بدھ, مئی 22, 2024
ہومخبریںبی ایس آزاد کے زیر اہتمام ریجنل تربیتی ورکشاپ منعقد

بی ایس آزاد کے زیر اہتمام ریجنل تربیتی ورکشاپ منعقد

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے زیر اہتمام ریجنل تربیتی ورکشاپ آواران،کولواہ،گورکوپ،بالگتر )مرکزی جونیئر وائس چیئرمین ڈاکٹر سلیمان بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔جس کے مہمان خاص مرکزی کمیٹی ممبر نودان بلوچ جبکہ اعزازی مہمان مرکزی کمیٹی کے رکن چراغ بلوچ تھے،ورکشاپ دو الگ الگ موضوعات ’’CPEC اور سوشل میڈیا ‘‘ پر مشتمل تھی ۔اجلا س کا باقائدہ آغاز عظیم بلوچ شہدا کی یاد میں خاموشی سے کی گئی جس کے بعد ورکشاپ سے مرکزی وائس چیئر مین ڈاکٹر سلیمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سرزمین میں ہونے والے سرمایہ کاری کسی بھی نقطہ نگاہ سے بلوچ عوام کے لئے بہتری نہیں لا سکتی۔ اگر بلوچستان میں سیاست کرنے والی چند ایک پارٹیاں یا اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ سر دار اس منصوبے کو بلوچ عوام کے لئے بہتر سمجھ رہے ہیں تو ایسا وہ صرف اپنی تنخواہ میں اضافے کے لئے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ 1950کی دہائی میں ڈیرہ بگٹی سے دریافت ہونے والا قدرتی گیس پنجاب کے دیہی علاقوں تک پہنچ جاتا ہے مگر بلوچستان کے وہ علاقے بھی اس سے محروم ہیں جو اسے پیدا کررہے ہیں۔اسی طرح سیندک پروجیکٹ ہو،گڈانی پاور پلانٹ ہو، یا دیگر عالمی و پاکستانی منصوبے ہوں، ان سب کے اثرات بلوچستا ن میں قتل عام اور غربت کے پھیلاوے کی شکل میں پڑے ہیں،ا س لئے سا بقہ تجربات اور قابض و مقبوضہ کے آپسی رشتے کے تناظر میں اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ بلوچستان مزید اس طرح کی سرمایہ کاریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس منصوبے (سی پیک)میں ابھرتا ہوا عالمی سامراج چین برابر کے شریک ہے جو دنیا بھر میں سرمایہ داری کیلئے بلوچ سرزمین کو بطوربیس استعمال کرنے کا منصوبہ بناچکا ہے ۔ چین اپنے ملک میں ایغور نسل کے باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کررہا ہے ۔ شینگ یانگ جہاں سے اس منصوبے کا آغاز ہوگا وہاں پر چین اپنے قبضے کو دوام دینے کیلئے نسل کُش پالیسیوں پر گامزن ہے اور ایغور نسل کے لوگوں کو مستقل غلامی کی طرف دکھیل رہا ہے ۔ جو محکوم بلوچوں کی طرح اپنے حق کیلئے آواز اُٹھا رہے ہیں۔گوادر اور چابھار بندرگاہ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان بلوچ نے کہا کہ چابہار مغربی بلوچستان کا ساحلی شہر ہے جو 1928ء کے بعد ایرانی تسلط میں چلاگیا آج دنیا تجارتی نقطہ نگاہ سے ترقی کررہی ہے تو اس کی نظر بلوچستان پر بھی لگے ہوئے ہیں ۔ یہ بلوچستان ہی کی جغرافیائی اہمیت ہے کہ ایرانی حکومت بھی بلوچ خطے میں بندرگاہ بنارہی ہے ۔کیونکہ ایران چاہتا ہے کہ بلوچستان میں چابہار کو ترقی دیکر سرمایہ دارانہ دنیا کو اپنی طرف راغب کرے ۔ چابہار اپنے محل وقوع کے باعث گوادر کے قریب تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اور بلوچستان کی نسبت سرمایہ کاری کیلئے ایک پرامن خطہ ہے۔انہوں نے کہاکہ آج چین دنیا میں دوسری معاشی طاقت ہے اور دنیا پر معاشی حکمرانی کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔ چائناکا سلک روڈ دنیا پر معاشی حکمرانی کا ذریعہ ہے ۔ جس کے ذریعے چین اپنے مصنوعات آسانی سے پوری دنیا میں پھیلا سکتا ہے ۔ اور اسی سلک روٹ کے ذریعے زمینی و سمندری حوالے سے و ہ تمام ممالک سے منسلک ہورہاہے جو چین کے توانائی کے ضروریات کو پورا کررہے ہیں ۔ دوسری جانب بھارت ایران کے ساتھ روان سال کئی معاہدات پر دستخط کرچکا ہے جن میں چابہار بندرگاہ کی تعمیر بھی شامل ہے ۔ ایک دہائی سے تکمیل کی منتظر بحیر ہند کے ساحل پر واقع اس بندرگاہ سے بھارت کے لیے توانائی کا حصول ممکن ہوسکے گا جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔ چاہ بہار میں واقع اس بندرگاہ سے بھارت کو اپنے حریف پاکستان میں داخل ہوئے بغیر راستہ مل جائے گا اور وسطی ایشیا کے معاشی اور سفارتی میدان میں کردار ادا کرنے کے قابل ہوگا۔ دوسری طرف بھار ت چائنا کا راستہ روکنے کیلئے بحرہند میں اپنے پاؤں مضبوطی سے گاڑ رہا ہے تاکہ خطے میں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرسکے ۔انہوں نے کہا کہ خطے میں بدلتی ہوئی سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے کارکنان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اپنی مطالعہ کو وسیع کرتے ہوئے ان تبدیلیوں پر نظر رکھ کر بلوچ قومی شناخت کو لاحق خطرات سے بچائے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز