جمعه, می 17, 2024
Homeآرٹیکلزبکھرتے موتی :تحریر؛ سیم زہری

بکھرتے موتی :تحریر؛ سیم زہری

دوستو آج آپ کے سامنے چند سوالات پیش کرتا ہوں اور آپ کو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتا ہوں تاکہ آپ میں سے ہر ایک اپنے ذہن پر زور دیکر میری رہنمائی کریں.
قبائلی سسٹم خود کیا ہے انسان نے فرد سے خاندان، خاندان سے گروہ اور پھر گروہ سے قبیلے کی شکل کیسے اور کن مراحل سے گزر کر حاصل کی . ہزاروں سال قبل جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو یہاں بھی مختلف خاندان ایک ساتھ رہتے تھے پھر غاروں کی زندگی کے بعد انسان نے میدانوں کا رخ کیا کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے لگے پھر ان زمینوں پر کاشت اور اس کاشت سے حاصل ہونے والی آمدن کی حق ملکیت اور اس کی تقسیم، اسی طرح ان زمینوں کو جن پر کاشت کی جاتی آپس میں بانٹ کر ہر کوئی اپنی زمین پر اپنی مرضی سے کاشت کرنے لگا اور اس کا اکلوتا وارث بن بیٹھا. یہی خاندان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا پھر ان مویشیوں اور فصلوں کو ایک دوسرے سے لاحق خطرات کے پیش نظر ان سے بچاؤ کے تدابیر ان تدابیر کے دوران آپسی اختلافات اور ان اختلافات کا جنگ کی شکل اختیار کرنے جیسے عوامل اور ان جنگوں کے روک تھام کے لئے انہی قبائل سے چند چیدہ، ایماندار، لائق، مخلص، عقل و فہم کے مالک افراد کا چناؤ کیا جانا تاکہ آپسی رنجشوں کو ہوا دینے سے روکا جا سکے. پوری دنیا میں اسی نقطہ آغاز سے تمام ہنر مند اقوام نے اپنی زندگی کو ترقی دی یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اپنی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش شروع کی.
بالکل اسی طرح بلوچ معاشرے نے بھی دوسرے اقوام کی طرح اپنے قبائلی سیٹ اپ کی داغ بیل ڈالی جس کی رو سے قبیلے کے افراد مل کر ایک ایسے بہادر اور دانش مند شخص کو اپنا لیڈر یا سردار مقرر کرتے جو کسی بھی حالت میں قبیلے کا بد خواہ نہیں ہو گا. اس کے لیے اس منتخب شخص کی بہادری اور قابلیت کے علاوہ اس کے ذات پات سے کسی کو سروکار نہیں ہوتا تھا اگر کبھی یہ شخص اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی یا کمزوری کرتا تو اسے اسی قبیلے کے لوگ مسند اقتدار سے بے دخل کر کے پھر سے مل بیٹھ کر اپنے لیڈر کا تعین کرتے. بعد میں سنڈیمنی دور آیا جس نے سب سے پہلے اس بنیادی نظام کو یہ کہہ کر ختم کیا کہ سردار کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا ہی سردار بنے گا نہ کہ کسی بزگرو شوان کا بیٹا. بلوچ قبائلی سیٹ اپ میں ترامیم کرکے اسے ایک زمہ داری سے ایک جدی پشتی میراث بنایا گیا جسے آج ہم نسل در نسل سہتے آ رہے ہیں. اس کے بعد پنجابی دلالی طرز سرداری و قبائلی نظام بھی آپ کے سامنے ہے. میرا ایک دوست اکثر اس بے ہودہ سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے پنجابی کے زیر سایہ پلنے والے اس سرداری سیٹ اپ نے تو سنڈیمن کے نظام کی بھی دھجیاں اڑا دی. وہ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے پنجابی کے فراہم کردہ نظام کی رو سے ایک ہی سردار فیملی میں دو، دو سردار پائے جاتے ہیں کہیں کہیں یہ تعداد دو سے بھی بڑھ جاتی ہے. میر و معتبر تو اس کے علاوہ ہیں. مثلاً مینگل کا سردار، سردار عطاء اللہ شاہی زئی، سردار اختر شاہی زئی پھر آخر میں سردار اسد شاہی زئی. یہ مینگل ٹک کے صرف شاہی زئی کا حال ہے اسی طرح زگر مینگل بھی خاص مختلف نہیں. اسی طرح زہری کے نام نہاد سردار یا قبائلی چیف کا حال سناؤں تو یہاں بھی آپ کو وہی بد بودار گند محسوس ہوگی. سردار ثنا اللہ زرکزی، سردار عنایت اللہ زرکزی، میر معتبر اس کے علاوہ ہیں جن کی گنتی میرے اور آپ کے بس میں نہیں. پھر میر کا بیٹا میر سردار کا بھائی بھی میر حتیٰ کہ اس کا پوتا بھی میر.
میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا اس لیے دو موٹے موٹے مثال آپ دوستوں کے سامنے پیش کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں. ویسے آپ ہر قبیلے پر زرا سا بھی غور کریں تو حقیقت آپ کے سامنے خود بخود طشت از بام ہو جائے گی . یہ ہمارا درد سر نہیں لیکن کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ پنجابی کے یہ پالتو اتنی زیادہ مقدار میں کیوں ہیں؟ چند آسان سے الفاظ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پنجابی خود کو مضبوط کرکے ہمیں بکھیرنا چاہتا ہے. مثلاً ہم میں سے چند لوگ ثناء اللہ زرکزی کے کاسہ لیس ہیں، چند اسرار زرکزی کے چمچے ہیں اور کچھ عنایت اللہ زرکزی کے باڈی گارڈ. سرداروں کے انڈر کام کرنے والے یہ تمام لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں یا کبھی ایک سردار دوسرے سے جھگڑ پڑے تو درمیان میں بطور ایندھن انھی چمچوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے. یعنی ایک ہی خاندان کے دو افراد میں سے ایک سردار کے ساتھ ہے دوسرا میر کے ساتھ. اب اردو کے محاورے کے مصداق چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھرے پر نقصان خربوزے کو ہی برداشت کرنا پڑے گا. لیکن اس دوران فائدے کا بڑا حصہ پنجابی آقا کے کھاتے میں جاتا ہے جبکہ بھوکوں مرنے سے بچانے کے لیے پنجابی کو ایک آدھ چبائی ہوئی ہڈیاں اپنے پالتوؤں کی نظر بھی کرنا پڑتا ہے. اسی طرح الیکشن کے دوران یہ مداری اپنا کشکول اٹھائے سب کے دروازوں پر پہنچ جاتے ہیں یعنی یہاں بھی بطور ووٹ بینک ہم ہی استعمال ہوتے ہیں. سیاست بھی ہمارے قبائلی سسٹم کی طرح میڈ بائے پنجابی ہے تو یہاں بھی ایک آپسی فرضی اختلاف کا سہارا لے کر دراصل یہ سردار ہمیں استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم نا سمجھے لوگ ایک ہی گھر کے باتی ہونے کے باوجود انہی سرداروں کے لیے آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس الیکشن کی وجہ سے ایک ہی گھر کے اندر ماں بیٹی سے ناراض ہوتی ہے اور باپ اپنے بیٹے سے حتی کہ یہ اختلاف دوسرے الیکشن تک اپنی جگہ برقرار رہتا ہے پھر نئے الیکشن آتے ہیں اور آتے آتے اس اختلاف کو مزید تر و تازہ کر جاتے ہیں. جبکہ تین مختلف پارٹیوں سے وابستگی کے بنا پر تین امیدوار سردار و میر بھائیوں میں سے ضرور کوئی نہ کوئی الیکشن جیت کر ایوان میں پہنچ جاتا ہے اور وہ اختلافات جو ان سردار بھائیوں میں تھے وہ یکا یک ختم ہو جاتے ہیں. لیکن اس گھاٹے والے سودا کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے. ایوان اقتدار میں پہنچنے کے لئے یہ سردار و میر زمین آسمان کی قلابازیاں کھاتے نظر آتے ہیں جس کی ایک سادہ سی مثال میر یونس عزیز ہے جو بظاہر اسرار کے پارٹی کا بندہ ہے اور ایک دو دفعہ پہلے عوامی کی سیٹ سے پنجہ آزمائی کر کے ہار گیا تو جمعیت میں شمولیت اختیار کی کہ شاید یہاں ڈھارا لگ جائے لیکن پیچھے نہیں ہٹنا ہے.
نوے کی دہائی کا ایک کردار میر قادر بخش زرکزی ایک ایسا ظالم جس کے سامنے ہلاکو خان بھی شرما جائے،( آپ میں سے بہت سے نوجوان دوست شاید اس نام سے واقف نہ ہوں گے لیکن آپ اپنے بڑوں سے اس کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں )نے ایک زہری پر ظلم کیا. وہ زہری اپنا مدعا لیکر میر امان اللہ زرکزی کے پاس چلا گیا کہ آپ میری سفارش کریں تاکہ میری داد رسی ہو. کچاری میں دیگر لوگ بھی شامل تھے. امان اللہ زرکزی نے اْس زہری کو یہ کہہ کر نا امید واپس بھیج دیا کہ بھائی میں تو میر قادر بخش سے ناراض ہوں ہم ایک دوسرے سے
بات بھی نہیں کرتے. اْس شخص کے واپس جانے کے بعد کچاری میں موجود ایک سفید ریش زہری نے کہا میر صاحب خدا کو مانو آپ اور میر قادر بخش کیسے ایک دوسرے سے ناراض ہیں جبکہ چند دن قبل ہی میں نے آپ دونوں کو ایک ساتھ بیٹھے اور کہکہے مارتے دیکھا تھا. میر امان اللہ زرکزی نے لاجواب ہو کر بات کو موڑتے ہوئے کہا اگر ہم اس قسم کا بہانہ نہ کریں یا تم لوگوں کے ساتھ مخلص ہوں تو آپ لوگوں کو کیسے لوٹ سکیں گے یا زرکزی کہاں سے کھائے گا؟
اس تقسیم در تقسیم کے پیچھے کارفرما عوامل انتہائی غور طلب ہیں. بلوچ قومی تحریک کے سامنے حائل رکاوٹوں کے متعلق ایک اور سادہ سی مثال آپ کو دیتا ہوں ستر کی دہائی میں قومی تحریک کو لیڈ کرنے والے خیر بخش مری، شیرو مری اور ہزار خان مری کی قوت کو منتشر کرکے ان کے درمیان اختلافات پیدا کیئے گئے جن میں سے ایک حصہ ہزار خان مری کے کھاتے میں جا کر سرمچار سے لیویز اہلکار بن گیا اور دوسرا خیر بخش کے ساتھ. خیر بخش اور اس کے بیٹے چنگیز کے درمیان اختلافات نے مری قبیلے کو تقسیم کرکے مزید دو حصوں میں بکھیر دیا. پھر خیر بخش مری کے انتقال کے بعد نوابی کے ٹائٹل کے لیے خیر بخش مری کا چھوٹا بیٹا بھی میدان میں کود کر قبیلے کو مزید دو لخت کر دیا. کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بطور ایجنٹ یہ سردار و نواب ہمارا خون چوستے رہے اور خود کو مضبوط کرتے رہے.
سردار کا تقریباً تقریباً معنی ” ایک ایسا لائق و فائق جو اہمیت کا حامل ہے” دوسرے الفاظ میں سر کا محافظ جو کسی بھی مشکل حالت میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آپ کو مصیبت کے منہ میں دکھیلنے سے بچائے گا. اب آپ ان اوصاف اور خوبیوں پر غور کریں پھر اپنے اپنے سرداروں، نوابوں، میر معتبر اور ٹکریؤں کا بغور جائزہ لیں کہ یہ ہمارے محافظ ہیں یا کسی آقا کے تھالی چٹ ایجنٹ.

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ قبائلی سسٹم جس کا ہم سب حصہ ہیں کس مرض کی دوا ہے؟

کیا یہ ہمیں بکھیر کر ایک قوم سے مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ہماری طاقت کو کمزور کرنے کا زریعہ نہیں؟

یہ جو سردار یا قبائلی چیف جو ہماری زندگی سمیت ہر چیز کا مالک بننا اپنا مادری حق سمجھتے ہیں اس قابل ہیں کہ ہم انھیں اپنی ھست و نیست کا مالک کرار دے سکیں؟

سردار یا لیڈر کے لیے بہادر ہونا ایک اہم شرط ہے تو کیا ان میں کبھی کسی نے بہادری کا شائبہ تک دیکھا ہے؟

اگر یہ ہمارے محافظ ہیں تو ثناء4 اللہ زرکزی کے کوٹ کے سامنے شھید یٰسین کو دن دہاڑے شھید کیا گیا، کیا اس وقت سردار خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا؟

دیگر اقوام کو چھوڑیں زہری کے عوام کے لئے انجیرہ سے بحفاظت گزرنا کتنا آسان ہے؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز