اتوار, مئی 19, 2024
ہومخبریںسیکرٹری داخلہ کا بیان بلوچستان کے زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ بی...

سیکرٹری داخلہ کا بیان بلوچستان کے زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ بی ایس او آزاد

کوئٹہ(ہمگام نیوز) بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے سیکرٹری داخلہ کے گزشتہ روز کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کے سیکرٹری داخلہ نے بلوچستان کے زمینی حقائق کے برعکس اور بلوچستان سے ختم ہوتی ریاستی رٹ کو چھپانے کے لئے دروگ گوئی و من گھڑت بیان کا سہارا لیا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ نوجوان پاکستان سے کسی بھی طرح کی وابستگی کا کبھی بھی اظہار نہیں کرتے ۔ کیونکہ بلوچ و پاکستان کے درمیان رشتہ فطری نہیں بلکہ تضادات سے پُر حاکم و محکوم کا ہے جو کہ بلوچ کی مرضی کے بر خلاف زبردستی بلوچ پر مسلط ہواہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سیکرٹری داخلہ نے سکولوں پر پاکستانی جھنڈے و ترانے کی بات کی ہے وہ سراسر جھوٹ ہے پورے بلوچستان میں ریاستی جھنڈا و ترانہ صرف فوجی چھاؤنیوں تک محدود ہے۔ علاوہ از ایں بلوچستان کے بیشتر اسکولوں پر قابض آرمی نے اپنی چوکیاں قائم کی ہیں جہاں پر ایک عرصے سے نوعمر بلوچ سٹوڈنٹس کو اسکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے۔ مشکے ، آواران، کولواہ، ڈنڈار سمیت بلوچستان کے متعدد پرائمری، ہائی و حتیٰ کہ کالجز پر قبضہ کر کے گزشتہ دوسال کے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وہاں پر تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ جو کہ سیکرٹری داخلہ کے بیان کے بالکل برعکس ہے۔جبکہ دوسری طرف انہی نام نہاد و کھٹ پتلی صوبائی اسمبلی نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی بلوچستان کے پرائیوٹ اسکولوں کے خلاف ایک زبردست مہم کا آغاز کیا جس میں پنجگور میں بلوچ خواتین کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے، کیچ میں ڈیلٹا کالج کی بندش اور ٹیچرز کا اغواء، مستونگ ، و دشت بل نگور میں اسکولوں کو نظر آتش کرنے اور گوادر میں اُستاد زاہد آسکانی بلوچ کو شہید کرکے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے سمیت دیگر بہت سے بلوچ و تعلیم دشمن اعمال شامل ہیں جن کے گواہ خود مذکورہ اداروں کے طلباء ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں فوجی کاروائیوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے پشاور واقعے کا ڈرامہ رچا گیا تاکہ شدت پسندی کے نام پر قانون سازی کرکے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایکشن پلان کے مر حلے میں فوجی آپریشن، آبادیوں پر بمباری ، اور نہتے خواتین و بچوں اور نوجوانوں کو شہید و اغواء کرنے کی پالیسیوں میں تیزی لائی گئی انہیں خدشہ ہے کہ اگلے مرحلے میں بلوچ سیاسی اسیران کو فوجی عدالتوں میں پیش کرکے اپنی مرضی کے مطابق سز ا دیا جائے گا جو کہ کسی بھی قانون کے خلاف ہے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز