یکشنبه, آوریل 28, 2024
Homeخبریںمرکز آئینی و اخلاقی جواز کھوچکی ہے، ہم بی ا یس او...

مرکز آئینی و اخلاقی جواز کھوچکی ہے، ہم بی ا یس او آزاد کے بدستور کارکن ہیں: بی ایس او آزاد شال زون

شال(ہمگام نیوز) بی ایس او آزاد شال زون کے سابق جنرل سیکریٹری سمیر بلوچ ، سابق جنرل سیکریٹری عرفان بلوچ اور سابق جونیئر جوائینٹ سیکریٹری ساگر بلوچ نے درجنوں ممبران سمیت بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ دنوں جس طرح سے بی ایس او آزاد کے غیر آئینی مرکز نے محض تنظیمی اداروں کے اندر رہتے ہوئے سوال و تنقید کرنے پر شال زون کے عہدیداران سمیت بیس سے زائد کارکنان کو نکالنے کا اخباری حکم جاری کیا یہ نا صرف تنظیمی طور پر غیر آئینی ہے بلکہ سیاسی و اخلاقی طور پر بی ایس او آزاد پر مسلط اس گروہ کی دیوالیہ پن کی نشانی ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ جن مسئلو ں کے بنیاد پر ہماری بنیادی رکنیت ختم کی گئی ہے ہم ان مسئلوں کی وضاحت میڈیا اور عوام کے سامنے کرنا چاہتے ہیں تاکہ تنظیم پر مسلط اس ناجائز اور غیر آئینی گروہ کی حقیقت بلوچ عوام کے سامنے واضح ہوجائے اور یہ حقیقت بھی واضح ہوجائے کہ کریمہ بلوچ سمیت یہ نام نہاد کابینہ آئے روز اداروں اور اداروں کے احترام پر بیانات جاری کرتے ہیں خود اداروں کو روندنے اور اداروں کے احترام کو پامال کرنے والے ہیں ، ہم تنظیمی مسائل کو لیکر میڈیا میں جانے سے اجتناب کرتے رہے اور نا ہی استعفیٰ دیا تاکہ اس غیر آئینی گروہ کی وجہ سے تنظیم جس بحران کا شکار ہے مزید مشکلات کا شکار نا ہوجائے لہٰذا گذشتہ دو سال سے زائد عرصے سے ہم تنظیم کے ہر میسر فورم پر تنقید کرنے اور اس بحران کے حقیقت پر سوال اٹھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن افسوس کے ساتھ پہلے تنظیم کے اداروں کے اندر ہی رہتے ہوئے ہر بدمعاشانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں ہمیں خاموش کرنے کی غرض سے انتشار پھیلانے کا الزام لگا کر تنظیم سے تین ماہ کیلئے معطل کیا گیا اب مضحکہ خیز انداز میں ہمارے معطلی کے تین ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی ایک اخباری بیان میں ہمیں تنظیم سے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بی ایس او آزاد شال زون کے عہدیداروں اور کارکنوں نے مسائل کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا ہے کہ جب مرکزی انفارمیشن سیکریٹری نے تنظیم سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تو ہم زونل ممبران نے مرکز سے وجوہات دریافت کیں کہ آخر کن وجوہات پر انفارمیشن سیکریٹری یوں ببانگ دہل میڈیا میں تنظیم سے بائیکاٹ کا اعلان کررہا ہے ، لیکن انہوں نے ہمیں مطمئن کرنے کے بجائے یہی کہا کہ انفارمیشن سیکریٹری نے کریمہ بلوچ کے ساتھ بد تمیزی کی ہے اور اسی طرح بہت سے بے بنیاد جھوٹ بول کر کارکنان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن ان بچگانہ اور غیر سیاسی وضاحتوں پر مطمئن نا ہوکر ہم شال زون کے کارکنان مزید وضاحت مانگتے رہے لیکن وہ کوئی بھی وضاحت دینے سے قاصر رہے، اسی دوران جب یہ خبر گردش کرنے لگی کے تنظیم کے چیئرمین زاھد بلوچ کو خفیہ اداروں نے شال سے اغوا¾ کیا ہے تو ہم سارے ممبران نے احتجاج کیا کہ زاھد بلوچ کو شال آنے کی کیا ضرورت تھی ، اس حالت میں ہم تنظیم کے سارے ممبران کا رہنا مشکل ہے تو مرکز کو کیا ضرورت تھی کہ زاھد بلوچ کو شال آنے پر مجبور کرے کیونکہ بطور ِ شال زون کے ذمہ دار ہم بخوبی واقف تھے کہ اس وقت چیئرمین کے دورے کی کوئی بھی ضرورت نہیں تھی اور نا ہی چیئرمین اس وقت کوئی تنظیمی سرگرمی کررہے تھے شال میں ، اس لیئے ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ پھر کیونکر چیئرمین کو شال بلایا گیا ہے ، لیکن بار بار سوالات کے باوجود کوئی تسلی بخش جواب دینے کے بجائے کارکنوں کو بری طرح ٹوک کر خاموش کرایا گیا ، وقت کے ساتھ ساتھ پورا شال زون ایک بحران کا شکار ہوگیا ، کئی کارکنان مایو س ہوکر کنارہ کش ہونے اور کئی تنظیم سے اختلاف رکھ کر استعفیٰ دیتے رہے اور ہم ان حالات میں جنرل باڈی کا انتظار کررہے تھے کیونکہ اس وقت سارے شال زون انتشار میں مبتلا تھا اور تنظیم کاری بالکل صفر کے برابر تھی ، اسی دوران پھر ہمیں پتہ چلا کہ مرکزی قیادت نے من مانی کرکے ایک بار پھرسے مرکزی کمیٹی کے مزید دو ممبران کو تنظیم سے تین مہینے کیلئے معطل کردیا ہے۔ جب جنرل باڈی منعقد ہوئی تو ہم نے اپنا آئینی استحقاق استعمال کرتے ہوئے موجود سی سی ممبران سے ایک بار پھر ان سارے مسائل پر وضاحت مانگی ، کسی وضاحت کے بجائے سی سی ممبران نے جذباتی پن کا اظہار کرکے اجلاس میں شور مچا کر سوالات کے جواب دینے سے فرار اختیار کیا ، پھر اسی دیوان میں جو زیر صدارت نائب صدرہو رہا تھا تمام کارکنان نے اس وقت کے نائب صدر کے غیر اخلاقی ، غیر آئینی اور غیر سیاسی حرکات پر سوال اٹھائے اور بہت سارے ثبوت پیش کیئے ، لیکن کیونکہ تنظیم کے اندر بانک کریمہ اور کمال ایک مضبوط لابی کھڑا کرکے ہمیشہ اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے تھے اور مذکورہ نائب صدر کو اسی لابینگ کے تحت کمال بلوچ نے زون پر اسکے نااہلیت اور غیر سیاسی حرکات کے باوجود مسلط کیا ہوا تھا ، جس الزام کے تحت مرکزی کمیٹی کے ارکانوں کو تنظیم سے بلا ثبوت فارغ کیا گیا تھا اسی الزام کو جب باثبوت اس نائب صدر پر ثابت کیا گیا تو اسے چند دنوں تک فرضی طور پر معطل کرکے دوبارہ زون پر مسلط کیا گیا تاکہ وہ کریمہ بلوچ کیلئے لابینگ کرسکے، حتیٰ کے تنظیم کے شال زون کے فیصلے اس کے بعد محض اسی شخص کے ذریعے چلائے اور تنظیم کے زونل جنرل سیکریٹری سمیت باقی عہدیداران اور کارکنان کو یکسر نظر انداز کرکے فیصلے کیئے گئے تاکہ انہیں سوالات اور تنقید کا سامنا کرنا نا پڑے۔ اسی دوران تین مہینے شال زون کے پروگرام اپنی جگہ بلکہ کابینہ کے دیوان تک نہیں کیئے گئے ، پھر جنرل سیکریٹری نے زبردستی کابینہ کے دیوان کو بلایا اور سی سی کے ممبران کو مہمان خاص بلایا تاکہ ان سارے مسائل کو دوبارہ اجاگر کرکے انکی وضاحت مانگی جائے تو مرکزی کمیٹی کے ممبران لا جواب ہوکر ایک بار پھر جذباتی پن کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ تم لوگ محض تنظیم کے عام کارکن ہو تم لوگوں کو کوئی حق نہیں تنظیم کے مرکزی معاملوں پر سوال اٹھاو اگر کوئی مرکزسے سوال کرتا ہے تو پھر تنظیم کو اسکی کوئی ضرورت نہیں وہ نکل جائے، باوجود اسکے کے وہ اس بحران پر کوئی وضاحت دیتے انہوں نے ساز باز کرتے ہوئے اجلاس کا رخ موڑنے کیلئے سینئر جوائینٹ سیکریٹری نے یونٹوں کے ممبران کے اوپر کرپشن کے الزام عائد کرکے راہ فرار کی کوشش کی جب جنرل سیکریٹری نے کرپشن کے ان سارے الزامات کی وضاحت مانگی تو انہوں نے کہا کہ ثبوت گھر میں پڑے ہیں، اگلے دن ثبوت لے آوں گا اور سارے یونٹ کے سامنے پیش کرونگا لیکن تا حال و ثبوت کبھی بھی سامنے نہیں لائے گئے ، اس سے ظاھر ہوتا ہے کہ محض کارکنوں کے منہ بند رکھنے کیلئے یہ عناصر ہر قسم کا الزام لگانے اور بلیک میل کرنے سے نہیں کتراتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سوال ابھی تک جواب طلب اور انکے الزامات کے ثبوت کا انتظار پہ تھا کہ اسی دیوان کے محض چار دن بعد مرکزی ارکان کی طرف سے جنرل سیکریٹری کے موبائل پر دھمکی آمیز کال آنا شروع ہوئے کہ ان معاملات کو رفع دفع کرو اور جنرل باڈی میں سوال نہیں اٹھاو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا ، یہ کال اسی سی سی ممبر کی طرف سے آرہے تھے جو چار دن پہلے دیوان میں ہمارے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ جنرل سیکریٹری نے اس دھمکی آمیز کال کو ریکارڈ کرکے باقی سی سی ممبران تک پہنچا دیا لیکن آج تک اس سی سی ممبر کے خلاف کوئی کاروائی کجا بلکہ سب اسکی تائید کرتے نظر آتے ہیں ،چند دن کے بعد پتہ چلا کہ میران اور زامران کو تنظیم کے بنیادی رکنیت ختم کرچکی ہے تو پھر ہم سارے ممبران اس بات کی وضاحت سی سی ممبران سے مانگی کہ ان دونوں سی سی ممبروں کو تنظیم سے فارغ کیوں کیا گیا ہے تو سی سی ممبران نے ہمیںیہ کہتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ جو بھی ہوا جنرل باڈی اجلاس میں مسئلوں پر بحث کرنا پھر ہم جنرل باڈی کا ایک بار پھر سے انتظار کرنے لگے ،جب جنرل باڈی منعقد ہوا تو ہم نے مرکزی ممبران سے مسئلوں کے بارے میں بازگشت کی تو سی سی ممبران نے آمرانہ اور غنڈہ گردانہ طریقے سے ہمیں خاموش کرایا اور سوالات تک پوچھنے نہیں دیئے اور الیکشن منعقد کیا، تنظیم کے موجود بحرانی کیفیت کا اداراک رکھتے ہوئے ہم خاموش بیٹھ گئے اور الیکشن میں حصہ بھی لیا باقی سارے ممبران بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوئے لیکن صدر کے عہدے پر اس یر غمال گروپ نے ایک بار پھر اپنے لابینگ کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا ایک منظور نظر شخص کو زبردستی مسلط کرتے ہوئے دھاندلی سے کامیاب کرایا ۔کچھ دن گذرنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ تین اور سی سی ممبران نے استعفیٰ دیا ہے ہم نے ایک بار پھر مرکز سے وضاحت مانگی کے آخر کیوں بار بار مرکزی ممبران مستعفی ہورہے ہیں تو انہوں نے دوبارہ ٹال مٹول سے کام لیکر کہا کہ جنرل باڈی میں یہ سوالات پوچھے جائیں حیرت یہ تھی کی حال ہی میں ہوئے جنرل باڈی میں ہمیں سوالات پوچھنے تک سے روک دیا گیا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ اپنے نا اہلیوں کو ٹال مٹول سے چھپانا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی ہم سارے ممبران جنرل باڈی کے اتنظار میں رہے لیکن اس مرتبہ جنرل باڈی تین مہینے کے بجائے پورے ساتھ مہینے گذرنے کے بعد بھی منعقد نہیں ہوا ، اسی دوران ہمیں پتہ چلا کہ سی سی سے دو مزید ممبران ستار اور میرین نے نے استعفیٰ دیا ہے اس معاملے کو بھی ہم جنرل باڈی میں اٹھانا چاہتے تھے لیکن جنرل باڈی کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور شال زون کے سرگرمیاں اس وقت صفر تھے سارے ممبران بالکل مایوسی کا شکار ہوچکے تھے اسی دوران ہمیں ایک اور سی سی ممبر کے مستعفی ہونے کی بھی اطلاع ملی یہ سلسلہ رکنے کے بجائے اور شدت اختیار کرتا جارہا تھا ۔بجائے اسکے کے وہ جنرل باڈی منعقد کرتے انہوں نے سوالات سے بچنے کیلئے جنرل باڈی سے پہلے راستہ صاف کرنے کیلئے بغیر شوکاز اور بغیر کسی بنیا د کے شال زون کے جنرل سیکریٹری سمیر بلوچ کو یہ الزام لگاکر تنظیم سے معطل کردیا کہ وہ تنظیم میں انتشار پھیلا رہا ہے ، اسی دوران ہمارا زونل کابینہ کے سارے ممبران سے حال ہوا تو وہ سب اس معطلی سے بے خبر تھے ، صدر کی غیر موجودگی میں ہم نے سینئر نائب صدر سے دریافت کی تو اس نے بے لگام گھوڑے کی طرح کہہ دیا میں نے صرف جنرل سیکریٹری کو معطل کیا ہے جو بھی کرنا ہے کرلو پھر ہمیں آدھی رات کو پتہ چلا کہ کہ انہوں نے اچانک کل جنرل باڈی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے تو ہم سب حیران ہوکر رہ گئے کہ جنرل باڈی سے صرف ایک دن پہلے دوستوں کو کیوں معطل کیا گیا ، جب جنرل باڈی منعقد ہو ا تو اس میں کریمہ بلوچ موجود تھی ، ہم نے مطالبہ کیا جتنے بھی مسئلے ہیں ان کے حوالے سے ایک الگ ایجنڈا ہواس بات پر کریمہ بلوچ اس حد تک جذباتی ہوگئے کے غیر اخلاقی طریقے سے ایسے ورکروں کو ٹوکنے لگا اور انگلیاں اٹھانے لگا جس سے ایک لیڈر کجا ایک ورکر بھی اجتناب کرتا ہے ۔ اس پر ہم نے کریمہ سے احتجاج کیا کہ اگر مسائل پر بحث نہیں ہوگی تو ہم جنرل باڈی میں نہیں بیٹھیں گے ، تقریباً ایک گھنٹہ احتجاج ہونے کے بعد کریمہ نے جذباتی پن اور اپنا غنڈہ گردانہ طریقے سے کہا کہ آپ لوگ نکل جاواس پر جنرل باڈی سے جنرل سیکریٹری ، جونیئر جوائنٹ سیکریٹی اور کئی ممبران نے جنرل باڈی سے بائیکاٹ کرکے نکل گئے ۔اس بائیکاٹ کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ ایک سوالات اٹھانے اور احتجاج کرنے کے پاداش میںایک نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی بناکر ایک بار پھر جنرل سیکریٹری سمیت کئی کارکنان کو معطل کردیاگیا ہے ۔ جنرل باڈی کے بائیکاٹ کے تین چار دن بعد جنرل باڈی سے بائیکاٹ کرنے والے عہدیداران اور ممبران کو مرکز کے غیر سیاسی حرکات اور تنظیمی بحران پر سوال اٹھانے کی پاداش میں تین مہینے کیلئے معطل کیا گیا تھا ہم اسی انتظار میں تھے کہ تین مہینے ختم ہونے کے بعد ہم دوبارہ بحال ہونگے اور جنرل باڈی میں ایک بار پھر ان مسائل پر سوال اٹھائیں گے لیکن یہ معطل شدہ وقت تین مہینے پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک مرکز کی طرف سے بیان آگیا کہ ان معطل شدہ ارکان کو تنظیم سے فارغ کیا گیا ہے ہم سارے حیران ہوگئے کہ ہمیں تو سزا معطل کرکے ایک بار دی جاچکی ہے پھر یہ سزا کے اوپر دوسری کیسی سزا ۔ سابق عہدیداران اور کارکنان نے مزید کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی قانون میں اپنے تنظیم کے اداروں کے اندر رہتے ہوئے سوال اٹھانے اور تنقید کرنے والوں کو معطل نہیں کیا جاتا ، خیر اگر معطل کی جائے تو کم از کم وجوہات بتانے کیلئے شوکاز لیٹر جاری کرکے پہلے صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اگر صفائی کا موقع دیئے بغیر بھی معطل کی جائے اور اس پر سوال اٹھائے بغیر ہی اس سزا کو قبول کی جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ جن کارکنان کو پہلے تو غیر آئینی طور پر سزا دیکر تین مہینے کیلئے معطل کیا گیا تھا لیکن پھر آخر جب یہ سزا جاری تھی تو دنیا کے کس قانون کے تحت اس سزا کے اوپر دوسرا سزا لگا کر ان عہدیداران و کارکنان کو تنظیم سے نکالا جاسکتا ہے؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان عوامل کی وضاحت قوم اور میڈیا کے سامنے اس لیئے کرنا چاہتے ہیں تاکہ اداروں کی بالادستی پر واویلہ کرنے والے گروہ کی اصلیت قوم کے سامنے لائیں کے وہ ادارو ں کے اندر رہتے ہوئے سوال کرنے پر کیسے قدغن لگاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئے روز کارکنان اور مرکزی ارکان تنظیم سے بائیکاٹ کرکے اپنی آواز میڈیا میں پہنچا رہے ہیں کیونکہ تنظیم کے اندر سننے والا کوئی نہیں انہوں نے مزید کہا کہ بی بی کریمہ بلوچ کے قیادت میں موجود مسلط شدہ غیر آئینی گروہ اب ہر طرح کی اخلاقی اور سیاسی جواز کھوچکی ہے ۔ انہیں کوئی بھی آئینی اور اخلاقی اختیار حاصل نہیں کہ وہ ہمیں تنظیم سے نکالنے کا اعلان کریں ہم اس غیر آئینی گروہ کے نکالے جانے والے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور بی ایس او آزاد کے اندر رہتے ہوئے اپنے جدوجہد اور تنظیم کو ایسے منفی عناصر کے چنگل سے آزاد کرنے کی جتن جاری رکھیں گے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز