منگل, مئی 21, 2024
ہومآرٹیکلزگوانک :تحریر:کوہ زاد بلوچ

گوانک :تحریر:کوہ زاد بلوچ

دن کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں بدلنے کے قریب تھا۔ سورج کی روشنی جیسے قدرت کا عذاب ہو اور رات کی تاریکی جیسے ایک انمول انعام۔ ایسے احساسات کے ساتھ پہاڑی چوٹی پر درختوں کے بیچ اگے جھاڑیوں سے نکلتے ہوئے جمشیر نامی نوجوان نے پہاڑی سے نیچے کی طرف سرکتے ہوئے کھائی(گر) کی طرف منہ کرکے ایک مخصوص آواز نکالی۔ کچھ دیر بعد یہی آواز کھائی میں سے گونجا۔ جمشیر نے مڑ کر اس جگہ کی طرف جہاں سے وہ نکلا تھا انتہائی عقیدت سے محبت بھری نظروں سے دیکھ کرایسے مسکرایا جیسے کوئی معصوم بچہ کسی کھلے میدان میں ایک تیز آندھی و بارش کے رک جانے کے بعد اپنی ماں کی آغوش سے جدا ہوکر اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے۔
پھر مڑ کر جمشیر تیزی سے کھائی میں نیچے کی طرف اترنے لگا۔ جب تک وہ کھائی کے بیچوں بیچ پہنچا اس وقت تک مکمل اندھیرے کا راج قائم ہوچکا تھا۔ جمشیر نے آواز دی "بندعلی او بندعلی"
"ہاں میں یہاں ہوں۔" بڑے سے پتھر کی اوٹ سے بندعلی نے آواز دی۔ جب یہ دونوں نوجوان ایک دوسرے کے قریب پہنچے تو اسطرح سے بغل گیر ہوئے جیسا کہ سالوں بعد ملے ہوں۔
جمشیر۔۔۔ روشان کی طبیعت تو ٹھیک ہے زخم زیادہ گہرے تو نہیں
بندعلی ۔۔فکر کرنے کی ضرورت نہیں زخم جان لیوا نہیں ہیں۔ مگر بری بات یہ ہے کہ ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے گرنے سے جو زخم آئے ہیں وہ معمولی ہیں ۔
جمشیر۔۔۔کیا خون بہنا بند ہوچکا ہے۔
بندعلی ۔۔۔ہاں میں نے جیسا تیسا کرکے پٹی باندھ دی ہے۔ ٹانکے لگانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی تو نہیں ۔ابتدائی طبعی امداد کا بکس تو حیدر و الوں کے پاس تھا۔ جو پہاڑی کی دوسری طرف نکل گئے ۔
بندعلی نے کھائی میں تیزی سے اترتے ہوئے جواب دیا۔جمشیر اسکے پیچھے اترتے ہوئے رفتار تیز کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر اندھیرے کی وجہ سے اس کے لئے تیز چلنامشکل ہورہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتا اور بار بار بندعلی کو رک کر اسکو ساتھ لینا پڑتا۔
جمشیر۔۔۔ دوست دور ہیں کیا؟؟
بندعلی۔۔بس اس موڑ کے ساتھ جو غار ہے اسی میں ہیں۔
چند قدم چلنے کے بعد موڑ کاٹتے ہی وہ ایک ایسے غار کے دہانے پر پہنچے جیسے برساتی پانی نے موڑ کے چوٹ پر نرم مٹی بہہ کر بنایا ہے اندر داخل ہوتے ہی جمشیر نے باآواز بلند کہا
’’ سلامت باتے سنگتاں ‘‘ ایک لیٹے ہوئے اور دو بیٹھے ہوئے نوجوانوں نے یک آواز ہوکر جواب دیا
’’ وش باتے سنگت‘‘
بیٹھے ہوئے نوجوان تیزی سے اٹھے جن کو بیٹھنے کا کہکر جمشیر تیزی سے لیٹے ہوئے نوجوان کے سرہانے بیٹھ کر اسکے پیشانی پر ہاتھ رکھکر پوچھا "کیسے ہو طبعیت کیسی ہے درد تکلیف زیادہ تو نہیں"
لیٹے ہوئے جوان جسکا نام روشان ہے جو آج الصبح شروع ہونے والے فوجی فضائی آپریشن میں ہیلی کاپٹر کے شلنگ سے داہاں ہاتھ میں گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا۔ اور جس کوکچھ چھوٹے چھوٹے زخم گرنے کی وجہ سے کان کاندھے اور پاوں پر آئے تھے
روشان،"بالکل ٹھیک ہوں۔ طبیعت بھی بہتر ہے تم سناؤ باقی سنگت خیریت سے گھیرا توڑ کر نکل گئے۔
جمشیر ۔۔حیدر گروپ تو گھیراؤسے پہلے ہی دور نکل چکا تھا۔ وائرلیس سیٹ پر میں سن رہا تھا ، وشو اور آپوڑسی شاہد گھیراؤ میں آچکے تھے۔ گھیرا وسیع ہونے کی وجہ سے دشمن اندھیرا ہونے تک ان سے بہت دور تھا۔
روشان ۔۔پھر وہ وہاں سے کیوں نہیں نکلے ۔
جمشیر۔۔۔ہیلی کاپٹروں کی زیادہ تعداد اور مسلسل فضائی نگرانی اور شیلنگ کی وجہ سے نکلنا مشکل تھا شاہد اسی وجہ سے ۔مجھے یقین ہے اندھیرا ہوتے ہی وہ آسانی سے نکل جائیں گے۔
اس کے بعد بیٹھے ہوئے دونوں نوجوانوں نے جمشیر سے حال احوال کیا۔ اور جمشیر نے ان سے سرسری احوال لی جن میں سے ایک کا نام کفیل اور دوسرے کا ٹالی تھا۔
جمشیر۔۔۔ہیلی کاپٹر جب شیلنگ کررہے تھے تب ہی میں تیزی سے پہاڑی کے چوٹی پر پہنچا ۔اور دوربین نکال کر سب سے پہلے پہاڑی کے اس طرف کا جائزہ لیا۔ مجھے اس طرف دشمن کی کوئی حرکت نظر نہیں آئی۔ جب میں نے تم لوگوں کی طرف کا جائزہ لیا۔ تو عین اسی وقت تمہارے چاروں اطراف سے بہت ہی نیچی پرواز کرتے ہوئے 4 عدد Mi۔17 ہیلی کاپٹر دشمن فوج کو اتار کر واپس ہوئیں۔ اور دشمن نے تمہارے اطراف گھیراؤ شروع کی۔ اور پہاڑی کے نیچے نالے سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کیا وہاں تم لوگ تھے
ٹالی۔۔۔ہاں ہم تھے سنگت۔ جب دشمن اپنا گھیرا مضبوط کررہا تھا تب ہم انکے گھیراؤ سے کوئی 300 میٹر دور انکے اور پہاڑی کے بیچ میدان میں تھے۔ ہم جلد از جلد پہاڑی پر پہنچنے کیلئے تیزی سے پہاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ہم پر گولیوں کی برسات شروع ہوئی۔ دشمن نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ ہم نے تیزی سے پلٹ کر جوابی فائرنگ کی۔ کیونکہ خوش قسمتی سے دشمن کے حملے سے ہم محفوظ رہے تھے۔ دشمن کی بندوقیں خاموش ہوئیں۔ اسی وقت ہمیں موقع ملا اور ہم نے برساتی نالے کا سہارا لیا۔ اور نالے میں دشمن کی نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد ہم تیزی سے اوپر پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ کفیل تقریبا پہاڑی کو پہنچ چکا تھا۔ اور ہم کچھ ہی دور تھے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے ہم کو آلیا۔ ہم جھاڑیوں میں چھپ گئے۔ تعداد کم ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں دیکھ نہیں سکے۔ مگر وہ نالے میں اندھادھند فائرنگ کررہے تھے۔ اس دوران جب بھی موقع ملتا ہم حرکت کرتے ہوئے پہاڑی تک پہنچنے کی کوشیش کرتے۔ اسی دوران نالے میں پڑے ایک بڑے سے پتھر جس نے راستہ رک رکھا تھا کو عبور کرتے ہوئے روشان کو ہاتھ میں گولی لگی۔ اور وہ پتھر سے نیچے زمین پر گر گئے۔ جس کی وجہ سے گولی والے زخم کے علاوہ گرنے کی وجہ سے بھی اسے کچھ زخم آئے۔
روشان کو سنبھالتے ہوئے ہم نے موقع ملتے ہی اسکے زخموں سے بہتے خون کو روکنے کے لیے اپنے کندھے کے چادروں سے پٹی باندھی۔ اور کور پوزیشن میں پہاڑی عبور کر کے اس کھائی میں اُترے ۔
جمشیر۔۔۔ہاں میں نے تم لوگوں کو پہاڑی عبور کرتے وقت دیکھ لیا تھا۔
کفیل۔۔۔جمشیر جہاں تم بیٹھے تھے وہاں سے ہمارے گدان نظر آرہے تھے ۔کیا ہمارے گدانوں پر شلنگ ہوا یا اس طرف دشمن کی کوئی نقل وحرکت ہوا۔
جمشیر۔۔۔جہاں میں تھا وہاں سے گدان تو نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن وہ علاقہ دکھائی دے رہا تھا۔ دوپہر کے بعد وہاں سے بہت زیادہ دھواں اٹھ رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ دشمن نے تمام گدانوں کو آگ لگا کر خاکستر کردیا۔
کچھ دیر کیلئے چھائی خاموشی میں کفیل کے چہرے کے تاثرات مسلسل بدلتے رہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے خشک لکڑیوں میں سلگتی آگ جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا ایسے گھور رہا تھا جیسے وہ آگ نہیں دشمن فوج کا سپاہی ہو۔
کفیل۔۔کیا آپ لوگوں کو ایسا نہیں لگتا کہ ہم ایک ایسی قوم کے لئے قربانی دے رہے ہیں جنکو ہماری فکر ہی نہیں؟ کیا اپنے گھروں میں آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کو ہماری مشکلات و تکالیف کا احساس ہے؟ہم یہاں دن رات پہاڑوں میں جن کیلئے موت کا سامنا کررہے ہیں کیا انکو ذرا برابر احساس ہے بھی یا نہیں کہ یہ وطن انکا بھی ہے؟ اور جو دشمن ہم پر جھپٹ رہا ہے اس کو وہ اپنا بھی دشمن سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ؟
بندعلی۔۔۔۔سنگت یہ ہمارا فرض ہے احساس نہ کرنے والوں سے کیا گلہ۔
کفیل۔۔صرف ہمارا فرض ہے باقی سب آرام کریں۔ یہ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتے۔ حتی کہ ہمارے شہیدوں کے لاش جو دشمن کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں۔ انکو بھی بے یار و مددگار ہسپتال کے مردہ خانوں میں خیراتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کیاصرف ہم انکے وارث ہیں وہ ہمارے وارث نہیں؟
بند علی۔۔جدوجہد آزدی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے میرے بھائی۔ اسی کو تو قربانی کہتے ہیں۔
کفیل۔۔۔چھوڑو سنگت مرے بھی ہم، قاتل بھی ہم، چور ڈاکو و دہشت گرد بھی ہم، گالیاں بھی ہم کو یہ کیا مذاق ہے۔
کفیل کے اس غیر متوقع اظہار سے غار میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھا گئی۔ کفیل کی باتوں کو غور سے سننے والا جمشیر کچھ کہنے کو بیتاب تھا۔
جب کفیل کچھ دیر کے لئے زیادہ غصے کی وجہ سے خاموش ہوا، تب ہی جمشیر کو کہنے کا موقع ملا۔
جمشیر۔۔۔کیا تم خود پرستی کا اظہار نہیں کررہے ہو کفیل؟؟
کفیل۔۔۔وہ کیسے؟ کیا میں خود پرست ہوں یہ بندوق یہ جنگ یہ مشکل حالات یہ تکالیف سنگت جمشیر آپ کو خود پرستی لگتے ہیں؟
جمشیر۔۔بالکل سنگت آج ہم کو درپیش مشکل حالات کی وجہ سے پہنچنے والے تکلیف نے تم کو قوم کی آرام سے زندگی بسر کرنے اور بیگانگی کا احساس دلایا۔ جو درد اور تکلیف تم نے اپنی جان و خاندان کیلئے محسوس کی اس احساس نے تم کو تمہارے محنت و کردار کا قوم کی بیگانگی اور آرام سے زندگی بسر کرنے سے موازنہ کرنے پر اکسایا۔ کیا یہ خود پرستی کے زمرے میں نہیں آتا کہ تم اپنے فکر و کردار کو لیکر تم کو درپیش مشکل حالات کا موازنہ زرا برابر بہتر حالات سے کررہے ہو؟ عین اسی مقام پر تم آگاہی و غفلت دو متضاد حالات سے نظریں چرا رہے ہو۔ کیونکہ غفلت کے سبب بیگانگی اور آگاہی سے انانیت جہنم لیتا ہے۔ اس فطری حقیقت کو اگر ہم نظر انداز کربھی لیں تب بھی کیا کسی کے غلطی کو جواز بناکر غلط کرنے کی گنجائش پیدا کیا جاسکتا ہے؟ اور اس منطق کے بل بوتے پر کسی بھی غلط عمل کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے؟ سنگت تم کیوں ان ہم فکر ساتھیوں کے تکلیف کا احساس نہیں کرتے جو سالوں سے دشمن کے قیدخانوں میں سڑ رہے ہیں۔ جو پیشاب کرنے کے لیے بھی ماں بہن کی گالیاں سنتے ہیں۔ جو ایسے کمروں میں سالوں سے بند ہیں جن میں وہ صحیح طریقے سے سو بھی نہیں سکتے۔ سالوں سے جن کو سورج کی روشنی بھی نصیب نہیں ہوا۔ وہ تشدد و بربریت جس سے ان کو دشمن نے گذارا وہ الگ سے ہیں۔ کیوں تم اپنے حالات و تکالیف کا موازنہ ان سے نہیں کرتے۔ ان سے موازنہ کرکے دیکھو سنگت پھر بتاؤ کہ ہمیں درپیش حالات کا احسان ہم کسی پر جتا سکتے ہیں۔ اس ماں کی تکلیف و درد کا احساس کیوں نہیں کرتے جس کے تین تین لخت جگر دشمن کی بربریت کی وجہ سے اس سے جدا ہوئے۔ اس بہن کی تکلیف کا احساس کیوں نہیں کرتے جس کے پیارے بھائی کو سالوں غائب کرنے کے بعد بیدردی سے قتل کرکے اس کے لاش کو مسخ کرکے سڑک کے کنارے پھینکاگیا۔ ان یتیم بچوں کے درد کا موازنہ کیوں نہیں کرتے جو دوسرے بچوں کو باپ کے زیر سایہ دیکھ کر اپنے باپ کی کمی کی درد کو روزانہ سہتے ہیں۔ان لاکھوں خاندانوں کے درد کو کیوں محسوس نہیں کرتے جنکے سربراہ اس فکر کے تحت جدوجہد میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ مجھے ایک بات بتاؤ کیا کسی بھی ایسے حالت میں جہاں لاکھوں لوگوں کو ایک پر لطف نشے (فریب) میں مبتلا کیا جائے۔ اور وہ ایسا مدہوش ہوجائیں کہ ان کو اپنے نفع و نقصان کا فکر ہی نہ ہو۔ اور عین اس حالت میں ان کے آس پاس ایک بڑی آگ جلائی جائے جس میں ان کے جل جانے کا خطرہ ہو۔ اب ان لاکھوں مدہوش لوگوں کے بیچ صرف گنتی کے چند ایسے لوگ موجود ہوں جو مکمل اپنے ہوش و حواس میں ہوں۔ اور اس خطرے کو بھی بھانپ لیں۔ تو تمہارے خیال کے مطابق ان کو کس طرح کے چیلنج کا سامنا ہوگا؟
بند علی۔۔۔مسکراتے ہوئے یہ بھی تم بتاؤ۔
جمشیر۔۔میرے خیال سے ان لاکھوں لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے آگ پر قابو پانے کے ساتھ ہی ساتھ ان لاکھوں لوگوں کوجھنجوڑ کر ہوش میں لانا ہوگا۔ جو مدہوشی میں تمام خطرات سے بے نیاز جھول رہے ہونگے۔ اب یہ سوچو کہ آگ پر قابو پانے کی جدوجہد کے دوران کسی بھی ہوش مند شخص کا ہاتھ جل جائے، یا پھر مدہوش افراد میں سے کسی ایک کا ان کو دھتکارنے یا ان سے گالی گلوچ کرنے یا ان سے لڑنے جھگڑے کی صورت میں وہ ا س جدوجہد سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔ میری رائے کے مطابق ہرگز نہیں۔ اگر ایسا کوئی کرے گا تو اس کا یہ عمل علم و عقل کی کسوٹی پر غلط عمل ہی ہوگا۔ اس کیلئے وہ جو بھی جواز گھڑے وہ قابل قبول ہرگز نہیں ہوگا۔ ہم اپنے سماج کو بالکل اسی مثال کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے کچھ لوگ ریاستی طاقت کے نشے میں بد مست ہیں۔ کچھ ریاستی مفادات مراعات کے نشے میں مدہوش۔ اور اکثروبیشتر ریاستی بربریت سے پیدا ہونے والے خوف میں مبتلا ہیں۔ اور اکثریت بے علمی وغفلت کی وجہ سے بیگانگی کے نشے میں مدہوش ہیں۔ اور چند قدم آگے ہمارے نزدیک آکر دیکھیں تو کچھ اپنے اپنے چھوٹے مفادات کے نشے میں دھت ہیں۔ تو کچھ لیڈری اور گروپ بازی کے نشے میں مدہوش۔ کچھ کمانڈری و نام کے نشے میں۔ اور کچھ قوم کے بچوں کے مستقبل سے بے نیاز صرف اپنے بچوں کے مستقبل کے فکر میں مدہوش ۔اور کچھ تنظیمی اصولوں سے ماورا اپنے سوچ کے تحت اپنے لئے کام و مقام کے نشے میں مدہوش۔ کچھ اپنے پختہ بری عادت کے غلام ہیں۔ تو ان سب کو جھنجوڑنا اور آگ پر قابو پانا ہوش مندوں کا کام ہے۔ اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم کسی بھی سطح پر کسی غیر ضروری نشے میں مبتلا تو نہیں۔
بندعلی۔۔۔سنگتاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمارا کام اپنے زخمی ساتھی کو دشمن سے دور محفوظ علاقے میں پہنچانا ہے۔کیا خیال ہے کوچ مناسب ہوگا۔
جمشیر۔۔بالکل چلیں۔
سب اٹھ کر اپنے اپنے پانی کی بوتلیں اور سامان اٹھاتے ہوئے روانہ ہوئے۔ سب سے آخر میں چلنے والا بند علی تھا۔ جس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے باآواز بلند کہا۔۔
کیا بُری عادت پائی ہم نے
نہ ملال و نہ جلال پے قابو ہم کو
اے کاش ہم آئینہ ہوتے
جو سامنے ہوتا اُسی کا
عکس دکھائی دیتا ہم میں
یہ بھی پڑھیں

فیچرز