جمعه, می 17, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ کی غلامی میں اس کے اپنے مزاج کا عمل دخل :تحریر:...

بلوچ کی غلامی میں اس کے اپنے مزاج کا عمل دخل :تحریر: منجرو گٹ

جب ہم آج کی ترقی یافتہ دنیا میں آزاد و خوشحال قوموں کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو کوئی اسے کسی طرح بھی بیان کرسکتا ہے ،لیکن جدلیات فلسفہ کے پڑھنے والے باشعور انسان اسے سائنس ہی کے مرہون منت مانتے اور یقین کرتے ہیں، ترقی یافتہ قوموں کے افراد نے اپنی روز مرہ زندگی کے تمام مسائل کو اس نقطہ نظر سے حل کیا انھوں نے اپنے مسائل اور وسائل میں مطابقت پیدا کر کے خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں. افراد کے جملہ مسائل سے لے کر اپنی قوم تک کو خوشحال بنایا.اور آج انکی صحت،معیشت،زراعت، تعلیم،تجارت،دفاع،قومی شناخت تہذیب،اور قومی ریاست تک سب محفوظ ہیں۔
صد آفرین ان قوموں کو جنہوں نے سائنس آرٹ اور زندگی کے تمام شعبوں میں بے شمار گراں قدر تخلیقات و ایجادات کئے،جن سے وہ خود استفادہ کر رہے ہیں،اور دوسرے اقوام کیلئے بھی انھوں نے سائنسی علوم کو دیگر اقوام کو منتقل کردیا ،ترقی یافتہ قوموں نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں کی ترقی کو بہتر پائیدار آسان بنانے کیلئے سائنس کو مختلف شعبوں میں مختلف ناموں سے متعارف کروایا۔ مثلا،ریاضی،کیمسٹری،فزکس،جغرافیہ،کمپیوٹر سائنس،میڈیکل سائنس وغیرہ لیکن بلوچ آج کی جدید سائنس کے تمام شعبوں سے صحیح معنوں میں خاطرخواں استفادہ اس لئے نہیں کر سکا کیونکہ ہم ابھی تک پنجابی قبضہ گیریت کے شکار ہیں،جدید سائنسی علوم سے استفادہ ہم اس وقت کر سکتے ہیں،جب ہماری قومی جہد برائے قومی نجات پائیہ تکمیل کو پہنچ جائے گا،اور ترقی یافتہ دنیا کے نقشے پر بلوچ کی قومی ریاست آزاد بلوچستان عملی طور پر وجود میں آئے گا،اور ہمارے پاس رسمی طور پر ادارے ہونگے،ہمارے جیسے اقوام کیلئے قومی جہد برائے قومی نجات کیلئے اس معروضی دور میں یہ زیادہ ضروری ہے،کہ ہم سماجی سائنس پرزیادہ توجہ دیں،خصوصا عمرانیات،سیاسیات،ابلاغیات،اور خاص کر نفسیات،جو کہ انسانی سوچ و خیالات رویوں 249شعور،تحت الشعور،لاشعور،کے سائنسی مطالعے کو علم نفسیات کے ذریعے جانا جاتا ہے. آج کے انقلابی دور میں انقلابی جہد کاروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سماجی سائنس کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں۔
قارئین کی ذوق مطالعہ کے لیول کو مد نظر رکھ کر کوشش یہی ہے کہ تاریخ،سیاسیات اور نفسیات سے ضروری نقاط زیر بحث ہوں،سگمنڈ فرائڈ نے انسانی دماغ کے ساتھ منسلک نظام کو تین حصوں میں بیان کیا ہے
.نمبر 1 id
نمبر 2 ego
نمبر 3 super ego .
نمبر 1 Id
سگمنڈ فرائڈ کے نزدیک id ایک پوشیدہ نفسی حقیقت ہے یا انسانی خواہشات و خیالات کی وہ دنیا ہے.جسے خارجی دنیا کا علم نہیں اور اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں،اس کے نزدیک منطق دلیل، مذہب،اخلاقیات،یا سماجی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اڈ صرف ہر طرح کی فوری خواہشات کا تکمیل اور تسکین چاہتا ہے.اڈ کی ایسی سرکشی اور اندھی قوتوں کے تحت اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات پرذرا غور کریں تو ہمیں اس کی حقیقت اور ساخت کوسمجھنے میں آسانی ہوگی،اور بعض اوقات انسانی عقل حیران رہ جاتا ہے۔
مثلا کسی شخص کا بھاری پتھر کو اٹھا کر دور پھینکنا، کسی کا آگ یا پانی میں کھود کر کسی کو بچانا،انتہائی غصے کی حالت میں طیش میں آکر کسی کو اٹھا کر زمین پہ پر دے مارنا، سماجی اقدار کو خاطر میں نہ لاکر مناسب اور غیر مناسب کی پرواہ کئے بغیر کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش وغیرہ۔اسی طرح کے اور بھی دوسری بے شمار مثالیں روز مرہ زندگی میں محسوس کیئے جا سکتے ہیں ،الغرض اڈ کا طریقہ ایک ضدی بچے کی طرح کا ہوتا ہے،اسے جو کچھ بھی چاہے ہو ،اس وقت اس کے ذہن کی سوچ ایک معدود دائرے میں قید ہوتا ہے، کیونکہ بچے کی ابتدائی عمر میں ایگو اور سپر ایگو اتنا ترقی یافتہ اور بالغ شکل میں نہیں ہوتا،جو کہ بعد میں سماج میں رائج روایت و اقدار کی وجہ سے ترقی کرکے معاشرہ کیلئے ایک قابل قبول شکل اختیار کرے گا.اڈ ارتقا پذیر نہیں ہوتا .جبکہ ایگو ارتقاہ پذیر ہوتا ہے.اڈ علم و بصیرت سے یکسر محروم نفسی خواہش و سوچ کا نام ہوتا ہے…
.نمبر 2 ایگو.ego.1.Dealing with reality….2.Having an ego is good thing if you know how to use it.؟
ایگو اڈ کے خواہشات کو پورا کرنے کیلئے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.جو کہ سماجی طور پر قابل قبول ہو.کسی بھی معاشرے میں تہذیب و ثقافت کا تمام ارتقاہ ایگو کی نشونما سے مشروط ہوتا ہے.ایگ ہی اڈ کے بے لگام خواہشات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے.انھیں سماجی ماحول سے ہم آھنگ کرنے کی کو شش کرتا ہے.آئڈیلسٹ idealist لوگ منفی ایگو کا سہارا لیتے ہیں۔اور رئیلئسٹ realist لوگ مثبت ایگو کی پیروی کرتے ہیں.
منفی ایگو کی وہ شکل جس کیلئے یہ مضمون بلوچ قوم کے مزاج و نفسیات کو سمجھنے،تجزیہ کرنے،اور مسائل کو ختم یا کم کرنے کے لیئے کوئی لائحہ عمل طے کرنے میں مددگار ثابت ہو.
..منفی،، ایگو اسٹ،، اگر کسی شخص کا ایگو اپنے سماج سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ منفی ایگو یا abnormal ہی کہلائے گا. ایسے شخص کی ذہنی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے.psychology کی روشنی میں.ایسا شخص یہ سوچھتا ہے کہ میں کیوں نہیں.؟
اپنے آپ کو جداگانہ شناخت دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے.جب کوئی اپنے خیالات،چیزوں کو الگ سے پہچان دینے کی کوشش کرے گا تو یہ آپ اور دوسروں کے لیئے تکلیف کا باعث بنے گا.منفی ایگو شخص ضدی بچے کی طرح فرمائش کرے گا.اور صرف اسی وجہ سے کہ اپنی چھوٹی سی دانست کی وجہ سے اپنے عہدوں،شناخت،اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے.اس کی اپنی اوراس سے منسلک حلقے کیلئے یہ غیر یعقینی مادی فائدے اور غیر مادی رتبہ تشخص و پہچان کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے. یا اپنے سماجی status کو غیر محفوظ سمجھتا ہے.دنیا کے ماہر psychatrist اسے ایک ذ ہنی مرض شمار کرتے ہیں.اور ایسے لوگوں کی Rehabilation دوبارہ آبادکاری کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ان کی ہمدردی کے ساتھ counseling کرے.اورہمارا طرز عمل ان کو دیوار سے لگانے کا ہو تو مسائل کہاں حل ہونگے.؟
ایسے لوگ شدید احساس کمتری کا شکارہوتے ہیں.ایک منفی ایگواسٹ Egoist شخص اپنے آس پاس کی دنیا کو تنگ نظری کی نظر سے دیکھتا ہے.اور محسوس کرتا ہے کیا ہونے جارہا ہے.اور ایسا شخص اپنی چھوٹی سی دانست کی وجہ سے اپنے لیئے ایک محدود دنیا کا تصور وخیال بناتا ہے. Ego کا منفی استعمال تاریخ کے پنوں میں آج تک محفوظ ہے.15 ویں صدی میں میر چاکر و گھرام نے ایک معمولی سے واقع پر 30 سال تک آپس میں جنگ کی. جہاں دونوں طرف سے بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں. اور بہت سے گھرانے ہجرت پر مجبورہوگئے.ایک دوسرے کو زیادھ سے زیادھ نقصان دینے اور نیچادکھانے کیلئے دونوں اطراف سے دوسرے اقوام سے لاشاریوں نے ملتان کے لنگاھوں اور رندوں نے ترک ارغونوں سے معائدے تک کئے .
دوسری طرف اسی دور میں ان کے جنگی کارنامے اور فتوعات بھی بلوچ تاریخ کا حصہ ہیں.اگر اس دور میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے اپنی چھوٹی سی دانست اور محدود دنیا سے نکل کر وسیع سوچ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے آپسی مسائل و رنجشوں کو ختم یا کم کرتے اور حاصل مجموعی قومی قوت کو بلوچ وحدت و اتحاد اور ہمارے آج کیلئے استعمال کرتے.تو ہماری قوم آج اتنا دربدرہو کر غلامی کے دن گزارتا.؟؟؟؟
برطانوی سامراج ہمارے دھرتی کو یتیم کا مال سمجھ کر اس طرح سے بندر بانٹ کی جرائت کرتا.؟
یا کہ سامراجوں کے تاریخی غلام بد تہذیب پنجابی بلوچ وطن کو اس طرح قبضہ کرنے کی جرائت کرتا.؟
یقیناًایسا کرنا ان کے لیئے آسان نہ ہوتا. اورہم آج ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو کر خوشحالی اور عزت وسکون کے ساتھ زندگی گزارتے.اور باقی دنیا کے ساتھ خودمختاری کے ساتھ معاملات طے کرتے۔بلوچ اپنے قومی غلامی کے دنوں میں مشترک مفادات و نقصانات رکھنے کے باوجود اپنی منفی انا کی وجہ سے آج تک اپنی قومی قوت کو یکجا نہ کرسکا۔اور ایک چھوٹے سے دائرے میں گھوم رہا ہے۔آج اگر ہم غیر جانبدار ہو کر بلو چ قومی جنگ آزادی میں شامل مختلف کرداروں اور مجموعی طور پر ہر ایک اپنے ذہنی سوچ کا ایک چھوٹا سا جائزہ لے۔تو بہت کچھ ہمیں نظرآئے گا۔ اور کیا ہم آج بھی اسی ڈگر پر نہیں چل رہے.؟
مثبت انا یا ایگو کا استعمال،،انا کا مثبت استعمال اور اپنے قول پر قائم رہنے کی دو شانداراور بھی مثالیں ہیں. جب برطانوی سامراج بلوچ ریاست قلات پر حملہ آورہوا.تو خان میر محراب اپنی انا کا مثبت استعمال کرکے وطن کی دفاع قوم کی ننگ و ناموس کو دشمن سے بچانے کیلئے یہ تاریخی قول کیا۔جب خان نے جنگ کی باقاعدہ شروعات سے کچھ ہی لمحہ پہلے کہا تھا۔ کہ ہر جنگ جیتنے کیلئے نہیں ہوتا کچھ جنگیں قوم کی ننگ و ناموس کو بچانے کیلئے ہوتے ہیں اور تاریخ میں اپنی قوم کے سامنے سرخروح ہونے کیلئے دشمن سے لڑنا ضروری ہے. .اوراسی دوران جب ایک شخص نے ان کے سامنے یہ کہا تھا کہ دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے.ان کے پاس جدید ہتھیار وں کی فراوانی ہے.افرادی قوت کی بھی ان کے پاس کمی نہیں ہے.جب کہ ہمارے پاس کم تعداد کے پرانے ہتھیار ہیں.افرادی قوت بھی کم ہے.بہتر یہی ہے کہ ہم دشمن سے نہ لڑیں.اور سمجھوتہ کریں. لیکن خان بلوچ قومی اقدار کو قائم رکھنے کے ساتھ اپنی قومی قوت کو دشمن کو زیر کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔اور بالآخر اس جنگ میں میر محراب خان وطن و قوم کی دفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہو کر تاریخ کے باب میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے.
دوسری تازہ مثال شہید سردار اکبر خان بگٹی کی ہے.ان کا انا ضد قول اور اپنی بات پر قائم رہنا مشہور تھا.ڈیرھ بگٹی میں جب گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی ان دنوں مکار پنجابی دشمن نے اپنی شکست کو یقینی دیکھ کر مزاکرات کا واویلہ شروع کیا.تو شہید اکبر بگٹی کو عالمی میڈیا کے ذریعے بلوچ قوم کو باور کرانے اور فوجی مقاصد کو وطن کے دفاع کو مضبوط بنانے کی خاطر مجبورا مزاکرات کا حصہ بننا پڑا اسی مزاکراتی دورانیہ کے دنوں میں پارلیمنٹ کے باجگزار BNP کے پیٹ پرست، سرپرست کی جانب سے شدید منفی پروپیگنڈا کیا گیا.اور شہید اکبر خان کے بارے میں نازیبا جملے اور من گھڑت کہانیاں گڑ کر قوم میں دانستہ طور پر بدنیتی سے بد گمانیاں پیدا کی گئیں. اور ان کی کردار کشی کی انتہائی کوشش کی گئی.شہید کی بلند کردار انا کی مثبت استعمال کو دشمن کے خلاف بلوچ قوم کے ساتھ پوری دنیا نے اعتراف کرلیا.اور المیہ یہ بھی کہ سردار براھمداغ بگٹی نے BNF سے اسی لیئے کنارہ کشی اختیار کی کہ ان دنوں میں حقیقی آزادی پسندوں کی جانب سے سردار مینگل اور BNP کی قوم دشمنی کو قوم کے سامنے ظاہر کر دیا گیا تھا.موجودہ بلوچ سیاسی بحران میں ہمیں مختلف لوگوں اور حلقوں کی طرف سے ایگو یا انا کا منفی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے..
بلوچ معاشرے میں قبائلی جنگوں کے شروع ہونے اور تصفیہ نہ ہونے کا ایک بنیادی وجہ ایگو یا انا کا منفی استعمال ہے.ڈاکٹر اللہ نظر،خلیل، سردار براہمداغ بگٹی،سردار جاوید مینگل،پارلیمنٹ پرست سردار اختر مینگل کی جانب سے مستقبل کے آزاد بلوچستان کی عبوری آئین بلوچستان لبریشن چارٹر کو ماننے سے انکار کیا یہ ان کا اپنی انا کو منفی طریقے سے استعمال کرنے کی بد ترین ایک مثال نہیں.؟قومی سیاست کو چھوڑ کر گروہی سیاست اور شناخت کو برقرار رکھنے پر بضد ہونا کیا یہ منفی انا کی افسوز ناک مثال نہیں.؟
قومی تنظیم سے فرار مجرموں کو فوجی سیاسی،قبائلی،اور اخلاقی کمک کا جواز فراہم کرنا.یہ سب اس لئے نہیں کہ اس سے قومی نجات کا سفر ممکن اور آسان ہو.بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی بغض و عناد اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لیئے سنجیدہ ذمہ دار قومی تنظیم BLA کو کمزور کرنے کیلئے ہے سب کچھ کر رہے ہیں.
آج قوم غیر جانبداری سے ان تمام معاملات کو جانچے اور ان کرداروں کا احتساب کرے.کیونکہ ان معاملات سے ہماری قوم اور سر زمین کا مستقبل وابستہ ہے.
منفی اناکو آپ ڈاکٹر نظر کی شاعری میں بغور دیکھ سکتے ہیں.
زانت آمنی آکیل مکن
اس میں ہر کوئی بغور دیکھ سکتا ہے.کہ یہ شخص کس ذہنیت وسوچ کا مالک ہے.اور کتنے گھمنڈ کا شکار ہے۔حالانکہ ایسے مقام اور عہدے پر وقت کا تقاضہ ہے۔کہ وہ قومی معاملات میں حاجزی کا مظاہرہ کرتے۔وہ اپنی شاعری میں مزید ے لکھتے ہیں۔ کہ کس مگندات منی کینگاں مستیں لیڑواں سار کنا، مادنیں راہ آ برآں.گوشدار اوناسرپد،
ان کی شاعری سے بغض،گھمنڈ، انتقام،دھمکی،غرور،اپنے بھائیوں سے انتقام اور اپنی غلطی پر ڈٹ جانااور دوسرے کی موقف کو نہ سننا صاف جھلک رہاہے.جو کہ تمام تر منفی انا،ایگو کے سوچ کی عکاسی کرتے ہیں.
انا یا ایگو کا مثبت استعمال ہم بلوچ راج دوست سنگت حیر بیار مری بلوچ کے عملی جہد سے دیکھ سکتے ہیں.جس کی کچھ مثالیں ماضی قریب میں جب سنگت حیربیار مری بلوچ نےBNPاور سردار عطااللہ مینگل کے سیاہ کارناموں کو میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کیا.تو سردار صاحب سیخ پا ہو کر سیاست کے ٹریک سے نیچے اتر کر بد اخلاقی کی آخری حدوں کو پار کر گئے.جب کہ سنگت حیر بیار نے ان کے صرف سیاسی الزامات کا سیاسی انداز میں جواب دیا.اور اپنے ذات سے متعلق کسی بھی غیر اخلاقی الزام کا ذکر تک نہیں کیا.اور صبر کرکے انقلابی خاموشی اختیار کر لی.جس کے ہم سب اور میڈیا گواہ ہے.
اور ابھی حال ہی میں نادان دوستوں کی جانب سے اپنی منفی انا کو تسکین دینے کیلئے کیا سے کیا نہیں کہا گیا.جب کہ سنگت نے اپنی ایگو یا انا کا مثبت استعمال کر کے برد باری سے اسے کیسے استعمال کیا۔جو کہ ہر آزادی پسند بلوچ نوجوان کیلئے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ وہ بھی سب کے سامنے ہے.اور یہ سب بلوچ تاریخ کا حصہ ہونگے.آج ہم بلوچ جہد آزادی کے میدان میں ایگو کا منفی استعمال واضع انداز میں دیکھ سکتے ہیں.ان منفی انا پرستوں کو سائیکاٹری کی زبان میں ذہنی مریض کا نام دیا جاتا ہے.اآج اگران نادان دوستوں کے پاس اپنی دفاع کرنے کیلئے کچھ ہوتا تو وہ اس کا سنجیدہ طریقے سے جواب دیتے نہ کہ گالی گلوچ یا راہ اے فرار اختیار کرکے .اور نہ الزام تراشی کرتے .چھوٹے مفادات،گروبندیاں،نادانیاں،منفی سیاسی عزائم سازشیں،یہ سب دشمن ہی کے کام آرہے ہیں.آج ہم میں سے بھی کچھ لوگ ان منفی ایگواسٹ کو فالو کر رہے ہیں.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے بھی اپنے لئے ایک محدود دنیا منتخب کیا ہے.اگرہم مسلسل اس رخ پر چلتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سیاسی،سماجی رویوں میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے.منفی انا پرست شخص تنقید کو اپنے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے.اور مثبت انا پرست انقلابی شخص تنقید کا کھلے دل اور ٹھنڈے دماغ سے اس کے بارے میں سوچتا ہے.اپنے اور دوسرے کا احتساب غیر جانبداری سے اور ساتھ میں اپنے اور دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے.15 ویں صدی سے لے کر 2100صدی تک بلوچ کے مزاج میں انا کا استعمال آج قوم کے سامنے ہے.منفی انا کو چھوڑ کر مثبت انا ایگو کی رخ پر تبدیل ھونا ہی انقلاابی تبدیلی کہلاتا ہے.وقت کی جدت اورعالمی سیاسی حالات کی تیزی سے تبدیلی کو مدنظر رکھ کر ہر فرد خود اپنی ذات کا غیر جانبداری اور انصاف کے ساتھ مجموعی سیاسی کرداروں کے سیاسی رویوں کا احتساب انصاف کے ترازو میں جانچے اور پھر فیصلہ اپنی ضمیر کا دے۔
آج بلوچ کی جدو جہد برائے قومی نجات کی جنگ فیصلہ کن موڑ پر اس لئے بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔کیونکہ اس راہ میں پیش آنے والے بیشتر مسائل خارجی سے زیادہ داخلی نوعیت کی ہیں۔اور ان میں زیادہ تر مسائل ہمارے اپنے معدود مزاج کی وجہ سے ہیں۔ اگر کوئی بلوچ قوم دوست اس کربناک حالات سے نکلنے اور آزاد فضامیں سانس لینے کا متمنی ہے تو برائے کرم ہم اپنی مجموعی قومی مزاج کا ایک غیر جانبدارانہ،حقیقت پسندانہ احتسابی جائزہ لیں۔تو کوئی مشکل نہ ہوگا۔ کہ اس مایوسی کی سیاہ وادی سے نکل کر ہم اپنے قومی منزل آزادی کی منزل کو ضرور پہنچیں گے۔وگرنہ ماضی بعید سے لے کر آج تک ہماری اس منفی انا کی مزاج کی وجہ سے نیشنل ازم کی بنیاد ’’قومی عصبیت‘‘ کو کافی حد تک نقصانات سے دوچار ہوا ہے ۔آج وقت کا شدت سے ہم سے یہ تقاضہ ہے۔کہ ہم اپنی انا کے منفی استعمال کو چھوڑ کر مثبت انداز میں اس کا استعمال کرکے قوم کو ایک جدید منظم اور بہترین سیاسی ادارہ دیں۔تاکہ اپنی قوم کے تاریک حال کو روشن مستقبل میں تبدیل کر کےآ زاد بلوچستان کیلئے عملی شکل میں اپنا کردار اداکریں.ورنہ پنجابی کی اس بار کی چین کے ساتھ مل کر بلوچ کو اس کی اپنی سر زمین سے بیدخل کرنے کیلئے خطرناک حربے استعمال کر رہا ہے۔اب کی بار پنجابی کے بلوچ قوم کے بارے میں خطرناک ارادے اور اقدامات اس طرح کے ہیں کہ بلوچ کو اس کی اپنی جدی پشتی سرزمین سے بیدخل کرکے غلامی کی دلدل میں پھنسا کر ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز