یکشنبه, آوریل 28, 2024
Homeخبریںبلوچ قوم کسی ایک ملک سے نہیں پوری دنیا سے حمایت کے...

بلوچ قوم کسی ایک ملک سے نہیں پوری دنیا سے حمایت کے طلبگار ہے :بی ایس ایف

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ وطن موومنٹ بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ اور بلوچ گہار موومنٹ پر مشتمل الائنس بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے پالیسی بیان میں کہاہے کہ بلوچ قوم کسی ایک ملک سے نہیں پوری دنیا سے سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت کے طلبگار ہے عالمی سطح پر اگر آج بلوچ کی آواز سنی جارہی ہے یا بلوچ جہدآزادی کی کوئی غیر مشروط حمایت کررہاہے تو یہ ایک مستحسن قدم ہے یہ بلوچ جہد آزادی کے لئے حوصلہ افزاء ہے ہم عالمی برادری سے بارہا کہتے آرہے ہیں کہ وہ بلوچ قومی مسئلہ پر توجہ دین آج اگر عالمی برادری بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر متوجہ ہورہی ہے تو یہ بلوچ قوم کی خوش بختی ہے لیکن ہمیںیہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی آذادی ہماری جھولی میں نہیں ڈالتا ہمیں اس خوش فہمی سے نکلنا چاہیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر مضبوط گرفت ہونی چاہیے اور تمام تر تعلقات اور معاملات میں باریک بینی اور دانش مندی سے کام لینا چاہیے بہتا ہو ا خون اور پسینہ ہمارا ہے بلوچ قوم نے کسی ایک مخصوص ملک کی حمایت کی بات نہیں بلکہ بلوچ قوم کا سفارتی موقف دوٹوک اور واضح ہے کہ پوری عالمی برادری امریکہ یورپی یونین عرب لیگ اوآئی سی اور ہمارے قدیم تاریخی اور ہمسائیہ ممالک کا فرض بنتاہے کہ وہ ہماری جدوجہد کا احترام اور حمایت کریں ترجمان نے کہاکہ اگر کوئی بھی ملک بلوچ جہد آزادی کی حمایت کرتاہے تو وہ غلط نہیں کررہاہے یہ ان کی انسان دوستی کا ثبوت ہیں لیکن ان ممالک کو بلوچ کے حق میں کردار ادا کرنے کی کوششوں کو ریاست کی جانب سے یکسر مداخلت یا پراکسی کا نام دینا بلوچ جہد آزادی کی اسا س اور بلوچ تاریخ کو جھٹلانے کی مترادف ہے یہ ریاست کی فطرت رہی ہے کہ وہ بلوچ جہد آزادی کی تاریخی حیثیت سے انکاری ہوکر روز اول سے اسے دوسروں کی جھولی میں ڈالتا آرہاہے تاکہ وہ اس طرح کے غیر منطقی پروپیگنڈوں سے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرکے بلوچ قوم کو تنہا کرسکے بلوچ قوم کو تنہا کرنے کی اس پالیسی کو بلوچ قوم کو اپنی کامیاب سفارت کاری سے ناکام بنا دیاہے آج کے اس فیصلہ کن موڑ پر ان لوگوں کو جوجذباتی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے کچھ ایسے فیصلہ کررہے ہیں جن کا ممکنہ طورپر اچھا تاثر نہیں ہوگاانہیں انفرادی مفاد کے بجائے قومی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے اور قومی مفاد کو اولیت دینی چاہے اور بلوچ سفارت کاری کو سمجھنا چاہیے بلوچ کا قومی مفاد ان کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے اور کسی ایسے غیر ضروری سیاسی پناہ سے گریز کرنا چاہیے جو کسی کے لئے خواہمخواہ جواز بن سکیں ترجمان نے کہاکہ آج کل بلوچ نمائندگی کا دعوی کرنے والے بعض لوگ بلوچ قومی جدوجہد کو 2005کے واقعات سے جوڑ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ انگریزی قبضہ پر پردہ ڈال رہے ہیں جبکہ بلوچ قومی جدوجہد 2005سے شروع نہیں ہوا یہ بلوچ جہد کے ساتھ زیادتی اور جبر ہے اور ان شہداء کے ارمانوں کے ساتھ جبر ہے جنہوں نے مختلف ادوار بلوچ جہد آزادی کے تسلسل کو برقرار رکھا بلوچ تو اپنے آزادی کے لئے 1839سے جدوجہد کررہی ہے بلوچ قوم تاج برطانیہ سمیت کسی بھی غاصب کی تسلط اور قبضہ کو ہمیشہ سے چیلنج کرتا آرہا ہے بلوچ قوم نے انگریز کے خلاف جدوجہد کی انگریزی قبضہ کے خلاف شہید محراب خان سردار خان محمد زرکزئی نورا مینگل شہید علی دوست اور بعد میں پاکستانی ریاست کی جانب سے بلجر الحاق کے خلاف آغا عبدالکریم خان بابونوروز خان شہید سفر خان زرکزئی علی محمد مینگل شہید بالاچ سردار اکبرخان بگٹی اور شہید امیر بخش لانگو اور موجود جدوجہد ایک اٹوٹ سلسلہ کانام ہے ایک سلسلہ دوسرے سے جڑا ہوئے بلوچ قومی جدوجہد تو ڈیڈھ سوسالوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے بلوچ قوم صدیوں کے ان ہی کوششوں میں اپنی منزل کے لئے ہمیشہ بے چین رہی ہے بلوچ فکری طور پر کھبی بھی غلام نہیں ہوا اور آزادی کے حصول میں جو قیمت متقاضی ہوئی بلوچ اپنی خون اورپسینہ بہائی اور اپنی جان سے گزر گیا یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز نے ہماری سرزمین کو تقسیم کیا ہماری قوت کو تقسیم کیا ایک آبادی کے بیچ دو سرحدیں کھڑی کردیں گولڈ سمتھ لائن اور ڈیورنڈلائن کوئی بین الاقوامی اور تاریخی سرحدیں نہیں جو بلوچ جغرافیہ کے تقسیم کا وجہ ہے بلکہ انہیں انگریز نے کھینچی اور جاتے جاتے انگریز نے بلوچ قوم کو ایسے زخم دیئے جن سے اب تک خون رس رہے ہیں انگریز اگر متحدہ بلوچستان کو تقسیم نہیں کرتا اور بلوچ قوم کو بیک وقت مختلف سامراجی طاقتوں سے سامنا نہ ہوتا تو آج بلوچ آزاد ہوتے انگریز نے ہم پر مہربانی نہیں کی بلکہ قبضہ کیا بلوچ نمائندگی کی دعوی کرنے والے تاریخ درست کریں بلوچ قوم برٹش امپائر عرب امپریلزم اور پاکستانی کالونیلزم کو کھبی بھی تسلیم نہیں کیا بلوچ قوم ہمیشہ سے اپنی جغرافیہ تاریخ ،شناخت اور آزادی کا دفاع کیا جدوجہد آزادی بلوچ کی جینز اور خون میں شامل ہے آزادی کی دفاع کرنا ہمارے ورثہ کا حصہ ہے ہمارے اسلاف کسی کے سامنے جھکی نہیں ترجمان نے کہاکہ آج کل بعض ایسے لوگ جو تو بلوچستان کے آزادی کے لئے بلوچ سرزمین پر ہوتے ہوئے کھبی بھی آواز بلند نہیں کی بلکہ ہمیشہ سے اپنی نجی زندگی کو سنورانے میں لگے رہے آج باہر جاکر خود کو انہی لوگوں میں شامل کررہے ہیں جو بلوچ سرزمین پروانٹڈ ہے جن کی زندگیاں مشکل میں ہیں جن کا سامنا کھٹن حالات سے ہیں جن کی فیملیاں اور رشتہ داروں کی زندگی اجیرن بن گئی ہیںیہ خود کو انہی میں شامل کرکے سیاسی پناہ لے رہے ہیں حالانکہ عالمی سطح پر منظم انداز میں ادارہ جاتی بنیادوں پر کامیاب سفارت کاری کاسلسلہ جاری ہے لیکن وہ اس مرکزیت سے ہٹ کر انفرادی اور خودرو انداز میں کام کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز