شنبه, می 4, 2024
Homeخبریںافغانستان کو بلوچستان کی آزادی کا کھل کر مدد کرنا ہوگا:ایف بی...

افغانستان کو بلوچستان کی آزادی کا کھل کر مدد کرنا ہوگا:ایف بی ایم

کابل( ہمگام نیوز) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں فری بلوچستان موومنٹ اور بلوچ شوریٰ افغانستان کی طرف سے مشترکہ طور پر 70ویںیوم آزادی بلوچستان پُروقار انداز سے منایا گیا ۔تقریب کا آغاز کرتے ہوئے بلوچ شوریٰ افغانستان کے صدر ڈاکٹر شیر آقا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوکہ بلوچستان کی آزادی کے بعد بہت جلد غلامی کا طویل دور شروع ہوا لیکن بلوچ قوم نے پہلے دن سے غلامی کے خلاف مزاحمت کرکے غلامی کے خلاف لڑنے کا آغاز کیا اور وہ جنگ آزادی آج بھی جاری و ساری ہے جس کی پاداش میں ہزاروں بلوچ غائب اور ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں میدانوں میں پھینکے اور بلوچوں کے گھراور کھڑی فصلات جلائے جاچکے ہیں مگر اُنھوں نے اپنی کھوئی ہوئی آزادی واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جسے وہ تمام ظلم و جبر ودنیا کی بے اعتنائی باوجود حاصل کرکے رہیں گے ۔اُنھوں نے افغان حکومت سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اور افغان ہمیشہ بھائی رہے ہیں لیکن آج پاکستان بلوچوں کے نسل کُشی میں مصروف ہے افغان حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کی مدد بلوچ قوم کو نہیں مل رہی ہے اسی طرح دنیا نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں نہ کسی کویہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں اور نہ بلوچوں کابے رحمانہ قتل عام ہم دنیا اور افغان حکومت سے یہ تقاضا کرتے ہیں وہ بلوچ قوم پر بربریت پر خاموش تماشائی نہ بنیں ۔
تقریب سے فری بلوچستان موومنٹ کے حفیظ حسن آبادی نے کہا کہ ہم بلوچ شوری افغانستان اور اپنے افغان دوستوں کے شکر گزار ہیں کہ جن کی معاونت سے یہ ممکن ہوا ہے کہ آج ہم یہ تاریخی اور بلوچوں کیلئے ہرلحاظ سے اہم دن کو منانے اکھٹے ہوسکیں ۔گیارہ اگست کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے کہا کہ اس آزادی کے اعلان کو اس مفہوم میں لیا جائے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد بلوچستان اپنی اُس شکل میں واپس آجائیگی جو انگریزوں سے 1854ء کے معاہدات سے پہلے تھی اور برطانیہ 1876ء کے بلوچ آنگلو معاہدہ کے شق نمبر 3کے تحت اس بات کا پابند تھا کہ بیرونی مداخلت کی صورت میں وہ بلوچ ریاست کی دفاع میں بلوچوں کا ساتھ دیں گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوا اور انگریزوں نے پاکستان کی ہرطرح سے راہنمائی اور معاونت کی تاکہ بلوچ آزاد ریاست پر قبضہ کیا جاسکے ۔افغانوں کو بھی آحمدشاہ ابدالی اور نصیر خان نوری کے معاہدہ عدم مداخلت وباہمی معاونت کے تحت جو 1757ء کو دستخط ہوا تھا کی رو سے بلوچ وطن پر قبضہ کی صورت میں بلوچوں کے مدد کیلئے آنا چائیے تھا ۔مگربلوچ اپنی آزادی کے سلب ہونے سے لیکرآج تک تن تنہا اپنی آزادی کیلئے لڑرہا ہے ۔یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بظاہربلوچ قوم اپنی جنگ لڑ رہا لیکن اصل میں پوری دنیا میں دہشت پھیلانے والے قوت سے نبردآزما ہے اس لئے افغانستان اور دنیا اپنے ہی مفادات کو مدنظر رکھکر بلوچوں کو ایک ظالم ریاست کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔اُنھوں نے افغانستان اور آزاد بلوچستان کے تعلقات کی نوعیت پر فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیارمری کا واضع موقف پیش کیا کہ جس کی رو سے بلوچوں اور افغانوں کے درمیان تاریخی دوستی و معاونت رہی ہے بلوچ اور افغان آحمدشاہ ابدالی اور نصیرخان نوری کے معاہدے کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے تعلقات کی بنیاد بنا کر یورپی یونین کی طرح ایک ایسا میکانزم بنانے کی سعی کریں گے جس سے ہمارے لوگ آزادانہ طور پر آجا سکیں اور پُرامن ماحول میں تجارت کرسکیں ۔ہمارے اور افغانوں کے درمیان کوئی ایسا مسلہ نہیں جو ہم دوستانہ ماحول میں حل نہ کرسکیں بجز اس کے کہ ہم ایک دشمن کی سازشوں کا شکار ہیں اور ہمیں قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا چائیے اُنھوں نے کہا کہ بلوچ اپنے تاریخ کے بدترین دور سے گذررہے ہیں اور اُنکی تحریک آزادی کو افغانوں سمیت پوری دنیا کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ضرورت ہے۔اُنھوں نے کہا کہ ایک بات ہم سب یاد رکھیں کہ جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا اُس وقت تک افغانستان میں امن اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اگر آپ اپنے گھر میں امن اور خوشحالی چاہتے ہیں تو آپ کو بلوچستان کی تحریک آزادی کا کھل کر مدد کرنا ہوگا کیونکہ بلوچ اپنی سرزمین کو افغانوں اور دنیاکے خلاف دہشتگرد کاروائیوں کے لئے استعما ل ہونے نہیں دے گی جس طرح پاکستان اب اُسے اُنکی مرضی کے خلاف استعمال کررہاہے۔ تقریب سے صوبہ غور کے سابق گورنرڈاکٹر عبداللہ ھیواد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں جب اُنھیں بھائی کہتے ہیں تو بھائی مشکل وقت میں ہرلحاظ سے ساتھ دیتا ہے جب کہ ہماری حکومتیں بلوچوں کی مدد تو درکنار اُنکی نسل کُشی پر خاموش تماشائی ہیں اُنھوں نے کہا کہ ہماری حکومتیں کہتی ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے ڈیورنڈ کے نہ ماننے والے اور اُس کے خلاف حقیقی طور پر جنگ لڑنے والے بلوچ افغانستان میں کیوں توجہ سے محروم ہیں ۔اُنھوں نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا پاکستان ہمیں سکون سے بیٹھنے نہیں دے گا یہ بات افغان قیادت اور اُن کے اتحادیوں کو سمجھنا چائیے جس طرح ہمارے بلوچ بھائی ایک عرصے سے اس خواہش کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ بلوچ مسلے کو ریجن کے دیگر مسائل کے ساتھ جوڑ کے دیکھنا چائیے اور یہ ایک درست اپروچ ہے۔اُنھوں نے کہا بلووچستان کی آزادی کے سب زیادہ افغانستان کو میسر ہوں گے اگر وہ ہمیں اپنے ملک آزاد نقل حرکت کی اجازت دیں گے اُس کے بدلے ہم اُنھیں سینٹرل ایشیا کے مارکیٹوں تک اپنی زمین سے گزرگاہ دیں گے تو ہم دونوں کیلئے خوشحالی کے در کھل جائیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ میں نیک نیتی سے ایک تجویز اپنی حکومتوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا اُس وقت تک افغانستان بلوچوں کو افغانی دستاویزات فراہم کرے تاکہ اُنھیں اپنی کاروبار زندگی اور جد وجہد میں کوئی مشکل درپیش نہ آئے اور جس اپنائیت کی ہم بات کرتے ہیں وہ اُسے محسوس کریں تقریب سے نامور افغان صحافی و تجزیہ نگار نواب مومند ،ڈاکٹر عظیمی بلوچ ،استاد حادی قریشی ،صفت ژواک اور محمد منیب نے بھی خطاب کیا اور بلوچ و افغان یکجہتی اور مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جد وجہد پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز