دوشنبه, می 6, 2024
Homeخبریںبلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ۔: ہمگام رپورٹ

بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ۔: ہمگام رپورٹ

ہمگام رپورٹ

انسانی زندگی عجیب پرپیچ راستوں پر سفر کرکے مختلف فکر نظریوں کی اپنے اندر پرورش کرکے انھیں پنپھنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور انسانی تاریخ میں مختلف ادوار و واقعات گزرے ہیں اور جدت کے متلاشی رہے ہیں انسانی بقا کا مسلہ انسان کی وجود سے لیکر اب تک آتا چلا آرہا ہے کھبی قدرت کی آفات سے تو کبھی اندرونی خلفشار و کھبی بیرونی طاقتوں کے یلغار نے ہر دور میں انسانی المیے کو جنم دیتا رہا ہے چنگیز خان و تیمور لنگ کے توسیع پسندانہ عزائم ہوں یا فرانسیسی انقلاب ہو یا سوشلسٹ انقلاب یا پہلی و دوسری جنگ عظیم یا کہ ڈکٹیٹر شپ ہو ہر دور میں مخالف فکر و نظریے رکھنے والوں کو اپنی بقا کا مسلہ درپیش رہا ہے اور جو طاقتور رہا ہے وہ اصول قوانین کو پاؤں تلے روند کر اپنے مخالفین کا سر قلم کرتے رہے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ جزوقتی واقعات جلد ہی اپنے بھیانک انجام پر پہنچ گئے اور یہ مسلہ دنیا کے ہر خطے میں یکساں رہا ہے کیونکہ حاکم کی نفسیات ایک جیسی ہی ہوتی ہے چاہے وہ امریکہ میں ہو یا کہ عربستان میں . اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک ناپرساں پاکستان جو کہ 1947 کو منظر عام پر آنے ، بلوچ وطن اسکی یلغار اور نسل کشی و بلوچ کی بغاوت اس وقت کوئی منطقی نتیجے تک نہ پہنچ سکی اور بلوچ دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے جرنل یحییٰ و جنرل ایوب و ضیاءالحق کے مارشل لاء نے تمام انسانی قوانین کو پاوں تلے روندتے رہے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والے یا تو زندانوں کی نزر ہوگئے یا پھر موت کے پروانے سے ملے اور یہی حال برسوں تک چلتا رہا اسی طرح پرویز مشرف کی آمد کے بعد ایک بار پھر بلوچ وطن پر انسانی المیے نے جنم لینا شروع کیا اور ماورائے قانون سیاسی لوگوں کو اغواہ کرکے بدنام زمانہ قلی کیمپ میں ٹارچر کے بعد انھیں قتل کرنا اور اجتماعی قبروں میں دفن کرنا معمول بن گیا 2000 سے لیکر آج تک ہزاروں بلوچ ماورائے قانون ریاستی عقوبت خانوں میں موت و زندگی کی کشمکش میں جی رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے بعد نام نہاد جمہوریت کے بعد آئی ایس آئی و ایم آئی بلوچوں کے قتل عام کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھا ریاست اپنی دفاع کے لیے بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف کھلم کھلا مسلح تنظیمیں بنائے جسطرح بنگلادیش میں الشمس و البدر نامی تنظیمیں بنا کر اس وقت کے آزادی پسندوں کو قتل کرتے رہے اور اس بار بھی وہی سلسلہ اپنایا گیا اور ماورائے قانون و عدالت سیاسی رہنماؤں و سیاسی، سماجی و ادبی لوگوں کو اغوا کرکے انھیں پس زندان رکھا گیا یا وہ ٹارچر کی وجہ سے مارے گئے یا ابھی زندگی و موت کے بیچ لٹک رہے ہیں ریاست نے ایک خوف کا ماحول پیدا کرکے آزادی پسندوں کو آزادی کے پرخار راستے سے دور رکھنے کی ایک کوشش تھی اور اسی طرح اپنے پیاروں کے لیے بلوچ مسنگ پرنسنز کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی اور وہ تقریبا تیرہ سالوں سے مسلسل اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے میدان عمل میں ہے ماما قدیر فرزانہ مجید و نصراللہ بلوچ جو بلوچ مسنگ پرنسنز تنظیم کے رہنما ہے ان کے اپنے ان سے بچھڑ چکے ہیں یہ خوش قسمتی تھی کہ نصراللہ بلوچ کا بھائی انتہائی خستہ حالت میں بازیاب ہوا اور ماما قدیر کے بیٹے کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی جبکہ ذاکر مجید کا ابھی تک کچھ بھی پتہ نہیں اور بی ایس او کے کئی ارکان و رہبران تک اغواء ہوئے ہیں لیکن انکے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں جبکہ پرامن طریقے سے جہد کرنے والے اس تنظیم کے لوگوں کو مختلف طریقوں سے دھمکی دی گئی لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنی جہد جاری رکھے ہوئے ہیں ریاست ان اغواء نما گرفتاریوں پر ہمیشہ سے متضاد بیانات دیتی رہی ہے اور ساتھ ساتھ بلوچ آزادی پسند تنظیموں و انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیانات لاپتا افراد کے حوالے سے متضاد رہے ہیں شاہد اسکی وجہ اعداد و شمار کی صعیح منیجمنٹ ہو یا پھر ہر تنظیم کی مختلف طریقہ کار ہو البتہ اس حوالے سے بیانات متضاد رہے ہیں 11 جون 2012 میں حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی تعداد چند سو ہیں جبکہ بلوچ مسنگ پرنسنز کے آرگنائزیشن نے اس دعوے کو مسترد کرکے کہا تھا کہ لاپتا افراد کہ اس وقت تک چار سو سے زائد لاپتا افراد کی لاشیں مل چکی ہیں اور اسی سال جولائی کے مہینے میں جسٹس افتخار چوہدری نے بلوچ لاپتا افراد کی ذمہ داری ایف سی پر عائد کی تھی۔ جبکہ اسی سال 4 اگست 2012 کو وزیر داخلہ رحمان ملک نے لاپتا افراد کی تعداد صرف چھتیس بتائی جبکہ 15 ستمبر 2012 کو لاپتا افراد اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے لاپتا افراد کی تعداد 2000 ہزار سے زائد بتائی انھوں نے کہا کہ حکومت نے انھیں صرف 36 افراد کی فہرست دی ہیں جبکہ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے اس وقت رحمان ملک کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچ لاپتا افراد کی تعداد 20000 ہزار ہے جبکہ محکمہ داخلہ بلوچستان نے 2010 سے 2016 تک ایک ہزار افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا جبکہ بلوچ ہیومن آرگنائزیشن نے اس دعوے کو بھی مسترد کی تھی اور انھوں نے مسخ شدہ لاشوں کی تعداد 2000 ہزار سے زائد بتائی تھی اسی طرح حکومت پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ سالوں میں لاپتا افراد کی فہرست کچھ یوں ہے. 2011 میں 201 افراد 2012 میں 161 افراد 2013 میں 154 افراد 2014 میں 207 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جبکہ بلوچ مسنگ پرنسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے کہا تھا کہ ان کے پاس باقاعدہ رجسڑڈ شدہ لاشوں کی تعداد 1200 سے زاہد ہے تاہم اسکی تعداد اس سے کئی گناہ زیادہ ہے جبکہ گیارہ اکتوبر 2017 کو لاپتا افراد کے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس( ر) جاوید اقبال نے کہا تھا کہ شہریوں کے لاپتا ہونے کا دعویٰ کرنے والے کوئی فہرست پیش نہ کرسکے ہیں جبکہ ماما قدیر کا پچیس ہزار افراد کے لاپتا ہونے کا دعویٰ صحیع نہیں تھا جبکہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی تعداد سے متعلق فہرستوں کی حیثیت متنازع ہے کہ جس طرح کمیشن نے ماما قدیر سے برائے راست تنقیدی سوالات کیے اگر یہی سوالات متعلقہ اداروں سے کیے جاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اسی طرح بلوچ لاپتا افراد کے حوالے سے ریاستی جھوٹ ہر وقت میڈیا پر گردش کرتی رہی ہے اور جسٹس افتخار چوہدری نے اس کا ذمہ دار ایف کو قرار دیا لیکن اس پر کوئی کاروائی نہ ہوئی جبکہ لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشوں و انکی جعلی مقابلوں میں شہادت پر بلوچ مسنگ پرنسنز کے سربراہ نصر اللہ بلوچ نے بار بار کہا ہے کہ ریاست لاپتا افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کرکے انھیں مسلح آرگنائزیشن کے ممبران ظاہر کرتا ہے تاکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے آنکھوں میں دھول جھونک سکے لاپتا افراد کا معمہ حل ہونے کے قریب نہیں اور نہ ہی یہ حل ہوگا کیونکہ ریاست جس مقصد و نیت سے ان افراد کو ماورائے قانون و عدالت اغواء کرتا ہے ان کا مقصد یہی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے انھیں جہد آزادی کے رستے پر سفر سے روکے اسی بنا پر ریاست مختلف کمیشن و مختلف ادارے اسی مقصد کے خاطر بناتے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپایا جا سکے جس طرح ارجنٹائن ملٹری ڈکٹیٹر شپ نے 1969 سے 1983 کے دوران جتنے بائیں بازو کے حمایتی افراد تھے انھیں اغواء کرکے قتل کردیا جنکے پیارے آج تک انکی راہ دیکھ رہے ہیں اور اسی طرح یوراگوئے چلی و دیگر ممالک میں ہوتا رہا ہے اور کوسوو یوگوسلاویہ میں اجتماعی قبریں آج تک اس تاریخ کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور یہی حال بلوچستان میں ہر سو دکھائی دے رہا ہے خضدار توتک کے اجتماعی قبریں جو ریاست کی ظلم و بربریت کی زندہ مثالیں ہیں جہاں ڈیڈھ سو سے زائد افراد کی مسخ شدہ لاشوں کو دفنایا گیا جن میں سے صرف دو کی شناخت ہوئی جو مشکے آ واران کے رہائشی تھے اگر دیکھا جائے تو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی دعووں پر نظر دوڑائی جائے تو انکے بیانات بھی ایک دوسرے سے متضاد رہے ہیں کوئی لاپتا افراد کی تعداد چھ ہزار تو کوئی بارہ ہزار کوئی پچیس ہزار کے دعوے کیے ہیں اور مکمل کوائف کسی بھی تنظیم کے پاس نہیں اگر بلوچ مسنگ پرنسنز و بی ایچ آر او تحقیق کرکے ایک مکمل فہرست بنا کر تمام آزادی پسند تنظیموں کو دیتے تو بہتر ہوتا کم از کم انکے دعوں میں غلطی کی گنجائش نہیں رہتی یا پھر دیگر آزادی پسند تنظیمیں جو کہ ماس پارٹی کے دعویدار ہیں وہ اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے لاپتا افراد کے تمام کوائف کو اپنی آرگنائزیشن کی جانب سے سامنے لاتے تو بہتر رہتا یا تمام آزادی پسند تنظیمیں بی این ایم، ایف بی ایم، بی آرپی، بی آر ایس او. بی ایس او، بلوچ مسنگ پرنسنز آرگنائزیشن، بی ایچ آر او و سالویشن فرنٹ مشترکہ طور اس پر کام کرتے تو بہتر رہتا اور تمام افراد کے کوائف جمع کیے جاتے تو ایک مشترکہ دستاویز دنیا کے کسی بھی ادارے میں مستند دستاویز کی حیثیت اختیار کرتے اندرونی اختلافات اپنی جگہ لیکن لاپتا افراد کے حوالے سے مشترکہ طور ایک مستند دستاویز اشد ضرورت ہے نہ کہ اسی طرح آپسی بیانات و دعوں میں تضادات لاپتا افراد کے کیس کو دنیا کے سامنے مزید کمزور کردے گا. وقت و حالات کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے تمام آزادی پسند اس پر سنجیدگی کے ساتھ کوئی حتمی فیصلہ کریں جو کہ قومی مفاد میں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز