پنج‌شنبه, می 2, 2024
Homeرپورٹسقابض ایران پر حملہ کے لیے اسرائیل کے مختلف اپشن تجزیہ نگاروں...

قابض ایران پر حملہ کے لیے اسرائیل کے مختلف اپشن تجزیہ نگاروں کے رائے میں۔ ہمگام رپورٹ

گذشتہ ہفتے کے روز اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے ایرانی حملوں کے بعد تہران اور تل ابیب کے درمیان باہمی خطرات کے درمیان پوری دنیا ممکنہ اسرائیلی ردعمل کا انتظار کر رہی ہے۔

جب کہ اسرائیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا ردعمل واضح اور فیصلہ کن ہوگا۔ اس حوالے سے تجزیہ نگار مختلف آراء پیش کررہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل وسیع تر جنگ سے گریز کرتے ہوئےتہران کو جواب دے گا۔ کچھ اسرائیل کے جوابی حملے کی تاریخی اور ممکنہ مقامات پر بھی بات کرتے ہیں۔

امریکن نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی چیف ریسرچر امریکی تجزیہ کار کیرولین روز نے تجویز پیش کی کہ ایرانی حملوں پر اسرائیلی ردعمل جس میں کوئی انسانی جانی نقصان نہیں ہوا ایران کی جانب سے سینکڑوں میزائلوں اور ڈرونز کے لانچنگ کے باوجود تاخیر کا شکار ہونے کا امکان ہے۔

بیان میں کہا کہ “غزہ جنگ کے دائرہ کار میں توسیع نہ کرنے کے مقصد سے امریکی دباؤ کے نتیجے میں ان بے مثال حملوں پر اسرائیلی ردعمل میں تاخیر ہو سکتی ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ایک اور وجہ ہے جو اس جواب میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہے۔ تل ابیب شاید رفح میں فیلڈ کی پیشرفت پر توجہ مرکوز کرنے کے ارادے سے آنے والے ہفتوں کے لیے اپنے ردعمل میں تاخیر کر سکتا ہے‘‘۔

جہاں تک اسرائیل کے ممکنہ اہداف کی بات ہے تو ان کا کہنا ہے کہ “اسرائیل بیرون ملک ایرانی مشنوں، یا شام، لبنان اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے ایرانی مشیروں پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے جہاں تہران کے لیے پراکسی ملیشیا سرگرم ہیں”۔

ایرانی امور کے ماہر محقق وجدان عبدالرحمن نے میڈیا کو بتایا کہ “اسرائیلی ردعمل کئی وجوہات کی بناء پر ناگزیر ہے۔ اسرائیلی وار روم نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے علاوہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت ایران کے اندر کارروائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسرائیل اس سے قبل تہران کی ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہا ہے۔

وجدان نے مزید کہا کہ “ایرانی انقلاب کے بعد تہران نے پہلی بار اسرائیلی سرزمین کو براہ راست نشانہ بنایا، حالانکہ تل ابیب نے ایران کے اندر نشانہ نہیں بنایا تھا۔اس لیے اسرائیل کے براہ راست ایران کے اندر اسی طرح کے حملے کرنے کا امکان بہت حقیقی اور ممکن ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’متوقع اسرائیلی حملہ عن قریب، اچانک، ڈرونز اور لڑاکا طیاروں کے استعمال سے ہو سکتا ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ “نیتن یاہو نے اپنے بیانات کے ذریعے ایران کے خلاف متوقع حملوں سے پہلے ہی اس کی ترویج شروع کردی ہے۔ فی الحال ایک نفسیاتی جنگ جاری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حملے نفسیاتی جنگ کے بعد ہوں گے اور اس لیے ردعمل دنوں اور ہفتوں میں سامنے آ سکتا ہے‘‘۔

متعدد مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل محدود بنیادوں پر ایران کے اندر فوجی مقامات کو نشانہ بنائے گا۔ سائبر حملے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق، شام اور لبنان سمیت متعدد عرب ممالک میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو نشانہ بنانے کے ذریعے بھی تل ابیب جواب دے سکتا ہے۔

کل سوموار کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ان کا ملک ایران کو دانشمندی اور سوچ سمجھ کر جواب دے گا لیکن تہران کو تناؤ کا سامنا کرنا ہوگا تل ابیب نے کیا۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ “ایرانی جارحیت جس سے عالمی امن کو خطرہ ہے” کے مقابلے میں “متحد رہیں”۔

امریکہ برطانیہ سمیت بہت سے یورپی ممالک نہیں چاہتے کہ اسرائیل اور قابض ایران جنگ ہو لیکن امریکہ یورپ سمیت اسرائیل میں اسرائیل کے تحفظ کے لیے سرگرم بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایران کو اب بھی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے نہ روکا تو یہ اسرائیل کی وجود کے لیے ایک خطرہ ہوسکتا ہے ایران اپنے مرسنریز اور پراکسیوں کی وجہ سے پہلے سے خطے کے لیے ایک سردرد بن چکا ہے اگر وہ جوہری ہھیتار حاصل کر سکا بقول بلوچ قومی لیڈر حیر بیار مری یہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ جہنم کی چھابی شیطان کے حوالے کیا ہو جو ساری دنیا کے ممالک کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز