شنبه, آوریل 27, 2024
Homeآرٹیکلزایک مختصر اور اچانک ملاقات کی کہانی۔ تحریر: تابش بلوچ

ایک مختصر اور اچانک ملاقات کی کہانی۔ تحریر: تابش بلوچ

یہ دسمبر کا مہینہ تھا، رات کے تقریباً 1 بجے کا سماں تھا، باہر ہلکی ہلکی بارش چل رہی تھی۔ گھر والے سب سورہے تھے سوائے میرے، میں نے دروازے پر اچانک دستک کی آواز سنی، میں نے فوراً جاکر دروازہ کھولا تو دیکھا دو بندے کھڑے تھے، بارش سے ان کے کپڑے لت پت تھے۔ سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم مسافر ہیں، رات اور بارش کی وجہ سے سوچا کہ کسی ایک گھر میں ٹھہر کر صبح آگے کا سفر طے کریں، کیا ہمیں آج رات رہنے کیلئے جگہ مل سکتی ہے؟ تو میں نے کہا بالکل، اندر آؤ، کوئی مشکل نہیں، جب وہ گھر میں آئے اور بیٹھے، تو میں نے کھانا کھانے کا پوچھا، ایک نے کہا کہ بھائی دو دن سے کھانا نہیں کھایا ہے، بڑی زور کی بھوک لگی ہے، تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ انتظار فرمائیں، میں امی کو جگاؤں گا، آپ لوگوں کیلئے کچھ پکائے گی، تو ایک نے یکایک کہا کہ نہیں بھائی امی کی نیند میں خلل مت ڈالو، گھر میں جو کچھ ہے، ہم کھالیں گے، زیادہ تکلف نہ کرائیں، تو میں نے کہا ٹھیک ہے، بہرکیف، گھر میں کھانے کیلئے جو کچھ تھا، میں نے انھیں پیش کیا۔

کھانا کھانے کے بعد بلوچی روایت کے مطابق انھیں حال احوال کیا، میں نے ان سے استفسار کیا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ تو ایک نے جواب دیا کہ پہاڑوں سے، کچھ کام کے سلسلے میں شہر آئے ہیں۔ تو میں نے کہا بھائی آپ کے پاس تو ہتھیار ہے، کلاشنکوف ہے، کیا شکار کے لیئے گئے ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم شکار کی نیت سے جاتے، تو دو دن سے بھوک سے نڈھال نہیں ہوتے البتہ ایک چیز کے شکار ہم کرتے ہیں، اس نے مسکراتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولا۔
میں نہیں سمجھا، میں نے کہا۔ تواس نے کہا کہ ایک دن سمجھ جاؤگے، کچھ لمحے کیلئے یوں باتیں چلتی رہی۔ چونکہ وہ تھکے ماندے نظر آرہے تھے، تو میں نے انھیں سونے کیلئے کہا۔ تاہم، سونے سے پہلے میں نے ان سے پوچھا کہ صبح کس ٹائم آپ لوگ نیند سے اٹھتے ہو؟ اُن میں سے ایک نے بولا ہم صبح سویرے اٹھتے ہیں اور صبح سویرے یہاں سے نکل جائیں گے، میں نے کہا کہ نہیں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا کھا کر جاؤ، تو ایک نے کہا کہ نہیں بھائی ہم زیادہ دیر رُک نہیں سکتے، ہم جلدی میں ہیں، ہمیں جانا ہے، میرے بہت منت سماجت کے بعد ایک نے کہا کہ اگر آپ آتنے بضد ہیں، ہم صبح نزدیک پہاڑوں میں جائیں گے، آپ صبع ناشتے کا انتظام کرکے وہاں آئیں، ہم آپ کا وہیں انتظار کریں گے، میں بلا چوں چرا حامی بھرتے ہوئے سونے کیلئے گیا۔ جب صبح آنکھ کھلی، مہمان خانے میں گیا، تو دیکھا وہ دونوں اُدھر نہیں ہیں۔ میں نے ان کے ناشتے کیلئے جلدی جلدی انتظام کرواکر اس جگہ پر گیا جہاں انھوں نے آنے کا کہا تھا۔ میں وہاں جاکر کچھ لمحوں کے بعد دیکھا ان دو میں سے ایک پر نظر پڑی، جو بیٹھ کر کتاب پڑ رہا تھا۔ تو میں تجسس میں پڑگیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، جب میں قریب گیا، علیک سلیک کے بعد دونوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد کچھ پوچھنے کی جسارت کی، ان سے پوچھا آپ لوگ کتنوں دنوں سے سفر میں ہو؟ تو نے جواب دیتے ہوئے کہا بہت دونوں سے اور بہت دور سے سفر کرکے آئے ہیں اور پھر سے جانا ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی سواری بھی نہیں، کیا آپ لوگ پیدل سفر کرتے آرہے ہو؟ کہا ہاں، ہم پیدل سفر کرتے آرہے ہیں۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ لوگوں کے کھانے کا بندوست کیسے اور کدھر سے ہوتی ہے؟ تو کہا کہ ہمارے پاس پہلے سُوکھی روٹی تھے، ہم ان سُوکھی روٹی کا چائے کے ساتھ گزارا کرتے ہیں، اب دو دن سے وہ سُوکھی روٹی بھی ختم ہوا ہے، اس لیئے، کل رات آپ مہربان کے گھر میں آئے، یہ بات سن کر مجھے ان کج حالت پر رحم آیا۔ میں نے ان سے کہا آپ لوگ بالکل چرواہے لگتے ہو اور کتاب بھی پڑھتے ہو؟ کیا یہ عجیب نہیں ہے، تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ک ہم نے بہت پڑا لکھا ہے لیکن وقت اور حالات نے اس نہج پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ میں نے مزید جاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کیا مطلب؟ تو وہ پہلی بار دو ٹوک انداز میں بولتے ہوئے کہا ہم آپ لوگوں کی خاطر، بلوچ قوم کیلئے اپنی زندگی کے آرام و آسائش اور ناز نوبت ترک کرکے پہاڑوں کو اپنا مسکن اور سنگر بنایا ہوا ہے، اس لیئے، پہاڑوں کی زندگی اسی طرح ہوتی ہے مگر پہاڑوں والی زندگی اپنے تمام سختیوں کیساتھ بھی خوبصورت لگتی ہے، اس میں دل، دماغ اور ضمیر آزاد، خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ یہ سن کر مجھے فکر ہونے کیساتھ ساتھ اندرونی طور پر تحریک ملی، ایسا لگا جیسے کسی نے سوئے ہوئے جذبات کو چھیڑ دیا ہو۔کیونکہ اس کی باتوں میں سچائی اور خلوص کی شیرینی ہی شیرنی تھی۔ اسی اثناء، اس کا دوسرا دوست آیا، انھوں نے ناشتہ کرکے جلدی جلدی اپنا رخت سفر باندھ کر رُخصت آف آوارُن سنگت کہہ کر چلے گئے اور میں واپس گھر آیا سارے دن ان دونوں کی سوچ میں تھا کہ اب راستے میں ان کا کیا حال ہوگا؟ ان کا دوسرا ڈھیرہ کہاں ہوگا؟ زندگی کے بے رحم دھار کیسے برداشت کریں گے؟

بہر حال کچھ سال گزر جانے کے باوجود ان دونوں کے چہرے میرے دل و دماغ میں نقش تھا، مجھے ان کے خدوخال اچھی طرح سے یاد تھا۔ کبھی کبھار خیال آیا کہ شائد وہ دونوں اسی طرح واپس آجائیں لیکن وہ واپس نہیں آئے، پھر اچانک ایک دن نیوز میں آیا کہ بولان میں مجید بریگیڈ کے فدائین نے پاکستانی فورسز اور ان کے تنصیبات پر حملہ کردیا ہے۔ دو دن گزر جانے کے بعد اچانک میری نظر ایک تصویر پر پڑی تصویر کو دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے آسمان میرے اوپر ٹوٹ پڑا، گلا سوکھ گیا، پورا جسم کانپنے لگا اور دل میں یہ آیا کہ یا اللہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ تصویر میں وہی چہرا تھا، وہ چہر جو میں نے کچھ سال پہلے دیکھا، اچانک ملاقات کی صورت میں دیکھا، وہی چہرا جس کا دوست کے ڈی کے نام سے پکارا کرتا تھا۔ وہ لمحہ اور وہ دن میرے لیئے بہت زیادہ تکلیف دہ رہے۔ مجھے کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ مختصر اور اچانک ملاقات نے مجھے ان لوگوں سے جذبانی طور پر کتنا جوڑا، پیوست کردیا ہے۔ بہرحال، کچھ دنوں کے بعد معطل ٹولہ کے ترجمان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ شہید صدام عرف کے ڈی نے مجید بریگیڈ میں اپنا نام دے کر اپنے آپ کو وطن کے لیئے قربان کرکے اپنا قومی فرض ادا کیا۔ یہ وہی کے ڈی تھا جس نے مجھے آخری لمحے میں رخصت آف آوارن سنگت کہہ ہمیشہ کیلئے مجھ سے دور چلاگیا۔ اگرچہ وہ جسمانی طور پر مجھ سے دور چلاگیا، مگر وہ اب بھی میرے دل میں، دماغ میں، یادوں میں رچ بسا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز