ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومآرٹیکلزبلوچ انسرجنسی مسئلہ اور گومگو کی کیفیت تحریر رستم بلوچ

بلوچ انسرجنسی مسئلہ اور گومگو کی کیفیت تحریر رستم بلوچ

دنیا کی تاریخ میں جنگ اور لڑائی میں نمایاں فرق رہا ہے لیکن پاکستان میں عسکری ادب نہ ہونے کی وجہ سے اردو زبان میں دونوں ایک جیسے استعمال ہوتے رہے ہیں ، بلوچوں کی نصف صدی جنگوں کے چھا ؤں تلے گز ری لیکن پاکستانی قبضہ گیریت کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے مجبوری کی حالت میں قابض کی زبان پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور ہم بھی سب کو ایک جیسے استعمال کرنے لگے ہیں جبکہ حقیقت میں لڑائی تنگ تر اور محدود ہے اس کے بعد مہم اور مہم کے بعد جنگ کی اصلاح استعمال ہوتی ہے ،پھر جنگ کے بعد جنگ عظیم وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے ،اور دنیا دو جنگ عظیم سے بھی گز را ،لیکن پاکستان میں سب ایک جیسے استعمال ہونے لگے ہیں ،ایسی لیے انھیں سمجھنے میں تھوڑا دشواری ہورہی ہے ،کسی بھی جنگ کے لیے بہت سی لڑائیاں لڑی جاتی ہیں اور جیتی بھی جاتی ہیں لیکن سب سے بڑی چیز مکمل جنگ جیتنا ہوتا ہے ،جو سب سے بڑا جنگجو ہوتا ہے یا کہ قومی جہد میں کرشمائی لیڈر ہوتا ہے اسکی صلاحیت ،ہنر،حکمت عملی جنگ جیتنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پوری جنگ میں فتح کیسے حاصل کرتا ہے ۔،بلوچ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف ۶۵سال سے جہد کر رے ہیں اور ہر دس سال کے بعد جہد میں مداخلت ہوتی رہی اور جہد میں صرف لڑائیاں لڑتے لڑتے قوم کو ظلم جبر ،ستم ،زوراکی ،اعضاشکنی ،ماندگی ،افسردگی ،اداسی ،اور مجہولی کفیت میں ڈال کر پھر قابض کی کاونٹر انسر جنسی کا شکار ہوکر جنگ جیتنے سے پہلے لڑائی میں تاب مقابلہ نہ پا کر پسپائی اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،اس کے بہت سے محرکات ہیں جنھیں درگزر نہیں کیا جاسکتا ہے ،پہلے ارٹیکل میں لکھ چکا ہوں کہ آج کے گوریلا جنگوں کے جدید دور اور ماضی کے جہد میں بہت زیادہ فرق آیا ہے یہ فرق ایسا ہے جیسا کہ خط وکتابت اور تیزرفتار ٹیکنالوجی کے درمیان فرق کی طرح ،جہاز اور پیدل کے سفر کے درمیان کے جتنا فرق آیا اس سے بھی زیادہ فرق گوریلا جنگ اور اسکی حکمت عملی کے حوالے آیا ہوا ہے لیکن اب تک ہم اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں گوریلاجنگ میں جہد کو کامیابی سے نزدیک کرنے کے حوالے ایسی خط و کتابت اور پیدل کے سفر کے دور کی طرح کی حکمت عملی پر گامزن ہیں ،ہمارے لکھاری دانشور اب تک قوم کو اس جدید دور میں protracted یعنی طول پکڑنے والی جنگ کی تلقین کر رے ہیں ،کیونکہ ۶۰ کے دور میں اس پر زور تھا کہ گوریلا جنگ جتنی طول پکڑے گی اسکی کامیابی کے اتنے زیادہ امکانات ہونگے اور قابض تھک جائے گا اسکی معیشت تباہ ہوجاے گی اور محکوم کو کامیابی ملے گی لیکن آج کے دور میں اس گوریلا اور قومی جنگی تھیوری کو یکسر رد کیا گیا ہے اور اگر جو بھی جہد اس رائے نظریہ پر چل رہا ہے اسکی کامیابی کے بہت کم امکانات ہونگے اور ماضی کی جہد کی ناکامیابیوں کی ایک سب سے بڑی وجہ ایک یعی تھا ،جہان بقول ایک دوست کے بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج جنگ میں مصروف تھی اور انڈیا بھر پور کمک ومدد کررہا تھا اس جنگ کو اس وقت شروع نہیں کیا گیا اور بعد میں عطااللہ مینگل کی حکومت کے خاتمے کے وقت شروع کیا گیا کیا اس میں قابض کے اندر میں موجود لوگوں کی ملی بھگت تھی یا کہ لیڈرشپ کی حالات کو نہ سمجھنے کی کمزروری اس پر تحقیق کی ضرورت ہے ،پھر وہ جنگ طول پکڑنے والی جنگ کی شکل اختیار کرتے کرتے اپنی آخری انجام کو بغیر نتیجا دئے پہنچا اور لڑائی لڑتے لڑتے جنگ کی نوبت تک نہیں آئی ،آمریکہ اور یورپ کے انسرجنسی پر تحقیق کرنے والے تمام تینک ٹینک اس بات پر مطفق ہیں کہ آج کے جدید دور میں قومی جنگیں جتنی طول پکڑیں گی انکی ناکامیابی کے اتنے زیادہ امکانات ہونگے اور دس دس سال کے بعد کوئی بھی جہد عروج کے بجائے زوال کی طرف جانا شروع کرے گا کیونکہ اس وقت قابض کو اپنے لوگ ان کے اندر مکمل شکل میں سراہت کرنے میں کامیابی ہوچکی ہوگی اور اگے یہ جنگ جتنی زیادہ وقت لے گا اتنا قومی جہد کی ناکامیابی کے امکانات نمایاں ہونگے اور جتنا جنگ دیر لگائے گا اتنا قابض کے حق میں آسانی ہوگی اور قابض کی کوشش ہوگی کہ جنگ فیصلہ کن رخ اختیار نہ کر سکے ،اس پر الگ سے کوشش ہوگی کہ لکھا جائے لیکن کیا چیز انسرجنسی کو ناکامیابی کی طرف لے جاتا ہے اس پر بھی جدید دور میں انسرجنسی پر رسرچ کرنے والے لوگوں نے کچھ لکھا ہے کہ انسرجنسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسرجنسی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو تشدد کے ذریعے سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لیے عزم کرتا ہے جوش پیدا کرتا ہے اور سوچ سمجھ کر ریاست کی رٹ کو چلنج کرتا ہے ،اس میں دو چیز یں انقلاب اور قومی آزادی کو تمام جہد میں خلط ملط کئے جاتے ہیں انقلاب اور قومی آزادی کی جہد میں فرق ہے دونوں کے اصول کے لیے انسر جنسی کا عمل شروع کیا جاتا ہے لیکن قومی جنگ میں جہد ریاست کا نیم البدل ہوتا ہے اور اس میں پوری قوم کی شمولیت پر زور دیکر دوسرے قابض ریاست کی سیما اور سرحدیں اس جہد سے تقسیم ہوتی ہیں جبکہ انقلاب ایسی ریاست کی سیما اور سرحد کے اندر آتا ہے جیسا کہ روس ،فرانس، ایران ،چین ،کیوبا کی انقلاب تھے جو اپنے ریاست کی سیما اور سرحد کے اندر رونما ہوئے جنھوں نے ملک کی سرحدی خط کو پار نہیں کیا جبکہ اسکے برعکس آمریکہ ،ویتنام ،،انڈیا ،برما،مشرقی تعیمور ،کوسوو و ،سعودی ،ہنڈونیشیا کی انسرجنسی قومی تھی جنہوں نے قابض ریاست کی سیما ،حدود ،تبدیل کئے اس لئے اب انقلاب اور قومی جہد میں نمایاں فرق کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ انکے طریقہ مقاصد میں فرق ہوتا ہے ،ایک جہد ریاست کے اندر ہو وہ مزدور ،غریب ،دھکان کے لیے جو سماجی جہد کرہا ہو وہ کیسے انہیں ٹارگٹ کر سکتا ہے لیکن محکوم جو دوسرے قابض کے خلاف جہد کر رہا ہے وہ سب کو ٹارگٹ کر سکتا ہے جو اسکی محکومی کو تقویت دے رے ہوتے ہیں ،کنیا ،سمیت بہت سے محکوم جہد میں قابض کے طبقہ کے لوگ ٹارگٹ کئے گئے ہیں اب بلوچستان میں چین کی تعمیر کو روکنے کے لیے بی ایل ایف نے جو مزدور مارے یہ جہد کا حصہ تھاا سکی حمایت ہم سب نے کی لیکن اپنی جہدکو کمیونزم اور انقلاب سے منسلک کرنے کی وجہ سے پنجابی سوشلسٹوں سے مجبور ہوکر بی ایل ایف کی لیڈر شپ اس موقف پر صفائی دینے لگا کہ مزدور نہیں بلکہ فوجی مارے گئے ہیں خود اپنی بہترین کام کو ا پنے نرم موقف کی وجہ سے خراب کیا کیونکہ اس وقت وہ چیزوں کو اپس میں گڈمڈ کرچکے ہیں ،اور گوادر کی تعمیر کوئی مانے یا مانے بلوچ جہد میں فیصلہ کن معر کہ ہو سکتا ہے اور اس میں جو کوئی قابض کی بلوچ کش مہم میں حمایت کرے گا ضرور ٹارگٹ ہوگا ،اس میں مزدور ،پولیس ،بلوچ کوئی بھی ملوث ہو انکو ضروری ہے کہ وارنگ دیکر پھر انکو ٹارگٹ کیا جانا چاہے اور اس پر کسی کمیونسٹ پنجابی اور سوشلسٹ کی دوستی آڈے نہیں انا چاہے اور خالص نیشنلزم کے فلسفے کے تحت اس پورٹ کو ناکامیاب کیا جا سکتا ہے اور قومی چھوٹے چھو ٹے لڑائیوں کو قومی جنگ کی شکل دیکر آخری جنگ بھی جیتنی ہوگی ۔لڑائیاں قومی جنگ کی شکل اختیار نہ کرنے کی وجہ بھی جانا ضروری ہے ، کسی بھی مریض کو صحت بخش ،کامل شفابخش بنانے کے لیے دوائیوں کے جس طرح ضمنی اثرات ہوتے ہیں ایسی طرح انسرجنسی کو کامیاب بنانے کے لیے اوربہتری کے لیے لئے ہوئے ہر نقش ،سیڑھی اور قدم میں ضمنی اثرات اور اسکے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں ،جس طرح دوائیوں کی ضمنی اثرات سے مریض کی زندگی کو خطرہ لائق ہوتا ہے ایسی طرح انسرجنسی میں منفی اثرات انسرجنسی کے زوال کا سبب بنتا ہے اس میں انسرجنسی کے حوالے جو تحقیق ہوئی اس میں پانچ چیزوں کی نشاندہی کی گئی جو انسرجنسی کے لیے الجھاوُ اور گومگو کی حالت کا وجہ بنتی ہیں
۱ عمل بخلاف پوشیدگی
۲بڈھوتری یا کہ زیادہ تعداد میں جہدکاروں کی شمولیت بمقالہ کنٹرول
۳سرمچاروں کی بھرتی بپریت کھنچاوُ
۴کامیابی بمقابلہ عمردرازی
۵وسائل بپریت حلقہ علاقہ
جس میں سرمچاروں کی مکمل گرفت ہو ،اگر حالیہ بلوچ جہد پر نظر دوڈی جائے ۱۵ سال پہلے انسرجنسی کا ایکشن شروع ہو ا یقیناًتیاری پہلے ہوا ہوگا لیکن جب ایکشن شروع ہوا تو کسی کو پتہ نہیں تھا کہ جہد کو کون چلا رہا ہے ،کون کون اس انسرجنسی میں شامل ہیں ، سب کچھ ہموار اور مسطح اور بچھایا ہوا چل رہا تھا ،قومی جہد کوئٹہ ،کوہلو سے گوادر تک ایسی پردہ پوشیدگی سے چلاگیا ،اس وقت صرف قلات کے شہدا کے علاوہ کم لوگ دشمن کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے ،لیکن بعد میں جب ر ازداری کمزور ہوئی جہد کے نقصان بھی لوگوں نے دیکھ لیا۔دوسرا جب لوگوں کی شمولیت اور بھرتی مسلح تنظیموں میں زیادہ ہوئی بی ایل ایف میں ۶۰۰۰ ہزار تک لوگ بھرتی ہوئے ایسی طرح بی ار اے میں بھی بھرتی کی وجہ سے وسعت بڑی ہونا تو یہ چاہے تھا کہ جہد کو زیادہ فائدہ پنچتا مگرانسرجنسی کے اصولوں کے برخلاف چل کر انھوں نے گرفت ڈھیلی کی اور وہ سارے سرمچار قومی جہد میں اپنی طاقت کو قوم کے خلاف استعمال کرنے لگے اور قوم کے مایوسی کا سبب بنے زیادہ تعداد کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنا ،کیونکہ انسرجنسی میں بھرتی کے ساتھ گرفت کی مظبوطی بھی لازم ہے ،سب بھرتی پر زور دیتے رہے اور گرفت انکی ایسی طرح ڈھیلا سے ڈھیلا تر ہوتا چلا گیا۔بھرتی کے ساتھ ساتھ جامع پالسی ،پروگرام اور جوابدہی کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک خود ساختہ لیڈر ،دانشور،جہدکار ،بن کر لابینگ اور سازشوں سے تنظیموں کے اندر تنظیم بناتے رہے ۔جو کوئی جی حضوری ، کرتے ہوئے ہاں میں ہاں ملانے ولا تھا انھیں انکی قابلیت صلاحیت کے بغیر کمانڈر ،لاڈلی کمانڈر بنا کر ایسے قوم اور لوگوں پر قابض کی طرح ظلم ،جبر کرنے کا سرٹیفکٹ دیا جاتا تھا ،اس سے قومی پروگرام مظبو ط ہونے کے بجائے کنچھا تانی کا شکار ہونے لگے ،۔بلوچ تحریک کو ۲۰۰۸ تک کافی حد کامیابی حاصل تھی اور جہد اپنی چوٹی پر تھا ساری مسلح تنظمیں قوم کی امنگوں کی ترجمان بن چکی تھیں ،لیکن اس کامیابی کو برقرار رکھناضروری تھا جو جہد کار وہ برقرار نہ رکھ سکے ۔کیونکہ قومی منصب کا لینا مشکل نہیں بلکہ اسکی بجا آوری مشکل ترین چیز ہے اور قوم نے انکا ساتھ دیا انھیں طاقت دی مگر سرمچار لیڈر اسکو برقرار نہ رکھ سکے اور ہر ایک قوم تحریک کو اپنے گروہ اور ذات تک محدود کرتا رہا اور اسکی آڈ میں اپنی لیڈری چمکاتا رہا جس سے وہ کامیابی بمقابلہ عمر درازی برقرار نہ رہ سکا ،۲۰۰۸ تک تقریبا بلوچ جہد کی وجہ سے اپنے وسائل اور طاقت کے بل بوتے پر بہت سارے علاقوں میں کنٹرول حاصل کرچکے تھے جہاں قابض کی گرفت بہت کمزور تھا ۔ کاہاں ،بولان ،مند،مشکے زیادہ تر بلوچ انسرجنسی کے قلع تھے جبکہ خضدار ،نوشکی،پروم ،تمپ،جیونی،بلیدہ تربت بلوچ انسرجنسی کے نصف قلع تھے ،اب ماسوائے کاہاں ،بولان ،مشکے باقی سارے قلع کیونکر مسمار کئے گئے انکی وجوہات آج تک ہم نے جانے کی کوشش کی ،حلانکہ ان علاقوں میں کامیابی کے بعد اس وقت بلوچ انسرجنسی کو نصیر آباد ،بیلا،اور ڈیرہ غازی خان میں ایسی طرح کی کامیابی ملنی چاہئے تھی لیکن اس کے برعکس جوبلوچوں کے مظبوط قلع تھے وہاں اب لوگ جہد سے بیزار ہوچکے ہیں ، ایک ناکامیابی کی وجہ جہد میں طول پکڑنے والی حکمت عملی ہے باقی اسباب کیا ہیں اس پر بحث کی گنجائش ہے ۔ دنیا کی تمام انسرجنسی کم مدت میں زیرو سے شروع ہوکر آگے کی جانب جاکر کامیاب ہوگئے ،اس لیے بلوچ قومی جہد کو عمل و رازداری ،بڈھوتری وکنٹرول ،کامیابی کے ساتھ عمر درازی اورطاقت و قوت کے ساتھ low levelانسرجنسی سے خود کو نکال کر مکمل اور سالم انسرجنسی کی شکل دیکر جتنا ممکن ہو کم مددت میں علاقے کنٹرول کرتے ہوئے قابض کی رٹ کو چلنج کرتے ہوئے جہد کو کامیابی سے ہمکنار کر نا چاہے تھا لیکن بقول سکا خان ہم ۱۰۰ سے زیرو کی طرف سفر کر رے ہیں اسلئے یہ ہماری جہد کے لیے لمیہ فکریہ ہے اور اب بھی وقت کی معنویت کو سمجھتے ہوئے جتنا بھی جلدی ممکن ہو اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے بلوچ قوم کی اس آخری لڑائی کو قومی جنگ کی شکل میں ڈالتے ہوئے ایسے جیتنا ہوگا کیونکہ ا
س جنگ سے بلوچ قوم کی تاریخ ،کلچر،رسم ورواج،اقدار، بقاء اور وجود بندا ہوا ہے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز