سه‌شنبه, می 7, 2024
Homeخبریںہندوستان کا کردار ایک بیان تک محدود نہیں ہونا چاہئے :بی این...

ہندوستان کا کردار ایک بیان تک محدود نہیں ہونا چاہئے :بی این ایف

کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل فرنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دل مرادبلوچ نے کہا کہ کہ ہندوستان کا کردار ایک بیان تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس عمل کواپنی منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو ایک واضح تاریخی پس منظر رکھتا ہے ،بی این ایف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے کہا ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بلوچستان میں بلوچ قوم پر ہونے والے زیادیتوں کے خلاف اور بلوچ قوم کی حمایت میں بیان کے حوالے کہا کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے وزیراعظم نے بلوچ قوم کی محکومی ، مظلومی،غلامی اوراستحصال پر آواز اٹھا کر ثابت کردیا کہ عظیم ہندوستان بلوچ قوم کی آزادی پر نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ وہ ان پرڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھا کر ایک قائدانہ رول ادا کرسکتا ہے ۔بلوچ قوم کے حق میں تاریخی لال قلعے سے آواز بلند کرکے نہ صرف بلوچ قوم کے ساتھ ہندوستان کے تاریخی رشتے کوایک نئے دور اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے بلکہ آج ریاست کے ہاتھوں ایک بھیانک انسانی المیے سے دوچار بلوچ قوم کی لہو رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی جو کوشش کی ہے بلوچ قوم اس پر نریندرمودی کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔بلوچ قومی تحریک آزادی کا مضبوط مورچہ بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف ) کا ہمیشہ سے موقف یہی رہا ہے کہ بلوچستان کسی بھی عنوان پر ریاست کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان اور بلوچستان پر برطانوی قبضے اوربرطانیہ کا یہاں سے انخلاء کا پیداکردہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا حل حقیقی تاریخ کی روشنی ہی میں تلا ش کیا جاسکتا ہے ۔تاریخی تناظر کے بجائے ریاست کے نقطہ نظرکے مطابق اس مسئلے کا حل جس طرح کل ناممکن تھا،آج بھی ناممکن ہے اور ہمیشہ ناممکن رہے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کا کردار ایک بیان تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس عمل کواپنی منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو ایک واضح تاریخی پس منظر رکھتا ہے کیونکہ ہندوستان اوربلوچستان ہمیشہ دوبرادرملک رہے ہیں۔ برطانوی قبضے سے قبل آزادبلوچستان کے دور میں ہمارے ہندوستان سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں ،یہ دونوں ممالک سامراجی طاقت برطانیہ کے مقبوضہ بن گئے اورتحریک آزادی میں دونوں اقوام برطانوی قبضے کے خلاف لڑے ،قربانیاں دیں اور چند دن کی فرق سے آزادی حاصل کی۔ اورہندوستان اپنی آزادی برقراررکھنے میں کامیاب ہوکردنیا کے آزاد قوموں کی صف میں بلند بالا مقام پر فائز ہوا جبکہ بلوچستان سامراجی گورکھ دھندہ اور سازشوں کا پیداوار ریاست کے قبضے میں چلا گیا اور آج تک غلامی کی ذلت آمیز،وحشت و بربریت اور قومی نسل کشی سے دوچار ہے ۔اس مسئلے میں ہندوستان کا کردار تاریخ کی روشنی میں روزروشن کی طرح ایک حقیقت ہے کیونکہ دہلی اس مسئلے بارے بہت سے واقعات کا عینی گواہ اور امین ہے ۔ دہلی ہمارے تاریخ کا گواہ ہے ،تاریخی رشتوں کا گواہ ہے اور ہمارے اعلانِ آزادی کا گواہ ہے ۔11اگست 1947ء کو ریڈیودہلی ہی سے بلوچستان کی آزادی کا اعلان ہوا،بلوچستان کے آزادی کے رہنماؤں کے انگریز ی حکومت سے مزاکرات ،فیصلوں اور معاہدوں کی دستاویزات میں دہلی میں موجوداورمحفوظ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہندوستانی سرکار تاریخی فائلوں کو منظر عام پر لاکر ہمارے قومی مسئلے کو دنیا کے سامنے آشکارا کرنے میں آسانی پیداکرے گا۔ اوربھارت ہمارے دردکا بہتراندازہ لگاسکتا ہے کیونکہ بھارت خود قبضہ گیریت اور استحصال کی تاریخ سے گزرچکا ہے۔ آج ہم جس صورت حال سے دوچارہیں کل اسی صورت سے حال انڈیا دوچارتھا،آج ہماری لیڈرشپ ریاست کی جنگ کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ،آج ہم نے چیئرمین غلام محمدبلوچ ،نواب اکبرخان بگٹی،ڈاکٹرمنان بلوچ ،رضا جہانگیر،میربالاچ خان مری سمیت ورکروں کی ایک بڑی تعداد اور ہزاروں بلوچ فرزندوں کی قربانیاں دی ہیں تو ایسے قبضہ گیریت کے خلاف لڑکرہندوستان نے بھگت سنگھ ،جتیندرداس،نیتاجی سبھاش چندربوس ،اشفاق احمدسمیت اپنے لاتعداد فرزند قربان کئے ہیں ۔جس طرح ہندوستانی قبضہ اپنے تاریخ کی روشنی میں حل ہوا،ا سی طرح بلوچ مسئلہ تاریخی تناظرمیں اپنے منطقی انجام کی منتظر ہیں ۔جناب نریندرمودی کے بیان پر ریاست اور ریاستی باجگزارحلقوں میں شورو غوغا پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ جس طرح ریاست ایک جھوٹی نظریے کا پیداوار ہے اسی طرح ہر سچائی پر یہ اپنی جھوٹ کی چادرچڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ،جناب نریندرامودی کی بیان پر ریاست کو اس تاریخی سچائی کا اعتراف کرلینا چاہئے تھا کہ بلوچستان ریاست کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے لیکن ریاست نے اس عمل کو بھی اپنی روایتی ہندوستان حریفی کے خانے میں رکھ کربیہودہ واویلہ شروع کردیا ہے جو اس کی ظلم و بربریت کو دنیا کے سامنے مزید ننگا کردے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ نیشنل فرنٹ کے سیکریٹری اطلاعات دل مرادبلوچ کا کہنا تھا پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جس طرح بلوچستان اور بلوچ قومی مسئلہ ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں ہے یہ پورے خطے سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان پرریاستی قبضے کے اثرات سے پوری دنیا بالخصوص جنوبی ہرصورت میں متاثر ہوگا۔آج بلوچ قومی تحریک آزادی کی تپش سے ریاستی اپنی آنکھوں سے بلوچ قومی آزادی کوحقیقت میں ڈھلتاہوادیکھ رہا ہے تو ہماری تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ساجھے دار ڈھونڈ رہا ہے اورمختلف قوتوں کے ساتھ ریاست نے بلوچستان میں ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ان میں چین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ ہماری نسل کشی میں چین واضح طورپر ریاست کا شراکت دار ہے ۔چین نے ہماری سرزمین ،وسائل اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو استعمال میں لانے کے لئے مختلف منصوبے عمل میں لارہا ہے جس میں گوادرپورٹ اور CPECکے اثرات پورے خطے پرآج ہی سے مرتب ہورہے ہیں ۔ CPECنے بلوچ نسل کشی کے عمل میں نئی شدت لائی ہے۔ اس استحصالی منصوبے کی تکمیل کے لئے فورسز نے چینی تعاون سے سینکڑوں لوگ شہید ،ہزاروں لاپتہ اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھروں سے بیدخل کیا ہے۔ آج وہ انتہائی خواری سہہ رہے ہیں ،ہجرت پر مجبور ہیں ،اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔یہ سب کچھ کیوں؟۔یہ محض تجارتی منصوبہ نہیں ہے بلکہ پورے خطے میں چین اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے کہ اس استحصالی منصوبے کے راہ مزاحمت کرنے والے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے ۔اسی طرح اس منصوبے کی تکمیل سے چین طاقت کے توازن کی جنگ میں بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گااورپورے خطے کوامن و سلامتی کوتہہ وبالا کرے گا،جس سے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک یقیناًمتاثر ہوگا لیکن ہندوستان سمیت پورے خطے پر اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوں گے ۔ چین نہ صرف ہندوستان کا گھیراؤکرنے کی پوزیشن میں ہوگا بلکہ آبنائے ہرمز اس کی کنٹرول میں آجائے گا جس سے پوری دنیاکے لئے تیل کا ایک بڑا حصہ گزرتا ہے ۔یہاں مذہبی جنونیت پر دل مراد بلوچ کا کہناتھاکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریاست بلوچ تحریک کو کچلنے کے لئے مذہبی جنونیت کی تخم ریزی کررہا ہے ۔ دیکھیں بلوچ اپنی تاریخی تشخص کے ساتھ ایک سیکولر اورمذہبی رواداری پر مبنی معاشرہ رہا ہے یہاں تاریخ کے کسی بھی دورانیے میں مذہبی شدت پسندی یا جنونیت کا حوالہ نہیں ملے گا لیکن ریاست نے یہاں بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور بلوچ معاشرے کی تاریخی سیکولرروایات کو تباہ کرنے کے لئے اپنی اُن تمام پراکسی مذہبی تنظیموں کی نیٹ ورکنگ کی ہے جو اس مقصد کے لئے پیدا کے گئے ہیں ۔ آج جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے اور عالمی طاقتیں جس کے خلا ف لڑبھی رہے ہیں لیکن ان کا جنگ مفادات کے خانوں میں بھٹی اور اصل ہدف سے بہت دور ہے کیونکہ یہ امر وضاحت کی محتاج نہیں ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مذہبی شدت پسندی ہورہاہے اس کا کوئی نہ کوئی رشت ریاست سے ضرور بنتا ہے ۔ریاست میں ان کے محفوظ پناہ گاہیں ہیں ،فورسز اور خفیہ ایجنسی انہیں مکمل سپورٹ اور اسٹریٹیجک سہولت فراہم کرتا ہے ،انہیں افرادی قوت فراہم کرتا ہے افغانستان میں جو شورش برپا ہے اس کا اصل مرکز کہاں ہے ؟۔ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے ۔کہاں سے ہورہا ہے ؟۔مشرق وسطیٰ کے صورت حال کے ڈانڈے کہاں کہاں آکر ملتے ہیں؟ ۔آج کی دنیا اس سے بے خبر تو نہیں ہے لیکن عملی اقدامات نہیں ہورہے ہیں ۔ہمارا شروع دن یہ صداقت پر مبنی موقف رہا ہے کہ ریاست بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے جس طرح مذہبی شدت پسندی اور مذہبی جنونیت کو فروغ دے رہا ہے آج دنیاکی سب سے بڑے عفریت داعش کے بلوچستان میں باقاعدہ کیمپ موجود ہیں لیکن داعش ازخود یہاں پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ ریاست کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔آج یہاں داعش بلوچ قوم کے خلاف سرگرم ہے لیکن اس سے ہندوستان سمیت پوری دنیا محفوظ نہیں ہوگا۔ آج دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات ہمارے موقف کی صداقت پر مہرِتصدیق ثبت کررہے ہیں۔ ہندوستان سے امداد کے حوالے ،سوال کے جواب میں بی این ایف کے سیکریٹری اطلاعات کا کہنا تھا ،بلوچ قوم ہندوستان سے سیاسی سفارتکاری کے میدان میں تعان کا متمنی ہے ،ہندوستان ایک بڑی طاقت ہے ،ہندوستان بین الاقوامی سفارت کاری کے میدان میں بلوچ قومی آزادی پر آوازاٹھاکر ہمیں مددفراہم کرسکتا ہے ،اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں ریاست کے بربریت اور بلوچ نسل کشی کے خلاف تحریک پیش کرکے ریاست فرعونی عمل پر عالمی قوتوں کو عملی اقدامات اٹھانے پر قائل کرسکتا ہے اس کے علاوہ انڈین سول سوسائٹی ،انڈین انٹلکچول ،انڈین جرنلسٹ سمیت انڈین فلمی دنیا بلوچ محکومی کے خلاف بہت کچھ کرسکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہئے یہی تاریخ کا تقاضااور یہی عظیم ہندوستان کی عظمت ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز