پیر, مئی 20, 2024
ہومخبریںآنے والی نسل کو بچانے کےلئے ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوگا...

آنے والی نسل کو بچانے کےلئے ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوگا :ایف بی ایم

تربت :ہمگام نیوز
فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے تربت شہر کے مختلف مقامات پر پمفلیٹ بااعنوان(بڑا کھٹن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو) تقسیم کی گئی ہے

ستر سالوں سے قابض ریاست کی سب سے بڑی کوشش یہی رہی ہے کہ معدنیات سے مالامال بلوچستان کو بلوچ قوم سے کیسے چھینا جائے۔ ہر طرح کے ہتکھنڈے استعمال کرنے کے بعد اب اُس نے بلوچ قوم کو دنیا کی تاریخ سے مِٹانے کا جو عمل شروع کیا ہے وہ یقیناًہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے ۔دنیا کی تاریخ نے ہمیشہ ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جب کبھی جس قوم کے وجود پر طاقتور حملے ہو ئے ہیں اور اگر اُس قوم نے اپنی بقاء کی جنگ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کے نہیں لڑی ہے تو ایسی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔ جس میں تائینو لوگوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اگر ہم تائینو لوگوں Taino people )) کی تاریخ کو دیکھیں جو کیریبین خطہ کے ہسپانیولا میں تائینو زبان بولنے والی قوم سے جانے جاتے تھے ہسپانیولا کو بلوچستان کی طرح اس لئے موتی کی لڑی کا نام دیا گیاتھا کہ یہ خطہ بھی بلوچستان کی طرح قدرتی وسائل سے مالامال تھا۔

1492 میں جب کولمبس نے وہاں ڈیرا ڈالا تو اس وقت تائینو لوگوں کی آبادی دس سے بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔کولمبس کے آنے کے بعد یہ آبادی تیس سالوں کے مختصر دورانئیے میں پانچ سو کی ہو کر رہ گئی اور آخر کار تا ئینو بولنے والی قوم کا وجود اپنی سرزمین سے ایسا مٹ گیا کہ آج انکا کوئی وجود وہاں باقی نہیں۔ قابض یورپین کے خلاف جب تائینو قوم سے تھوڑے لوگوں نے مزاحمت کی ،تو مزاحمت کاروں کو قتل کر دیا گیا ،بہت سوں کو جیلوں میں اور زندانوں میں ڈالا گیا ، بعد میں تمام تائینو لوگوں کا وجود ختم کرنے کے لیے اُنکی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور علاقے میں چیچک جیسی بیماری پھیلا کے انکو اپنا گھر ،اپنی دھرتی اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ۔بلکل اسی طرح کی کہانی کا سایہ بلوچستان کی فضاوں میں لہرا رہا ہے ۔ڈاکہ چوری ،قتل،اغواء، اور لوٹ مار کے بعد قابض ریاست بلوچ قوم کے قومی تشخص کو مٹانے کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہے ۔ بلوچی زبان میں شائع شدہ کتابوں کو نظر آتش کرنا اور ان پر پابندی لگانا، گوادر میں مہنگائی کی فضا قائم کر کے خوردنوش کی اشیاء کو عام بلوچ کی دسترس سے دور کرنا،بالگتر سے لیکر تربت تک کے تمام علاقوں کے لوگوں کو بندوق کی زور پر علاقہ بدر کرنا ،آواران کے تمام کوچوں اور بازاروں کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ،ریاستی دہشت گردی سے اسکول ،کالج،یونیورسٹی اور ادبی اداروں پر حملے کرنا ایک ایسی ریاستی سازش کا حصہ ہے جو ہزارہا سالوں سے ہمارے آباواجداد کی جیتی ہوئی جنگوں کو شکست میں بدلنے کی پوری زورآزمائی ہورہی ہے۔مذہبی ،لسانی،نفسیاتی،اور معاشی حملوں کے ذریعے بلوچستان کی دھرتی کو بلوچ قوم کے لئے ایک اذیت گاہ بنا کرزندگی سے محروم کرنا ایک ایسا حملہ ہے جسکا اثرنہ صرف بلوچ قوم کی گذشتہ ہزارہا سال کی تاریخ پر پڑیگا بلکہ آنے والے دنوں میں نئی نسل کی بقاء کو خطرہ ہوگا ۔

ریاستی دشمنی کا نشانہ کوئی ایک شخص ،کوئی ایک گروہ، کوئی ایک تنظیم، یا کوئی ایک قبائل نہیں ہے بلکہ اگر شعوری نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ جنگی سازش اور یہ حملے پوری بلوچ قوم کی بقاء ،تشخص اور وجود پہ کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کے مستقبل کے چراغ بجھائے جارہے ہیں،ہماری ماؤں بہنوں کی بے عزتیاں کی جارہی ہیں ۔جس بقاء کے لئے ہمارے ہزاروں شہیدوں نے اپنی جانیں دی، جس قوم کے تشخص کو ہزاروں سالوں سے اپنے خون سے سینچا ،آج اسی قوم کی آنے والی جنریشن کی لگام ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ہماری لاتعلقی۔ہماری بے حسی،ہماری خاموشی اورہماری ناسمجھی ہماری آنے والی جنریشن کے لئے موت کا پیغام بن رہی ہے۔ابھی ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی آنے والی جنریشن کو کیسے بچائیں۔آنے والی جنریشن کی بقاء کے لئے کبھی بھی کوئی ذی ہوش بلوچ سمجھوتہ یا سودا بازی نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اپنی ماؤں کی اس امید کو بچانا ہے جس امید کو انہی ماؤں نے اپنے بیٹوں کا لہو بہاکے بلوچ قوم کو بقاء دی۔اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے قومی وجود کو کیسے بچائیں کیونکہ یہ ذمہ داری وقت نے ہمارے حصے میں ڈالی ہے اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اپنی ذمہ داریاں نہ نبھانے والی قومیں تائینو لوگوں کی طرح ہمیشہ صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور انکا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہا ۔۔۔

رات باقی ہے ابھی اور سفر اور سفر

یہ بھی پڑھیں

فیچرز