت کی شدت از خود مزاحمت کی شدت و کامیابی کا ایک ’’ اسکیل ‘‘ ہے اور اس کی کامیابی کا پتہ دیتا ہے ۔ بڑھتے مزاحمت کے ساتھ دشمن وہ تمام حربے تیزی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیتا ہے جن کے منفی اثرات سے مظلوم قوم نفیساتی شکست کھاکر کامیابی کی امید سے ناامید ہوکر بے حوصلہ ہو اور مزاحمت کی راہ کو چھوڑ دے۔
لوگوں کی اغوا ء نما گرفتاریاں ، طویل عرصے تک گم گارکرنا، اس کے بعد تشدد ذدہ لاشیں پھینکنا، یا کبھی کبھی لاش کو ایسا مسخ کرنا کہ کوئی پہچان ہی نہ سکے ۔ ماں باپ بہن بھائی، رشتہ دار، دوست ہرروز یہ پریشانی میں مبتلا ہو کر گذاریں کے پتہ نہیں نئی ملنے والی نا قابل شناخت مسخ شدہ لاش ہمارے لختِ جگر کا تھا یا کوئی اور۔یہ کیفیت بذات خود نفسیاتی وار کا حصہ ہے۔شہید کرنے کے بعد بھی دانت، آنکھ، ناخن نکالنا، پیٹ چیرنا،منہ پر تیزاب چھڑکنا، یعنی عبرت کانشان بنا کر یہ پیغام دینا کہ ہم اس طرح بھی کرسکتے ہیں ۔ تاکہ دوسروں پر نفسیاتی اثر پڑ جائے اور وہ خوف کاشکار ہوں۔
اسی طرح اگر کوئی بھی بلوچ انسرجنسی کا حصہ ہے تو اس پر پریشر ڈالنے کی خاطر اس کے بوڑھے باپ یا بھائی اور رشتہ داروں کو گرفتار کر نا یا شہید کرنا گوکہ ان کا انسرجنسی سے تعلق ہی نہیں۔یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی مزاحمت کار گھر میں موجود نہیں ہے اس کے باوجود گھروں پر مسلسل چھاپے مارنا، گھروں کو جلانا، لوٹ کھسوٹ کرنا خاندان کو ڈرانا دھمکانا و غیر ہ کا مقصد نفسیاتی حربہ استعمال کرنا ہے۔تاکہ خاندان اور خاص کر بلوچ جہد کارنفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر جہد سے دستبردار ہوجائیں ۔ اسی طرح دشمن ہر جہدکار کے خاندان، عزیز قریب یا قرب و جوار میں ایسے بے ضمیر تنخواہ دار ایجنٹ بھی پیدا کرچکا ہے جو دشمن کو بہت زیادہ طاقت ور اور جہد کاروں کو بیوقوف ثابت کرنے کی خاطر خاندان والوں کے سامنے دن رات نقشہ کھینچتے رہتے ہیں اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں بلاواسطہ یا بالواسط ریاست کی حمایت کرکے ریاست کیلے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قصور وار ریاست کو نہیں جہدکار کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ تمام تر حربے قوت کی جنگ کے علاوہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ جب کوئی قوم چاہے جتنی بھی طاقتور ہو نفسیاتی طور پر شکست مان لے تو پھر وہ کوئی جنگ کیا ایک معرکہ بھی نہیں جیت سکتا۔
اسی طرح دشمن ریاست اپنی بلوچ نسل کشی تشدد ظلم جبر پر پردہ ڈالنے اور اپنی بدمعاش فورسز کیلئے بلوچوں میں ہمدردی پیدا کرنے کی خاطر فورسز کے ذریعے فری میڈیکل کیمپ اسکولوں میں تقریبات کی شوشہ سے لیکر بلوچوں میں آٹا اور چینی وغیرہ بانٹنا اور خاص کر میر و معتبروں کو مصنوعی عزت دے کر سادہ لوح بلوچوں کو جہدکاروں کے خلاف اکسانا اور استعمال کرنا بھی ریاستی کاونٹر انسرجنسی کا حصہ ہے۔
ریاست خاص کر میڈیا کو ہمیشہ لالچ اور خوف کے ذریعے کنٹرول میں رکھ کر اپنے مذموم عزائم اور وحشیانہ حرکتوں کو جائز اور جہدکاروں کی حقیقی اور تاریخی جہد کو ناجائز و غلط ثابت کرنے کی خاطر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بطور ریاستی مشنری استعمال کررہا ہے۔آج
بلوچستان کے حوالے سے مکمل میڈیا ریاستی جانبداری کا شکار ہوکر صحافتی بدنیتی کے انتہاء کو پہنچا ہوا ہے اور مسلسل ریاستی بلوچ دشمن ایجنڈے اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں صحافی برادری تحریک کو کچلنے کیلئے ایک ریاستی کاؤنٹر انسرجنسی ستون کا کردار ادا کررہے ہیں۔جو انسانی تاریخ میں صحافت جیسے مقدس علم اور پیشے کے ساتھ بد ترین بلاد کار کے مترادف ہے۔وقت موجود ریاست کے کاونٹر انسرجنسی پالیسیوں کی تشہیر میڈیا اور درباری کالم نویس یک طرفہ طور پر پیش کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔اور بلوچ قوم کی آواز اور اصل صورتحال کو پیش کرنے سے مکمل دانستہ چشم پوشی کر رہے ہیں۔ جو کہ ریاست کی مجرمانہ کردار میں ملوث ہونے کے زمرے میں آتی ہے۔
اسی طرح آج کل دشمن بڑے زور شور سے اپنے تخلیق کردہ زرخرید ایجنٹوں کو بلوچ جہدکار ظاہر کرکے میڈیا کے سامنے ریاست کو تسلیم کرنے کی ڈرامہ رچا کر سرنڈر کروا رہے ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف تو عالمی میڈیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش ہے کہ بلوچ پاکستان کو تسلیم کررہے ہیں تو دوسری طرف بلوچ عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش ہورہا ہے کہ تحریک اب ختم ہوچکا ہے۔ فرض کریں اگر تحریک ختم ہورہا ہے تو پھر ہر روز پورے بلوچستان میں کئی برسوں سے لیکر آج تک بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن، بلوچ نوجوانوں کی اغوانما گرفتاریاں، گمشدگیاں، جیٹ طیارو ں اور ہیلی کاپٹروں کی آمدورفت ،شیلنگ و بمباری سے لیکر بڑے پیمانے پر فوجی نقل وحرکت سمیت نئے نئے فوجی چیک پوسٹ اور چوکیوں کی قیام کس ضرورت کے تحت ہورہی ہیں؟۔ہاں ضرور کچھ ایسے مٹھی بھر افردا ہونگے جو شعوری اور فکری لحاظ سے کمزور ہوکر ریاستی دھمکیوں اور حربوں یعنی گھروں کو مسمارکرنا اور خواتین و بچوں کے ا غواء و گرفتاریوں کی دھمکی سے مرعوب ہوکر بزدلانہ زندگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ دشمن مسلسل ہر بلوچ جہدکار کو بلیک میل کرنے کی خاطر مختلف حربہ جات استعمال کررہاہے۔ کچھ لوگ ضرور بزدلی کاشکار ہوئے ہونگے لیکن ان کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ دشمن آج نہیں تو کل ضرور انہیں بزدلی کی حالت میں بھی نشان عبرت بنا دیگا۔جسکی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔اور اب بھی خاص اور مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خفیہ ادارے ان تمام قبائلی سرداروں، نوابوں اور میر معتبروں کو جو ریاست کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں انھیں سختی سے تنبیہہ کیا گیا ہے کہ اگر تم لوگوں کے بندوں کو پاکستان کے وفاداری کی جرم میں مسلح تنظیموںں نے قتل کیا بھی ہے تو پھر فی الحال ان تنظیموں سے سرنڈر کرنے والوں سے حساب اور انتقام نہیں لینا تاکہ جلد سرنڈر ڈرامہ فلاپ نہ ہو اس کے بعد ان سرنڈر کرنے والے لوگوں کو آہستہ آہستہ خفیہ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائیگا۔
اس کے علاوہ بھی آنے والے وقت میں پاکستان کاونٹر انسرجنسی کی پالیسیوں پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد کرتے ہوئے مزید اشکال میں مختلف ڈرامے، سازش اور حربے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہے گا۔تاکہ بلوچ قوم کی قومی خواہش آزادی کی امید ٹوٹ جائے اور بلوچ سماج میں خوف و ہراس مایوسی اور بدظنی کا سما ہو۔تاکہ آسانی کے ساتھ پاکستان اور چین اپنی توسیع پسندانہ عزائم اور معاشی استحکام کے خواب کو بلوچ قوم کی قبروں کے اوپر کھڑے ہوکر پورا کردے۔لیکن پاکستان اور چین کا یہ خواب اس وقت تک صرف خواب ہی رہے گا اور بلوچ آزادی کی امید بلوچوں کے دلوں میں چمکتی رہیگی جب تک ہم پاکستان کی کاونٹر انسرجنسی پالیسیوں سے مکمل آگاہ ہو کر اپنی قوم کو آگاہی فراہم کرتے رہیں گے اور بروقت ہر نفسیاتی حربے کا جواب دیتے رہیں گے اور دشمن کے بدلتے چالوں کو سمجھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے رہیں گے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ قومی شعور، بیداری، آگاہی اور قومی حمایت سے لیکر تحریک میں شمولیت ہماری جہدکاروں کے بڑے سے بڑے کارناموں اور قربانیوں میں پوشیدہ ہے۔صرف اور صرف بلندو بانگ دعوؤں، تصورات اور بیٹھ کر منظر کشی سے قومی فنا کی موجوں کو روکنا اور قومی آزادی کی عظیم اور انمول نعمت کو پانا ناممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز