جمعه, می 17, 2024
Homeخبریںبلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کا ماہانہ رپورٹ جاری

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کا ماہانہ رپورٹ جاری

کوئٹہ(ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان میں ہونے والی کاروائیوں کی ماہانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے مہینے کی کاروائیوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 28افراد قتل کردئیے گئے۔ ان میں دس مسخ شدہ لاشیں بھی شامل ہیں۔ قتل ہونے والوں میں فورسز کی حراست میں قتل ہونے والے نوجوان بھی شامل ہیں، جنہیں فورسز نے اسی مہینے مختلف علاقوں سے اغواء کے بعد قتل کردیا تھا۔ اسی مہینے اغواء کے بعد قتل ہونے والوں میں آواران کے رہائشی واحد اور دشت کے رہائشی نزیر بھی شامل ہیں۔ مارچ کے مہینے میں دو افراد کی ناقابلِ شناخت لاشیں بھی برآمد ہوگئیں جبکہ 6افراد نامعلوم وجوہات کی بنا پر قتل کردئیے گئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ مہینے کی مختلف کاروائیوں کے دوران خواتین و بچوں سمیت 240افراد فورسز نے لاپتہ کردئیے۔ مشکے سے فورسز نے6مارچ کو 16 خواتین و بچے اغواء کیے تھے، جنہیں8دنوں تک تحویل میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسی مہینے اغواء ہونے والوں میں سے 35افراد کو فورسز نے بعد میں رہا کردیا، رہا ہونے والوں میں بیشتر کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلوچستان میں لوگوں کا اغواء، فورسز کے چھاپے اور ڈر و خوف لوگوں کی روز مرہ زندگی کا خوفناک حصہ بن چکے ہیں۔ آئے روز کی چھاپوں اور چادر و چاردیواری کی پامالی سے عام لوگ غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ مارچ کے مہینے کی کاروائیوں کی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے ضلع آواران، ضلع کیچ اور ضلع پنجگور کے علاقے سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں۔ ضلع کیچ کے علاقے تجابان سے ایک اسکول ٹیچر ماسٹر حسرت کو فورسز نے گھر سے گرفتار کرلیا، اگلے روز علاقے کے ویرانے سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔گزشتہ سال کراچی ائرپورٹ سے مزدوری کے لئے دبئی جاتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے کولواہ کے رہائشی نصیراحمد کو فورسز نے تربت سے 6مہینوں بعد رہا کردیا، رہائی کے اگلے روزنصیرکو تربت سے ہی فورسز نے پھر لاپتہ کردیا۔ دشت کے کئی علاقوں میں دورانِ مردم شماری فورسز نے تشدد کا نشانہ بنا کر متعدد لوگوں کو اغواء کرلیا، اسی دوران اغواء ہونے والے نزیر احمد کی لاش بعد میں فورسز نے پھینک دی۔ مردم شماری کا حصہ بننے کے لئے فورسز نے اسکولوں کے عملے کو بھی یرغمال بنایا، آواران اور دشت کے کئی اسکول ٹیچرز فورسز کی زبردستی کا شکار ہوگئے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے ان کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی انسرجنسی کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسیاں انسانی حقوق کی صورت حال کو انتہائی سنگین بنا چکے ہیں۔ طاقت کے بے تحاشا استعمال نے لوگوں کی معاشی و معاشرتی زندگی کو بگاڑ دیا ہے۔ اندرون بلوچستان فورسز لوگوں کی معاشی بدحالی کے باوجود انہیں زبردستی نکل مکانی پر مجبور کررہی ہے جس سے لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ مارچ کے مہینے میں فورسز نے آواران کے علاقے حسن گوٹھ کی آبادی کو زبردستی نکل مکانی کرنے کی دھمکی دی۔ ان لوگوں کے لئے متبادل رہائش کا بندوبست کیے بغیر گھروں کو خالی کرنے کی دھمکی دینا عام لوگوں کے حقوق کی بنیادی خلاف ورزی ہے۔بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں عام لوگوں پر اگر ریاستی طاقت کو اسی طرح استعمال کیا گیا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف انسانی حقوق کی صورت حال مزید خراب ہوجائے گی بلکہ لوگوں کے پہلے سے محدود روزگار کے ذرائع مکمل طور پر بند ہوجائیں گے۔ انہوں نے ریاستی مقتدرہ سے اپیل کی کہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال کی پالیسی فوری روک کر لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز