کوئٹہ(ھمگام نیوز) بی این ایم کے سیکریٹری جنرل کا ریڈیو زرمبش کے ماہ نور بلوچ کو دیا گیا انٹرویو!

سوال: ماہل بلوچ پر ہونے والی ریاستی جبر کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب : جی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ بلوچ قوم کے خلاف جاری اجتماعی سزا کا تسلسل ہے۔ ماہل بلوچ کا واقعہ الگ نہیں بلکہ بلوچ خواتین اور پوری بلوچ قوم کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور سفاکیت کا ایک حصہ ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے، بلوچ قوم کو قومی سیاست اور قومی جدوجہد سے دور کرنے میں ناکامی کے بعد ریاست پاکستان اجتماعی سزا کے طور پر سماج کے ہر حصے کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ماہل پہلا واقعہ نہیں۔ ماہل سے محض ایک ہفتہ قبل رشیدہ بلوچ کو پوری فیملی سمیت اٹھایا گیا۔ چونکہ بلوچ خواتین نے جدوجہد کا ایک محاذ نہ صرف سنبھالا ہے بلکہ اسے کامیابی سے آگے لے جارہے ہیں، اس سے ریاست پاکستان بوکلاہٹ کا شکار ہے اور خواتین کو نشانہ بنارہی ہے تاکہ بلوچ خواتین قومی جدوجہد سے دست بردار ہوجائیں۔ لیکن بیس سالہ تجربہ واضح کرتا ہے کہ یہ ریاستی جبر بلوچ خواتین کو جدوجہد سے نہ الگ کرسکا ہے اور آئندہ کرسکتاہے۔

سوال :ماہل بلوچ کے گھر پر چھاپہ اور گھر کے افراد کو نشانہ بنانا، اس کے بعد ریاستی بیانیہ کہ وہ خود کش بمبار ہے، ایسے دعوے کیا ظاہر کرتے ہیں؟

جواب: ایسے دعوے صرف اور صرف ریاستی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ میدان جنگ میں شکست سے دوچار ریاست اپنا غصہ خواتین ، بچے اور نہتے لوگوں پر اتارتی ہے۔ یہ ریاست جواز ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے۔ چونکہ خواتین کی اغوا یا گرفتاری کو دنیا میں اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتاہے ، اس لیے ریاست نے سنگین الزامات لگائے ہیں تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ریاست نے سنگین خطرے کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایا ہے۔ حالانکہ ریاست کتنا سچ بولتا ہے یا کتنا سچا ریاست ہے، اس سے پوری دنیا آگاہ ہے ۔اس سے قبل بھی بلوچستان میں بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن یہاں میڈیا نہیں ہے۔ پوری بلیک آوٹ چل رہا ہے۔ اگر میڈیا آزاد ہوتا تو ان واقعات کو دیکھ کر شاید عالمی برادری کی ضمیر جاگ جاتی۔ جب تک ہم پاکستان کی غلامی سے نجات نہیں پاتے ہیں تو اس سے زیادہ سنگین واقعات کی اس غیر فطری ریاست سے توقع رکھیں ۔

سوال :پاکستان نے جو کچھ بنگلہ دیش میں کیا، کیا وہی تاریخ بلوچستان میں دہرائی جارہی ہے؟

جواب: بنگلہ دیش اور بلوچستان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پاکستانی سفاکیت کا وقت بلوچ قوم کے مقابلے میں کافی کم تھا۔ وہاں صرف نو مہینے ظلم و جبر کا بازار گرم رہا۔ ان نو مہینوں میں پاکستان نے لاکھوں بنگالی قتل کیے ، ہزاروں کو ریپ کیاگیا لیکن بلوچستان میں بیس سالوں سے یہ ظلم وجبر جاری ہے۔ ہزاروں کو قتل کیا گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ غیرانسانی زندانوں میں قید ہیں۔ لاکھوں لوگ مہاجرت پر مجبور کے گئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اور ہمیں اس حوالے سے ذہنی طورپر تیار رہنا چائیے کہ یہ مظالم مزید بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان نہ صرف بنگلہ دیش کی تاریخ دہرا رہاہے بلکہ بلوچستان میں اس کی شدت میں کئی درجہ اضافہ ممکن ہے۔

سوال: ماہل بلوچ کی بازیابی سمیت بلوچوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کی جسمانی اور جنسی تشدد سے بچانے کے لیے عالمی اداروں کے کردار کو آپ کس طرح بیان کریں گے ؟

جواب: عالمی اداروں کا کردار اب تک بلوچستان کے بارے میں نہایت مایوس کن ہے۔ عالمی اداروں کی جو طے شدہ فریضہ ہے جو ان کی منشور ہے یا جس مقصد کے لیے یہ ادارے بنائے گئے ہیں انہی کے مطابق اقدامات اٹھاتے یا کم ازکم مذمت کرتے تو پاکستان ایسے اقدامات سے پہلے ہزار بار سوچتا۔ چونکہ عالمی اداروں کی جانب سے مکمل خاموشی ہے، اس لیے پاکستان مزید دیدہ دلیری سے بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کی ارتکاب کررہی ہے۔