منگل, مئی 21, 2024
ہومآرٹیکلزپاک چین اشتراک کے خلاف بلوچ قومی پالیسیوں کی تشکیل تحریر شبیر...

پاک چین اشتراک کے خلاف بلوچ قومی پالیسیوں کی تشکیل تحریر شبیر بلوچ

بلوچستان اپنے ساحل وسائل ،اور سنٹرل ایشا ، جنوبی ا یشا اور مڈل ایسٹ کے سنگم میں واقع ہونے کی وجہ سے اس وقت تاریخ کے نازک ،الجھے ہوئے اور پیچیدہ دور میں ،بقا و فنا کے درمیان سفر کررہی ہے ، اگر اس مرحلے پر جیت بلوچ کی ہوئی تو بلوچ قوم کی قومی خوش نصیبی ہوگی اور اگر دشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب رہی تو بلوچ قوم اپنی ہزاروں سال کی سرزمین سے بے دخل کردی جائیگی ، زمین ہوگی خوشحالی بھی ہوگی لیکن اس خوشحال سرزمین کے مالک بلوچ کے بجائے قابض اقوام یعنی پنجابی چینی اور دوسرے اقوام ہونگے ۔کیونکہ چین نے اس وقت اپنی بالاستی اور توسیع پسندی کی خاطر بلوچ خطے پر پنجابی کے ساتھ مل کر اپنے پنجے گھاڑ دئیے ہیں ۔چین کو دنیا کی طاقت اور پاور بنے کی خاطر تیل کی ضروت ہے ، ایم ڈی اوپاڈا یا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ چینی تجزیہ نگاروں کے مطابق 2020 تک چین کو سالانہ 6ہزار ملین(بیرل) تیل کی ضروت ہوگی جواسکی موجودہ ضروریات سے 70فیصد زیادہ ہونگے ،فی الحال تو چین زیادہ تر اپنے تیل آبنائے ملاکا strait of malaccaاوربحر ہند کے راستوں سے درآمد کررہا ہے ۔کسی بھی ممکنہ تصادم کی صورت میں آبنائے ملاکا کی روٹ بند ہو سکتا ہے ، اسمیں رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں۔ ایک تو اس ملاکا کی گومگواور اضطرابی صورت حال سے نکلنے کے لئے چین نے گوادار پورٹ کا چناوُ کیا اور اپنی ساری توانائی اور ریاستی قوت یہاں پر لگا رہا ہے دوئم ملاکا جہاں سے گزر کر چین کے تیل کی ضروریات پوری ہوتی ہیں وہ گوادر والے راستے سے قریباََ3 گنا زیادہ لمبا ہے، ایک لمبی روٹ میں نہ صرف یہ کہ مصارف اور افرادی قوت زیادہ صرف ہوگی بلکہ کسی بھی غیر معمولی جنگی یا پریشان کن صورتحال میں وقت اوراسٹرٹیجک عوامل بھی اہمیت رکھتے ہیں، ملاکا اور گوادر کے روٹ کے درمیان چین کے لیئے مصارف کے ساتھ ساتھ وقت اور حفاظتی خدشات بھی کم سے کم ہونگے۔ اس لئے بحربلوچ پر چین نے پورٹ تعمیر کیا ہے جو گوادر کو بحر بلوچ سے چین کے صوبے شینگ جیانگ تک ملانے کا منصوبہ ہے اس میں ریل لائن ،fiber optic لنک اور پیٹرولیم پائپ لائن کے جال بچانے کا منصوبہ بھی شامل ہے ۔
گوادر کا سا حل 620کلومیٹر ہے جو کہ آبنائے ہرمز سے تقریباََ 370نوٹیکل مائل ہے یہاں سے دنیا کا چالیس فیصد تیل کا نقل و حمل ہوتا ہے ۔ اسی تیل کے نقل و حمل پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لیے گوادر اور اقتصادی راہداری کے لیے چین 46 billion ڈالر کا سرمایہ لگا رہا ہے ۔ اسی لیے بلوچ قوم کی طرف سے اپنی سرزمین کی دفاع کی جو جدوجہد ہورہی ہے یہ جدوجہد نہ صر ف پاکستان بلکہ چین کے لئے بھی ڈراواناپن ،کے ساتھ ساتھ انکے مذموم عزائم کے سامنے رکاوٹ ہے ، جس طرح ملاکا کی روٹ بین لاقوامی سطح پر انکے لئے خطرہ ہے جو اسکی سپرپاوری اور معاشی طاقت کے لئے کسی بھی وقت خدشے کا سبب بن سکتا ہے بلکل اسی طرح بلوچ قومی جہد بھی انکے سامنے ایک رکاوٹ ہے مگر چین کے لیے یہ ملاکا کی رکاوٹ سے قدرے کم خطرناک ہے کیونکہ یہاں اس کا مقابلہ صرف بلوچ قوم سے ہے اور ملاکا میں جنگ کی صورت میں مقابلہ مختلف طاقتوں کے درمیان ہوسکتا ہے اور بلوچ قوم کی طرف سے رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے چین اور پاکستان کی فوجی اور سیاسی تجزیہ نگار مختلف آپشن پر غور کررے ہیں جس میں ۔5 سے 8سال تک پوری بلوچ آبادی کو طاقت اور لالچ کے زور پر بلوچ علاقوں سے منتقلی ،اور انکی جگہ پنجابی چینی لوگوں کی آبادکاری انکی سب سے بڑی اسکیم ہے ،پنجابی اور چینی خاکہ سازوں نے اپنے اس منصوبہ کو کسی حد تک شروع کردیا ہے ۔راقم الحروف کو مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس اسکیم کے تحت پہلے مراحل میں گوادر سے پنجگور تک علاقے کو سیاسی اور مسلح مزاحمت کے حوالے سے صاف کرنے کے لئے بلوچستان کے ریاستی چوکھٹ پر سجدہ ریز پارلیمانی گروہ اور مافیا کے لوگوں کے ذریعے سرمچاروں کو 5 لاکھ روپے اور کراچی میں ایک فلیٹ کے عوض سرنڈر کروایا جارہا ہے ،اس میں بقول سنگت حیربیار مری مڈل کلاس سے مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے نیشنل پارٹی بروکر کا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچ کی وجود کو ختم کرنے میں بھر پور مسلسل زور آزمائی کررہا ہے ، پہلے مراحل میں بناوٹی سر مچاروں کو سرنڈر کرواکر پاکستان انھیں کراچی منتقل کروا رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ بلوچ آبادیوں کو مجبور کررہا ہے کہ وہ علاقے چھوڑ دیں ۔ بناوٹی سرمچاروں کو قوم پرستی اور زمین سے محبت کے حوالے ریڈ انڈین چیف سیٹل کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہئے تھا جنھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں بیٹھے بڈھے حاکم کا پیغام ہے کہ وہ ہماری زمین خریدنا چاہتا ہے حاکم نے دوستی اور بھائی چارگی کا پیغام بھیجا ہے ،انھیں ہماری دوستی کی ضرورت نہیں ہم جانتے ہیں کہ ہم نے زمین فروخت نہ کی تو سفید فام بندوق کی نوک پر ہماری زمین لے لیں گے ایک بات جو ہماری سمجھ سے باہر ہے وہ یہ کہ آپ آسمانوں اور زمینوں کی محبت خرید وفروخت کیسے کر سکتے ہو ،سمجھو اگر آپ کے پاس ہوا کی تازگی اور پانی کی چمک نہیں تو پھر آپ انھیں خرید سکتے ہو ،اس زمین کا جس میں میرے لوگ بستے ہیں ہر حصہ میرے اور میرے لوگوں کے لئے مقدس ہے ،کیکر کا ہر کانٹا مقدس ہے ،ساحل کی ریت کا ہر زرہ مقدس ہے ،میرے صحراوُں اور جنگلوں میں گرنیمو کا ہر قطرہ مقدس ہے ،حتی کہ میری زمین پر بھنبھنا تے اور شور مچاتے کیڑے مکوڑے میرے لوگوں کی گزری تاریخ کی یاد اپنے اندرسمو ے ہوئے ہیں انکی گھنگنھاہٹ میں اپنا ماضی تلاش کرتا ہوں شاید آپ کے لوگ مرنے کے بعد آسمان کے ستاروں کی بھول بھلیوں میں اپنی پیدائشی سرزمین کو بھول جائیں لیکن ہمارے مردے چاہے جہاں کہیں بھی ہوں اس خوبصورت سرزمین کو نہیں بھول سکتے کیونکہ یہ ریڈانڈین انکی ماں ہے ہم اپنی زمین کا حصہ ہیں اور زمین ہمارا حصہ ہے ،اس زمین پر اگنے والے پھولوں کی اقسام ہماری بہنیں ہیں ہرنیں ،گھوڑے ،شاہین اور دوسرے چرند پرند ہمارے بھائی ہیں ،یہ چٹانین یہ سبزہ زار ان پر چرنے والے حیوان اور ہمارے لوگ سب ایک دوسرے سے پیوست ہیں ،سب ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لیے بڑے حاکم کی خواہش صرف زمین تک محدود نہیں بلکہ یہ ہم سے سب کچھ مانگنے کے مترادف ہے اسے ہم کسے بیچیں جو ہمارے لئے مقدس ہے لیکن آج بلوچستان میں حالات سیٹل کے ریڈانڈین کی طرح ہیں جہاں ریڈ انڈین کی طرح ہماری وجود خطرے میں ہے سیٹل سے زیادہ بھڑک بازیاں کرنے والے خود کو سرزمین کا محافظ اور نگبہاں کہنے والے نقب خوردہ سرمچار زمین کی حفاظت کرنے کے بجائے زمین کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کا بھی سودا کر رہے ہیں ، سیٹل کی طرح انھیں زمین کے ساتھ حقیقی عشق کے بجائے نمود ونمائش اور دکھاوے کی سرمچاری کرنی تھی جنکا منطقی انجام تھکاوٹ ،مایوسی ،اور سرنڈر پر منتج ہونا تھا ،دنیا کی تمام قومی تحریکیں بتدریج اسی ادوار سے گزرے ہیں کہ جہاں دغاباز ،رُوپ دھارنے والے اور خالص و مثالی جہدکا ر عمل تقطیر کے بعد الگ تلگ ہوتے گئے ۔ کیونکہ سرمچاری جہد مخفی طور پر رازداری اور پوشیدگی سے کرتے ہوئے سرمچار گوسٹ کی طرح ہوتے ہیں جو دشمن کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اس کے برعکس ، ظاہری شان و شوکت ،نمود و نمائشی سرمچار اس طرح جدوجہد کی معمولی سی گرمی سے دل شکستہ اور لالچ میں آکر سرنڈر کرتے ہیں جس طرح کے کرد تحریک میں شروع میں سرمچاروں کی تعد 60ہزار تھے لیکن بعد میں انکے ظاہری شان و شوکت نمود نمائشی اور عراق کی طرف سے سختی پر سرنڈر ہوتے ہوئے انکی تعداد بہت زیادہ کم ہوگئی ، 30 ہزار اپنے تنظیم چھوڑ کر ایران چلے گئے باقیوں نے سرنڈر کرنا شروع کیا جس میں بہت سے کم لوگ بچ گئے جنھوں خود کو گوسٹ کی شکل دیکر مخفی طور پر رازداری اور پوشیدگی سے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھا جو خود کو آج ایک طاقت کے طور پر منوا چکے ہیں ۔
دنیا کی تمام جدوجہد اس طرح کے مراحل سے گزرتے ر ہے جہاں محکوم اقوام نے قابض کے جبر ،ظلم اور بربریت کا سامناپختہ اور پر عزم طریقے سے کیا ،بلوچستان میں بھی مستقل مزاجی اور مصمم طور سے جدوجہد سے منسلک جہد کاروں کے گھروں کو جلانا، بچوں کو مارنا، بوڑھوں اور خواتین کو زدوکوب کرنا اور بلوچ بہنوں کو بے عزت کرکے انکو مجبور کرنا قابض پاکستان کی پالیسی رہی ہے پہلے یہ پالیسی بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری تک محدود تھا لیکن اقتصادی راہداری کے بعد اس کو ان تمام علاقوں میں لاگو کیا جارہا ہے جہاں سے راہداری گزرتا ہے وہاں مختلف فیز میں لوگوں کو مجبور کیا جاتارہے گا تاکہ بلوچ ان علاقوں کو چھوڑ کر کہیں اور نقل مکانی کریں، تو دوسری طرف قومی رہنماوں بالاچ مری ،سنگت حیربیار مری اور غلام محمد بلو چ سے لیکر بہت سے جہدکاروں تک کے گھروں کو توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ جلایا گیا ۔ مگر اب اسکی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مکران سے لوگوں کو نقل مکا نی اور اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کا پاکستانی اور چینی اسکیم پر عمل ہورہا ہے ، جب علاقے کے لوگ اپنی زمینیں چھوڑ دینگے تو انکی جگہ پنجاب اور باقی علاقوں کے لوگوں کو آباد کردیا جائے گا ، وہاں نئی فوجی چھاونیاں بناکر تازہ دم دستوں ملک کے دیگر حصوں سے لاکر ان علاقوں میں ہمیشہ کے لیئے تعینات کیا جائیگا جس سے گزشتہ کئی سالوں کے دوران بلوچستان میں موجود فورسز کی تعداد میں تین سے چار گنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مکران کے بعد دوسرا مرحلہ خاران ،نوشکی،دالبندن اور خضدار کا ہے اور تیسرا مرحلہ پورے بلوچستان کا ہے کہ جہاں تمام بلوچوں کو انکی اپنی ہی سرزمین میں مکمل اقلیت یا اپنے آبائی سرزمین سے بیدخل کرنے کا خفیف،خجل اور شرمندہ قبضہ گیر کے منصوبے ہیں ۔ قابض بلوچوں سے ان کی سرزمین چھینے کے لیے کثیرالابعاد اور ہمہ جہت حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہے۔ مثال کے طور پر معاشی جنگ کے تحت بلوچ ماہیگیروں کے لیے مشکلات پیدا کیے گئے تاکہ سمندر سے منسلک لوگ اپنے ذریعہ معاش کو بدل کر کوئی اور پیشہ اپنائیں یا اپنے خاندان کا گزر بسر کرنے کے لیے گوادر چھوڑ کر مجبور اََ کسی دوسرے علاقے کا رخ کریں۔قابض کی اس حکمت عملی سے ایک طرف بلوچ ماہیگیر وں کی پیشہ بدلنے سے پاکستان اور چین کے لیے سمندر محفوظ ہوگا تو دوسری طرف اگر ماہیگیر پیشہ بدل کر مجبوراََ شہر چھوڑ دیتے ہیں تو انکی زمین چند پیسوں کے عوض قبضہ گیر کے نوآباد کاروں کو بیچا جاسکتا ہے۔ گوادر میں پانی کا قلت بھی مناظر قدرت سے نہیں بلکہ ریڈ انڈین کے خلاف پھیلائی گئی وبائی امراض کی طرح قابض کا منصوبہ ہے ۔ فنی چابکدستی سے گوادر میں پانی کا مسئلہ پیدا کیا گیا تاکہ گوادر کے غریب لوگ اپنی خاک اور مٹی کے عوض دام وصول کرکے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوجائیں دوسری طرف لوگوں کو پیسہ کی لالچ اور خوفزدہ کرکے انکے آبائی سرزمین سے بے دخل کرنے کے پاکستانی فن تدبیرات او ر چالبازیاں جاری و ساری ہیں ۔مکران کے کچھ علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ آمدنی کھجور پر ہے اور کھجور کے درختوں میں منصوبہ کے تحت شیرگو کی وئرس پھیلا کر انھیں ناکارہ بنایا جارہا ہے ،قابض کی حکمت عملی علاقوں کے حساب سے ترتیب دیئے گئے اور یہ معاشی جنگ ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں ہمیں کسی اور رنگ میں دکھائی دیتا ہے ان علاقوں میں معیشت کی نوعیت مختلف ہے جہاں پر معیشت کا دارومدار فصل اور مال مویشیوں پر ہے۔ پاکستان ان علاقوں میں معاشی اور نفسیاتی جنگ کے تحت لوگوں کے فصلوں کو جلاکر بلوچوں کی مال مویشیوں کو پنجاب کی منڈیوں میں بیجتی رہی ہے یا لیجانے کی سہولت نہ ہونے کی بنا پر ان مال مویشیوں کو ہلاک کرتی رہی ہے۔ قابض کے یہ حربے پرانے ہیں لیکن اس دفعہ ان کو بلا تفریق تمام بلوچ علاقوں میں استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان اور بلوچ دونوں کے لیے موجودہ تحریک زند ومرگ کامعاملہ بن چکا ہے ۔ پنجابی قابض کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر ایک بھی باضمیر بلوچ اس علاقے میں موجود رہا تو پاکستان اور پاکستان کی ان منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے

جن منصوبوں کی تکمیل پر آج قابض عمل پیرا ہے اس کے لیے 5 سے 8سال قابض اور بلوچ دونوں کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ، جہاں چین اور پاکستان کی ترقی طاقت اور خوشحالی اس اسکیم سے بندھی ہوئی ہے وہاں بلوچ قوم کی بقااور سلامتی کا دارمدار ان 5سے 8سالوں میں لگا ہوا ہے اگر بلوچ قوم نے ماضی کی طرح یہ 5سے 8سال ضائع کئے تو بلوچ قوم کا حال ابورجنیز اور ریڈ انڈین سے بدترین ہوگا Bain Attwood اپنی کتاب telling the truth about Aboriginalمیں کہتا ہے کہ ابورجنیز اور باہر کے آنے والے لوگوں کا رشتہ حاکم اور محکوم کا رشتہ تھا برطانیہ کے لوگ خود کو مہذب اور ابورجنیز کو جنگلی اور وحشی کہتے تھے باہر کے لوگ زیادہ تعداد میں آسٹر یلیا میں آباد ہونے کی وجہ سے کثرت آبادی والے ہوئے جبکہ آبورجنیز کم سے کم تر ہوتے گئے برطا نوی قابض انکی زمین کو باہر کے لوگوں کو لاکر آباد کرواتے گئے اور نئی دولت پیداکرتے رہے جبکہ دوسری طرف آبورجنیز اپنی زمین سے لاپروا ہوکر آوارہ گردی کرتے ہوئے کچھ بھی نہ کرسکے ،انگریز قوم کے پاس قانون تھا انکے پاس کوئی اصول بھی نہیں تھا ،انگریز نے آہستہ آستہ قانون سازی کرتے ہوئے ابورجنیز کو انکی زمینوں سے بے دخل کرنا شروع کیا ،انکو مارنا ،بے عزت کرنا معمول بن چکا تھا ،اس طرح کرتے کرتے انکو انکی ہی سرزمین ،کلچر،اور شناخت سے محروم کردیا گیا اور آج کے جدید قوموں کے تاریخ میں ابورجینز کا کوئی مقام نہیں ہے بلکہ انھیں قریب المرگ نسل کہا جاتا ہے ۔جو وحشت انگیز اور مکروہ منصوبہ انگریز نے ابور جنیز کی نسل ،کلچر ،تاریخ،اورزمین کو ان سے لینے کے لئے شروع کیا ہوا تھا آج ویہی گیم پاکستان اور چین بلوچستان میں اپنے گماشتوں کے زریعے کروارہے ہیں، اس کی مثال آواران میں آپریشن کرکے پوری بستیاں صفحہ ہستی سے مٹائی گئیں، یا پھر بولان میں بلوچ خواتین کو اغواء کرکے غائب کیا گیا، اور دشت و ڈیربگٹی میں گھروں کو بے حساب جلایا گیا، یہ سب ہمارے قومی شناخت کو مسخ کرنے کی ابتدائی کوششیں ہیں۔
جس طرح کی بیگانگی ،لاپرواہی ،ابورجنیز کی نسل کے خاتمے اور انکی زمین پر بیرونی آبادکاروں کی دائمی قبضے کا سبب بنا وہی کچھ تھوڑے مختلف انداز میں بلوچستان میں ہورہا ہے اور بلوچ قوم کے لئے یہ جدوجہد ابھی یاکبھی نہیں والی جہد کی طرح بن چکا ہے کیونکہ اب کی بار قومی جہد کے ساتھ صرف وسائل نہیں بلکہ بلوچ قوم کی وجود اور پورے وطن داو پر لگی ہوئی ہے ،دنیا میں بہت سے جد وجہد میں قبضہ گیر سے صرف انکے وسائل کو خطرہ لاحق تھا یا ہے اور انکی تاریخ ،ثقافت ،زبان،زمین کوکوئی خطرہ نہیں ۔ اس کی واضح مثال باسک مومنٹ ہے جو کہ2سوسال سے چل رہی ہے اور آئرش تحریک جس کو 215سال ہوچکے ہیں اور اب تک جاری و ساری ہے ،لیکن انکی وجود کو قبضہ گیر سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور انکے لئے وقت کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے لیکن اس کے برعکس بلوچ قوم کی وجود ابورجنیز اور ریڈانڈیں کی طرح خطرہ میں ہے اور قوم کو اس چلنج کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس جدوجہد کو حقیقت پسندانہ حوالے سے پالیسی بناتے ہوئے آگے لے جانا ہوگا اور اب اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ انقلاب اور قومی آزادی کی جہد میں فرق ہے کیونکہ انقلاب کو ایک طبقہ کسی بھی ملک کے اندر لاتا ہے جس کا مقصد کسی ملک کی اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے جہاں ملک کی باونڈری کو نہیں چھیڑا جاتا۔ جس طرح چین ،روس،فرانس،کیوبا،میں انقلاب آئے اور انکی ملک کی سرحد میں ایک انچ ادھر ادھرنہیں ہوا بلکہ انقلاب سے پہلے روس ،کیوبااورفرانس کا جو رقبہ تھا وہ انقلاب کے بعد بھی ویسا ہی تھا اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی لیکن قومی آزادی اور ریاست کی تعمیر کی جہد کا ماہیت،خاصیت،نیچراور سکوپ انقلاب سے الگ تلگ ہے،جہاں غیر فطری اور طاقت و قوت کے زور پر لی گئی سرحد تبدیل ہوتے ہیں جس طرح کے کوسووو ، مشرقی تیمور، پولینڈ ، جنوبی سوڈان، آئرلیند کی جنگ آزادی میں غیرفطری اور طاقت وقوت کے بل بوتے پر قائم سرحدیں تبدیل ہوئیں اور نئے ممالک نئی سرحدی حدود کے ساتھ وجود میں آئیں جہاں کہیں بھی قومی جہد کو انقلاب سے آمیزش کرنے کی کوشش ہوئی وہاں انتشار،بے یقینی ،اور اندرونی رسہ کشی نے جنم لیکر جدوجہد کو فائدے کے بجائے نقصان سے دوچار کیا کیونکہ انقلاب میں سردار نواب میر اشرافیہ کے لوگوں کی شمولیت ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ ایک نظریہ اور طبقے تک محدود ہوتا ہے، جبکہ قومی آزادی کی جہد میں نواب ،سردار،امیر ، اشرافیہ، غریب ،اور مفلس سمیت قوم کے تمام طبقات شامل ہوتے ہیں۔ بہت سے تحریکوں میں آزادی کی رہنما جو کہ قبائل کے سربراہ اور اشرافیہ تھے انہوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کا کردار ادا کیا اور اپنی قومی آزادی کے قافلے کو منزل تک پہنچایا جس میں ککویو قبائل کے جموکنیتا جنھوں نے کنیا کو غلامی سے آزادی دلوائی ،احمد سیکاوٹورے جسکا تعلق مالنک قبائل سے تھا اسکا دادا قبائل کا چیف تھا لیکن سیکاو ٹورے نے گنی میں قبضہ گیریت کے خلاف جدجہد کیا اور قومی لیڈر بنا ،وہ بحث مباحثہ میں کمال کی قدرت رکھتا تھا اسکے بارے میں مشہور تھا کہ ٹورے الفاظ سے مارتا ہے اس نے اپنی راہبری میں اپنے ملک کو غلامی سے آزاد کیا ۔انھوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مسلہ اپنی قوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے ، جنرل ٹیٹو کی طرح انھوں نے اپنے قومی مفادات کو اہم سمجھا ۔ جو کامیاب قومی تحریکیں تھیں انھوں نے خود کو انقلاب ،کمیونزم اور سوشلزم کے ساتھ مکس کرنے کے بجائے اپنی فوقیت ،اولیت اور تقدم قومی آزادی اور ریاست کی تعمیر پرصرف کردی ۔ اب بلوچ جہد بھی باقی قومی جہد کی طرح مشمولیت inclusiveجہد ہے جہاں تمام لوگ جو قومی آزادی کے پروگرام کے تحت قومی آزادی کے جہد کے مسلمہ اصولوں کے تحت جہد کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں ،انھیں اس گمبیر صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا تب جاکر ان 5سے 8سالوں میں بلوچ قوم اپنی دھرتی کو اغیار کی قبضہ گیریت سے نجات دلا سکتا ہے ورنہ ہماری لاابالی پن ، عدم مستولیت اور بے پرواہی ہمیں قومی حوالے سے ابورجنیز اور ریڈانڈین کی طرح قوموں کی تاریخ سے حذف اور ساکت کرسکتا ہے ۔
مگر وقت کم ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ہم بغیر کسی مسلمہ اصولوں کے میدان عمل میں کھود جائیں، قومی تحریکیں ہوں یا پھر قومی بقا کی جد جہد وہاں پر اصولوں کا بول بالا ہونا ہی کامیابی کی آخری ضمانت ہے، لیکن قومی تحریکیں کسی ایک نظریہ کی تقلید کا اس لیئے متحمل نہیں ہوسکتیں کہ وہ اگر سرمایہ داری، اشتمالیت اور جمہوریت اور بادشاہت کی بھول بھلیوں میں دوران جد و جہد پڑ جائیں تو جس سفاک دشمن سے انکو اپنی قومی بقا کا خطرہ درپیش ہے اس قومی بقا کے لیئے کی جانی والی جد و جہد پر منفی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں، ان آنے والے چند بحرانی سالوں کے دوران بلوچ قومی جہد کاروں کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو کہ قومی تشخص اور اسکی بقا کی خاطر دشمن سے اپنی سرزمین کسی بھی طرح واپس حاصل کرسکیں، زمین حاصل کرنے کے بعد اسکے اوپر ضرور سوچنا بنتا ہے کہ ہماری قوم کے لیئے کونسے طریقے بہتر ہیں اور ان پر ضرور کام کیا جاسکتا ہے مگر فی الحال پاکستان کے خلاف اور چین کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیئے یہ لازمی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی سرزمین کا ملکیت خود اپنی ہاتھوں میں لیں۔
آج جس طرح بلوچ قومی طاقت کئی ایک ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے بری طرح منتشرہوچکی ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے ہر ایک کو خود سے یہ سوال کرنا پڑے گا کہ یہ منتشری کے اسباب کیوں پیدا ہوئے، حقیقت پسند بن کر قومی بقا کی خاطر ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیئے کہ آیا یہ تمام کوتاہیاں کہاں سے ہوئی ہیں، اگر کسی کو یہ شک گزرا کہ میری طرف سے کوتاہیاں ہوئی ہیں اور میں اسکا کسی حد تک زمہ دار ہوں تو اسکو قومی بقاکی ضرورتوں کے پیش نظر اس امر کو تسلیم کرکے خود کو قوم کے سامنے پیش کرنا چاہیے کیونکہ قومی بقا کی خاطراپنی گروہ کی قربانی اس قدر بہتے ہوئے خون کی قربانی سے کہیں کم ہے، اب ہمیں کردوں کی طرح اپنے مشکل اور پیچیدہ قومی معاملے حل کرتے ہوئے اپنی استعداد ،فن سفارت ،توانائی اور قوت دشمن پر لگا نا ہوگا کیونکہ اسی میں قومی بقاء کی مضبوط پالیسیوں کی تشکیل کا راز مخفی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز