سه‌شنبه, آوریل 30, 2024
Homeخبریںفورسز نے 56 آپریشن کئے،124 افراد اغواءاور 15 بلوچ فرزندوں کو شہید...

فورسز نے 56 آپریشن کئے،124 افراد اغواءاور 15 بلوچ فرزندوں کو شہید کر دیا:بی این ایم

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے میڈیا میں جاری کر دہ بیان میں کہا کہ ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں آپریشن اور حراستی قتل عام،لوگوں کا اغوا کرنا تیزی سے جاری ہے ، ترجمان نے کہا کہ کئی دنوں سے جاری مشکے میں آپریشن کے دوران حراست میں لیے جانے والے تین افراد جن میں ایک ستر سال سے زائد عمر کا بزرگ شامل ہے، فورسز نے شہید کر کے انکی لاشیں ویرانے پیں پھینک دئیے،ولی محمد ولد داد محمد، نصر اللہ ولد محمد، صحمد ولد نور بخش جو پیشے سے مال مویشی چر اتے تھے، جبکہ پروم کے علاقے جائین سے فورسز نے ایک طالب علم اسرار حکیم کو سرئے بازار تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے ساتھ لے گئے۔مرکزی ترجمان نے کہا کہ اس ماہ اب تک فورسز نے56 بار آپریشن کر کے آبادیوں کو نشانہ بنایا، گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ فورسز کی تشدد سے کئی خواتین و بچے زخمی ہوئے ۔بلوچستان سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق124 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا اور 15 بلوچ فرزند ریاستی بربریت سے شہید ہوئے، دوران آپریشن98 گھروں کو جلایا گیا۔ترجمان نے کہا کہ واضح رہے کہ بلوچستان کی سرزمین وسیع ہونے کی وجہ سے آپریشن ،گھروں کا نذر آتش کے ساتھ لوٹ مار اور لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف پارٹی وقتا وقتا اقوام متحدہ و دیگر انسانی حقوق کے اداروں کو تحریری صورت میں آگاہ کرتی آ رہی ہے ،مگر افسوس کہ یہ تمام ادارے ریاستی بربریت پر خاموش تماشی کے علاوہ کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔مرکزی ترجمان نے کہا کہ بی این ایم دنیا کے تمام صحافتی اداروں سے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کر تی ہے کہ وہ مقبوضہ بلوچستان کا خود رخ کریں اور حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں،دیگر صورت تیزی سے قابض کی جانب سے جاری بلوچ نسل کشی جو انسانی بحران اور المیہ کا شکار اختیار کرتا جا رہا ہے وہ سنگین تر ہو جائے گا۔پاکستانی فوجی ترجمان اور کٹھ پتلی حکمران عام آبادیوں کو نشانہ بنا کر انھیں مزاحمت کاروں کا کیمپ ظاہر کر کے عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ،اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق سے منسلک ادارے اور صحافتی ادارے خود زمینی حقائق تک رسائی کے لیے مقبوضہ بلوچستان کا دورہ کریں اور جاری بلوچ نسل کشی کو روکھنے کے ساتھ حقائق کو منظر عام پر لے آئیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز