سه‌شنبه, آوریل 30, 2024
Homeآرٹیکلزآزادی کے دیوانوں کا مکالمہ (دوئم) : تحریر:محراب مہر

آزادی کے دیوانوں کا مکالمہ (دوئم) : تحریر:محراب مہر

سردی اپنے آب و تاب کے ساتھ ہر اس چیز کو موت سے قریب تر کر رہی تھی جو زندہ رہنے کی جہد کر رہی تھی بارش کی آمد کے بعد یخ بستہ ہواوں نے پہاڑوں کو مزید سخت کر کے فولاد بنا دیا تھا، سردی میں پتھر پر گرنے کے خیال زخم یا خروچ سے انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ہوا بدمست ہاتھی کی طرح اپنے تپڑ دیوانوں کے منہ پر ماررہی تھی جڑی بوٹیاں سردی سے بے حال بہار کی آمد میں اپنے زندگی و موت کے دن گن رہے تھے وطن کے دیوانے دنیا کی ہر خوشی و غم سے بے خبر وطن کے پہاڑوں میں آزادی کا سانس لے رہے تھے بلند آواز میں وطن کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی مرہون منت سے ایسا وطن ہمیں ملا ہے کہ جس کے ایک حصے میں سردی و دوسرے حصے میں گرمی ہے ہمارا وطن اتنا بڑا ہے کہ ہم ایک دوسرے تک پہنچنے میں مہینوں کا فاصلہ طے کر کے پہنچ سکتے ہیں اگر ہم اپنے بنیادی وطن عظیم بلوچستان کا تصور کر لیں تو دھنگ رہ جائیں گے ایک ہی موسم میں ہمارے وطن میں چاروں موسموں کا راج ہے زیارت سے لیکر تربت کی تپتی گرمی تک تفتان سے لیکر چاھبار و نمروز و ھیلمند و زاہدان کوہ سلیمان سے ملتان تک بلوچ ہی اس سارے خطے میں پھیلے ہیں گوادر سے چاھبار تک وسیع ساحل ہماری ہی ملکیت ہے سرزمین کے ہر حصہ معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور یہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایسا وطن دیا ہے انھوں نے اپنے دن رات ایک کرکے اس وطن کے مالک بنے۔علی ہنستے ہوئے،بس کر کچھ زیادہ ہی بول رہے ہو وطن تو واقعی بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کیا ہم نے بزرگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی کیا ہم اپنی دھرتی ماں کو دشمنوں سے بچا سکے؟ کیا ہم نے کچھ پیسوں کے لیے اپنے وطن غیروں پر سستے داموں میں فروخت نہیں کیے کیا گوادر کے پورٹ بنے کے خیال کے ساتھ گوادر کو کوڑیوں کے دام نہیں بیچا گیا شال کوٹ میں زمینوں کو غیروں پر فروخت نہیں کیا گیا کیا سارے بلوچستان میں یہی حالت نہیں کیا ہم نے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے پورا کیا کہ اپنے بزرگوں کی امانت کو امانت ہی رہنے دیتے یہ بزرگوں کی قربانی کا نتیجہ تھا انکی قربانیوں پر ہم نے عیاشیاں کی اور انکے خون سے جیتے ہوئے سرزمین کو اپنے خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا بھنگ و ماجون و شراب کے نشے میں ہاتھی کی طرح بد مست ہو کر ہر اس قربانی کو روندتے گئے جو ہمارے بزرگوں کی مرہون منت سے ہمیں ملے تھے اور انکی قربانیوں کی بدولت ہمیں شناخت ملی تھی. علی بات تو درست ہے لیکن اسکے لیے تاریخ کو ٹٹولنا پڑے گا کہ ہم کس حد تک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس سے پہلے ہمارے بزرگوں نے کیا کوتاہی کی اور انکی غلطیاں کیا تھی کہ جسکی بنیاد پر آج ہم پہاڑوں میں دربدر جہد آزادی کی امنگ لیے دشمن سے برسرپیکار ہے ہم تو آزاد تھے ہمارے سربراہ مملکت خان قلات نے مسلمانیت کے لیے وطن کو محمد علی کو بلا شرط شرائط دے دیا دیوان عام و ایوان بالا دونوں میں اسکی مخالفت کی گئی لیکن خان نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وطن محمد علی کو دے دیا یہاں تک کہ نیمرغ کی طرف جاتے ہوئے جہان اب انگور کے باغ ہیں محمد علی و اسکی بہن کو سونے میں تول کر دیا تاکہ پاکستان کی مالی مشکلات کو کم کر سکے اس میں صرف خان قصور وار نہیں کیونکہ اس سے پہلے نواب مکران و خاران نے دستخط کر دیے تھے خان کے پاس دستخط کے سوا کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں تھا یا تو خان مھراب خان کی طرح لڑ کر شہادت کے رتبے کو حاصل کرتے یا دستخط کر کے وطن کو پنجابی کے ہاتھ میں دینا تھا لیکن وہ بروقت صحیح فیصلہ نہ کر سکے اور غلامی کا طوق قانونی طور بلوچ قوم کے گلے میں ڈال دیا ہر عمل کا ذمہ دار ہم نہیں اب ہم خود کو کوسیں گے تو کیا ہوگا ہم شاہد اس حد تک اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے ہیں کہ جسکا تقاضہ جہد آزادی کر رہا ہے لیکن اپنے کمزور اعصاب کے ساتھ تحریک کو کندھا ضرور دے رہے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ انگریزوں کے دور سے لیکر بلوچ وطن کی تقسیم اور ہمارا قبائلی ڈھانچہ جس میں رہ کر قبیلے کا سربراہ جو فیصلہ کرتا اسے من و عن قبول کر لیا جاتا انگریز کے ساتھ جنگ آزادی کو ہی دیکھ لو مری قبائلی ڈھانچے کے تحت سینہ سپر رہا کچھ حد تک بگٹی بھی رہے پورے بلوچستان میں دیگر کہاں انگریزوں کے قبضہ گیری کے خلاف جنگ لڑی گئی؟ میرے خیال میں نورا مینگل میر علی دوست و بلوچ خان نوشیروانی کو بھول رہے ہو بھولا نہیں وہ کچھ ہی لوگ تھے جنہوں نے وطن کی آبرو پر دشمن کے نظر بد کو سمجھ چکے تھے اور میدان جنگ میں اپنی جانیں قربان کیے میں بحیثیت قوم کہہ رہا ہوں بحثیت قوم اس وقت بھی جنگ نہیں لڑی گئی بلکہ کسی قبیلے یا علاقے سے ایک شخص نے قابض کے خلاف آواز بلند کی تو کچھ لوگ اسکے ہمنوا ضرور بنے لیکن ہمنواؤں سے زیادہ اسکے مخالف میدان میں آگئے اور وہ انھیں کچلنے کے لیے دشمن کے لیے استعمال ہوتے رہے کہنے کا مقصد قابض کے خلاف اٹھنے والوں سے زیادہ قابض کے حمایتیوں کی تھی جس سے وہ کامیاب نہ ہو سکے تو پھر ایسی کوئی مثال دے سکتے ہو کہ قابض کے خلاف پوری قوم یک مشت ہو کر جنگ لڑی ہو میرے خیال کے مطابق ایسا ممکن نہیں کچھ ہی لوگ قبضہ گیریت کو سمجھ جاتے ہیں اسکے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور پھر دیگر لوگ ان کے ہمنوا بنتے ہیں اسطرح ممکن نہیں کہ پوری قوم ایک سوچ کے تحت دشمن کے خلاف کمر بستہ ہو بلوچ تاریخ میں تو ایسی کہیں مثالیں ملتی ہیں جو اپنے بھائی کو کچلنے کے لیے دیگر قبضہ گیروں یا طاقتوں سے مدد لی ہے ہاں بیبگر ارغون کی بیٹی کو جب بلوچ سرزمین پر لے آتا ہے تو بیبگر گھرام کے ہاں پناہ لے لیتا ہے تو یہاں پر گھرام و چاکر ایک ساتھ ارغون کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں حالانکہ بیبگر ارغون سے گھرام کو کچلنے کی غرض سے اس سے مدد کے لیے گیا تھا وہ اور وجہ تھی کہ اسے ارغوان کی بیٹی سے عشق ہوگیا جس سے وہ ارغون کے خلاف گھرام و چاکر کو ایک ساتھ ارغون کے خلاف اکٹھا کرنے کے لیے گھرام کے یہاں پناہ گیر ہوا اور وہ ارغون کے خلاف اکٹھے ہونے پر مجبور ہوئے اور یہ روایت ازل سے ہی رہا ہے کہ دشمن کی آمد کے ساتھ کچھ اسکے ہمنوا بھی ہوتے ہیں کچھ اسکے مخالف. اسی تسلسل کے ساتھ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور قومی آزادی کی تحریک میں یہ ممکنات شروع سے رہے ہیں اور آگے بھی ہونگے جب انگریز آئے تو پورے بلوچستان کو مہینوں میں قبضہ کیا گیا اور جرنل ڈائر کو بلوچ وطن پر قبضہ کرنے کے گر عیدو نے سکھائے کیونکہ عیدو اپنے قوم کے نفسیات کو بہ خوبی جانتا تھا انگریز کی قبضہ گیریت میں بلوچ انگریز کے ساتھ رہے کیونکہ غلامی کو قبول کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت غلامی کے خلاف اٹھنے والوں کی. اور یہ توقع رکھنا کہ پوری قوم ایک ساتھ غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ممکن نہیں البتہ سچائی کی جیت یقینی ہے اور ہر فطری نظریہ زندہ رہے گا باقی جس فکر و نظریے کی جتنی پرچار کی جائے وہ ابدی نہیں رہے گا اور قابض کا غلام کے وطن پر تاں ابد رہنا ممکن نہیں کیونکہ غلام کھبی بھی قابض کے خلاف کمر بستہ ہوگا اگر تاریخ کو دیکھیں تو یورپ کی افریقہ ایشیا و لاطینی امریکہ کو اپنی نو آبادیات بنا کر تاں ابد انھیں اپنی نو آبادیات نہ بنا سکا وقت کے ساتھ وہ قابض کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے وطن کو آزاد کرنے میں کامیاب ہوئے البتہ اگر غلامی کو پوری قوم قبول کر لے تو اس قوم کی تباہی اٹل ہے میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ پوری قوم میں غلامی کا احساس ضروری ہے کہ غلامی کو قبول کرنے والوں کی حقیقی چہروں سے آشنا ہوں وہ اس صورت میں ممکن ہے جب انھیں تاریخ کا حصہ بنایا جائے اور انکے حقیقی چہروں کو قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ قوم کو صحیح و غلط کی پہچان ہو یہی وجہ تھی کہ ملا مزار بنگلزئی نے وہ تاریخی نظم لکھی جس میں بلوچستان کے 73 سرداروں کی انگریز کی بھگی کھینچی تھی اور بھگی کھنچنے پر وہ فخر بھی کر رہے تھے اور آج بھی بالکل وہی صورتحال ہے صرف بھگی کی شکل تبدیل ہوئی اختر مینگل بھگی کی شکل میں نواز شریف کے گاڑی کو ڈرائیو کرتا ہے اور ثناءاللہ زہری اسلم رئیسانی قدوس بزنجو ڈاکٹر مالک وغیرہ کسی نہ کسی صورت میں بھگی کو کھینچ رہے ہیں صرف شکل مختلف ہے آج یہی لوگ مونچھیں تاوُ دیکر انگریز کے ساتھ بلوچوں کی دلیری کے داستان بیان کرتے ہیں لیکن بھگی کھینچنے والوں کا ذکر نہیں کرتے جبکہ ڈاکٹر مالک متوسط طبقے کے نعرے کے ساتھ سرداروں کی مخالفت کرتے ہوئے بھگی کی داستان اپنے مجالس کی زینت بناتے رہے لیکن اب وہ خود بھگی کو کھینچ کر مختلف ہیلے بہانے کرتے نظر آئیں گے کیونکہ یہ خود آج وہی عمل کر رہے ہیں جھنین تاریخ میں غداری کہا جاتا ہے کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتا ہے آج انکی حال ماضی کو دہرا رہی ہے اور اسی طرح آج بھی مکمل قوم ہمارے ساتھ نہیں. اور قوم آزادی چاہتی ہے لیکن آزادی کے لیے قربانی دینے سے گریزاں ہے اور وہ آزادی کو لڈو سمجھ کر کھانا چاہتے ہیں مسئلہ پڑھے لکھے لوگوں کا ہے کہ وہ تحریک سے دور ہوتے جارہے ہیں جو لوگ آزادی کی نعمت و قومی پہچان کا شعور نہیں رکھتے ان سے گلہ نہیں لیکن باشعور لوگ سمجھ کر بھی ناسمجھی کا دامن تھامے ہوئے ہیں کیونکہ وہ قربانی دینے سے گریزاں ہیں اتنی لمبی تقریر کر کے تم نے تو کچھ اچھی باتیں کی ہیں بزرگوں نے وطن ہمارے ہاتھ میں جس حالت میں دی اب اسکی حفاطت ہمارے ذمے ہیں جسطرح آپ نے کہا کہ اب ہمیں اپنے ذمے دھرتی ماں کا قرض ادا کرنا ہے باقی باتیں تاریخ دان کے بے رحم قلم میں رقم ہونگے ہنستے ہوئے اگر تاریخ دان اپنی منشا و مرضی کے مطابق تاریخ لکھی تو پھر کیا ہوگا؟ آج تک ہمارے تاریخ دان ایک نقطے پر نہ ٹک سکے کوئی سامی النسل کہتا ہے تو کوئی آرین کوئی عرب بنا دیتا ہے تو کوئی کرد. ہم کرد ہوں یا ترک یا مغل جو بھی ہو اس سے مجھے سروکار نہیں. میرا مقصد یہ ہے تاریخ دان اگر انصاف نہ کرسکا تو پھر ہماری یہ جدوجہد دس من مٹی تلے ہی دب جائے گی. تم خود ہی اپنے ہی باتوں کو غلط ثابت کر رہے ہو ایک طرف کہتے ہوتے ہو کہ ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تو تم بہ یک وقت مدعی بھی ہو مجرم بھی اور مصنف بھی. تم چاہتے ہو کہ سارے کام ہمیں کرنے چاہیے ایسا نہیں ہوسکتا دیکھو جسطرح تاریخ کا آپ نے ذکر کیا تو اس تاریخ کو کس نے لکھا وہ کمزوریاں ہمارے سامنے کس طرح پہنچے بلے انکی تاریخ مکمل درست نہ ہو لیکن مجموعی رائے اس سے لے کر ہی آپ نے خان و انگریزوں کی قبضہ گیریت کا مختصر جائزہ پیش کیا اصل میں ہم میں وہ بیماری سر اٹھا چکی ہے کہ ہر عمل و کام میں میرا حصہ ہو اگر اس سے نکل گئے تو ہمارے مسائل آدھے بن کر رہ جائیں گے کیونکہ ہم خود کو عقل کل سمجھتے ہیں آج کوئی بھی بلوچ لکھاری جو ہمارا ہم فکر نہ ہو وہ جہد آزادی کے حوالے سے اپنی رائے دے بلے اسکی رائے سے ہم اتفاق نہ بھی کریں تو اسکے ساتھ ہمارا رویہ دشمنانہ ہوگا اور ہر محفل و دیوان میں اسکے کپڑے اتار دیتے ہیں کہ کیوں وہ ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتا یہ از خود ایک مرض ہے زندہ معاشروں میں اختلاف رائے کی قدر کی جاتی ہے اس پر مل بیٹھ کر بات چیت کی جاتی ہے اور جمہوری انداز میں ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اب ہم اپنے علاوہ کسی اور کے موقف کو سننے تک راضی نہیں ہوتے اسی بنیاد پر بلوچ دانشور بلوچ جہد کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کرتے ہیں ایک تو ریاستی ظلم وجبر سے خوفزدہ ہیں اور دوسری طرف ہمارے سخت رائے انکے لیے قابل قبول نہیں شاہد ریاست کے ظلم کو برداشت کر سکیں لیکن آزادی پسندوں کی رائے انکے لیے قابل قبول نہیں. کیونکہ حمایتی رائے انھیں دشمن کے لیے آسان ٹارگٹ بنا سکتی ہے اور مخالفانہ رائے انھیں قوم کے سامنے غدار بنا دیتی ہے اس وجہ سے عقل کل بننے سے گریز ہو تو ہر ایک اپنے کام کو بہتر انداز میں کر سکتا ہے اگر ہم کسی دوسرے پر رائے دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جانکھ کر دیکھیں تو شاہد ہمیں زیادہ کہنے کی ہمت نہ ہو کیونکہ ہم جلد سمجھ جائیں کہ ہم میں اور ان میں بہت ہی معمولی فرق ہوگا اس وجہ سے کسی اور کا احتساب کرنے سے پہلے اپنا احتساب کریں تو شاہد ہمیں سمجھنے اور سمجھانے میں مشکل نہ ہو ہمیں ہر اس شخص پر اعتراض ہے جو ہماری طرح نہیں سوچتا اور اسکے ہر اس عمل پر اعتراض کرتے رہیں گے حالانکہ وہ اپنے سوچ کے مطابق کام کررہا ہوتا ہے میں نے تو یہاں تک محسوس کی ہے کہ ہمارا اپنا ساتھی کسی کام پر جارہا ہو تو کچھ وہ کام اپنے طریقے سے کرنے پر زور دیتے ہیں یہ غلامانہ سماج میں غلامانہ نفسیات کی ہی دین ہے کہ ہم ہر چیز پر اپنی رائے کو ہی درست سمجھتے ہیں شاکر ہنستا ہوا اتفاق کرتا ہوں لیکن آپ بھی تو زور دے رہے ہو کہ میں آپکی رائے کو درست سمجھوں اور میں اسی کو بنیادی خرابی کا جڑ سمجھتا ہوں کہ ہم بلاتحقیق فیصلہ صادر کرتے ہیں اور میرا اختلافی رائے یہی ہے کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کی تربیت نہیں کی ہے اس وجہ سے ہم میں یہ بیماریاں موجود ہیں خیر یہ تو جہد کا حصہ ہیں وقت کے ساتھ اوپر نیچے ہوتے رہیں گے اور انکا حل بھی ممکن ہے ناممکن نہیں.بس حل کے لیے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے رائے پر ہٹ دھرمی سے پرہیز کیا جائے. درست کہتے ہو لیکن شاکر جد وجہد شروع سے آخر تک ایک جیسی نہیں رہتی وقت و حالات کے ساتھ انسان کے خیالات بدل جاتے ہیں کمزور ہوتے مضبوط ہوتے ہیں یہ سب حالات و انکے سوچ پر منعصر ہوتا ہے کیونکہ کوئی انسان جس سوچ سے جڑتا ہے وہ یک دم اس سوچ سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ اسکی لاشعور کی گہرائیوں میں پہلے سے موجود ہوتا ہے اور وہ اس سوچ کو قبول کرتا ہے اور وہ اسکی شعور پر منعصر ہے کہ وہ چیزوں کو کس زاویے سے دیکھتا ہے ہم اپنی تاریخ کو لیکر دیکھیں تو ہماری جد وجہد رکی نہیں بلکہ کمزور رہی اور جمود کا شکار ہو کر قریب المرگ رہی لیکن سوچ زندہ تھی اور دیوانے زندہ تھے تو انھوں نے جسطرح ابتدا کی تو ان حالات میں اتنا ہی ممکن تھا اور لوگوں کی تربیت سے لیکر کیمپوں تک کا سارا عمل وہ خلوص و نیک نیتی کے ساتھ سر انجام دیتے رہے لیکن وقت کے ساتھ جہد میں شدت آتی گئی اور دشمن کے جبر بڑھنے لگے اور سرمچاروں سمیت سیاسی میدان میں تعداد بڑھنے لگی اور موب کی صورت میں لوگوں کی تحریک سے وابستہ ہونے پر بروقت منظم منصوبہ بندی نہ ہو سکی اس وجہ سے نقصان زیادہ ہوا لیکن یہ حالات دنیا کے تمام اقوام میں رہے ہیں جنہوں نے آزادی کے لیے جنگیں لڑی ہیں اب تو ہم ان تمام تجربات سے گزر چکے ہیں اب آگے کے لیے ہم بہتر حکمت عملی کے ساتھ سامنے آ سکتے ہیں تو اسی امید کے ساتھ کہ ان مسائل پر جلد قابو پا سکتے ہیں اور جنگ ایک ایسا عمل ہے جہاں سے زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اور آزادی کے لیے جنگ ناگزیر ہے جب جنگ ہوگی تو مسائل پیدا ہونا لازمی ہے لیکن انھیں بروقت حل کرنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ یہ خرابی پیدا کرنے کا سبب بنیں گے بات ختم کرتے ہوئی چاروں طرف خاموشی چاہی رہی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتے ہیں مسکراتے ہوئے وطن کے عشق میں دیوانے پختہ عظم کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے منزل کی طرف پیش قدمی کرنے لگے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز