چهارشنبه, می 8, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچستان ،تحریر سیم زہری

بلوچستان ،تحریر سیم زہری

بلوچستان ایک دور افتادہ علاقہ خشک علاقہ ہے۔ جس کی زمین آبادی کے حساب سے بہت اور پھیلی ہوئی ہے. پہاڑی اور جنگلی علاقہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی بیرونی حملہ آور کے لیے ایک خطرناک میدان جنگ ہے. بلوچستان میں ایسے دیہات اور خلق موجود ہیں جہاں انسانوں کا رہنا بے حد مشکل ہوتاہیں۔ مکران میں ایسے سینکڑوں دیہات ہیں جہاں پنجابی دشمن کی پہنچ نا ممکن ہے. بلوچستان کے پہاڑی سلسلے کسی نعمت سے کم نہیں۔آپ پورے بلوچستان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے پیدل راستوں سے نقل و حرکت کر سکتے ہیں.

اس سب کے باوجود دشمن پنجابی ہمارے دور دراز علاقوں تک پہنچ کر ہمارے نوجوانوں کو اغوا بھی کرتا ہے ۔گھروں کو آگ لگاتا ہے. چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتا ہے. وہ پہاڑوں میں آپریشن کرکے ہمارے عام لوگوں کو سرمچار قرار دے کر شھید کرتا ہے۔ ان کے مال مویشیوں کو چوری کرتا ہے. بلوچ سرمچار پہاڑوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے راستے میں گھات لگائے بیٹھے دشمن کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں. انہی پہاڑوں میں پنجابی فوج کی غیر موجودگی میں بھی اس کے زرخرید دلال بلوچ نوجوانوں کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور اپنی روزی حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں. شہید حق نواز، شہید عرفان صدام، شہید حفیظ چاکر، شہید علی سلیمان شہید قمر ناگاہو سمیت مشکے مکران ڈیرہ بگٹی کوہستان مری میں سینکڑوں بلوچ فرزند ان مقامی دلالوں کے ہاتھوں شہید ہوئے. اسی طرح سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ نوجوان اغواء ہوئے جنہیں مقامی مخبر کے علاوہ پنجابی سالوں تک پہچان نہیں سکتا تھا. آج پنجابی آرام سے بیٹھ کر مقامی مخبر پنجابی کے ساتھ ملکر ہمارے نوجوانوں کو اغوا کرکے اس کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ اور وہ انھیں ٹارچر کرکے ان کی لاش پھینکتے ہیں

دوستو اس بابت کیا کبھی اپ نے غور کیا ہوگا۔؟ کہ یہ سلسلہ کیونکر ممکن ہوا ۔؟ ایسے دور دراز علاقوں تک پہنچ کر دشمن ہمیں کیسے نقصان دیتا ہے. ؟ گزشتہ ستر سالوں میں دشمن نے ہماری قوم میں بہت سے دلال پیدا کیے ہیں۔ جو اس کا کام آسان کیئے ہوئے ہیں. وہ ایک چھوٹی سی رقم کے عوض ہمیں بڑا قومی نقصان دیتے ہیں.
زہری کے علاقے میں زرکزئی برادران یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔مشکے میں سردار علی حیدرمحمد حسنی دشت تربت میں سردار عزیز وڈھ میں میر فیملی سے تعلق رکھنے والے شفیق مینگل، دشت گوران میں میر کمبر خان مینگل عالی دشت و قلات میں یہ کام میر کوہی خان مینگل، سوراب گدر میں درجنوں سردار پنجابی کے اس کار خیر میں شامل ہیں. مستونگ کانک میں سراج رئیسانی نوشکی میں جعفر بادینی سیاہ کمب ماراپ میں میر حبیب اللہ مرداشئی بولان میں سردار ساتکزئی کوہستان مری میں نواب زادہ چنگیز مری ڈیرہ بگٹی میں نواب زادہ شاہ زین بگٹی پنجگور میں میر رحمت صالح ،شال میں جتک میر اور جھل مگسی میں وہاں کا نواب لوگوں کو غلام بنا کر پنجابی کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں.

آج پنجابی ان تمام سرکاری سرداروں میر معتبرین کو اعتماد میں لے کر پنجابی آسانی سے ہماری نسل کشی کر رہی ہیں. وہ یہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ہر جگہ موجود ہے۔ صرف ان دلالوں کی وجہ سے. ہر کلی گاؤں خلق دیہات محلے کے میر معتبر ٹکری سردار نواب کو اپنے ہاتھ میں لے کر پورے بلوچستان کو قبضہ کیا ہوا ہیں. آج انہی دلالوں کی بدولت پنجابی ہمیں غلام بنانے میں کامیاب ہوا ہے. کیونکہ پنجابی جانتا ہے کہ بلوچستان ایک قبائلی علاقہ ہے اور یہاں اسے ہاتھ میں لے لو جو مخلوق میں اثر و رسوخ رکھتا ہے. اسی پالیسی کو اپنا کر آج وہ ہم پر بادشاہت کررہی ہیں ۔ہمارے نوجوانوں کو شہید کررہا ہیں۔ ہماری ماں بہنوں کو بے عزت کرتی ہیں۔ہمارے گھروں کو جلاتا ہے.

اب اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سب سے اہم اور پہلا قدم یہ ہے کہ ہم ان سرداروں نوابوں میر معتبرین ٹکری ملکوں کے اثر و رسوخ کو ختم کریں. ہم قبائل میں تقسیم ہونے کی بجائے ایک قوم بن جائیں. زئی ،ٹک، شلوار خاندان کے تعصب کو ختم کرکے ایک قوم بننے کا ارادہ کرلیں. پارلیمنٹ پرستوں سے جان چھڑائیں ان کو پنجابی کا دلال قرار دے کے سماج میں حقیر نظروں سے دیکھا جائے۔ تاکہ ان کے اثرات کو کم کرکے پنجابی کو شکست دیا جائے.

اس کے لیے بلوچ نوجوانوں زالبولوں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام بلوچوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. اپنے پختہ ارادوں اور عزم سے ہم اپنا وطن حاصل کر سکیں گے جہاں ہم سب ایک قوم کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے جہاں انصاف سب کے لیے ہوگا اور سب ریاست کی نظر میں ایک جیسے ہوں گے. ترقی و خوشحالی کے اس دور میں ہمیں کچھ تلخ فیصلے کرنے ہونگے۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک خوشحال زندگی گزار سکیں ۔جس میں وہ اپنے آزاد وطن میں سکون سے زندگی بسر کر سکیں اور دنیا کے دیگر اقوام کے ساتھ ہمسری کر سکیں.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز