جمعه, می 3, 2024
Homeخبریںبی ایس او آزاد کی مرکزی کمیٹی کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا

بی ایس او آزاد کی مرکزی کمیٹی کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد کی مرکزی کمیٹی کا دوسرا اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ منعقد ہوا۔اجلاس میں تنظیمی کارکردگی، تنظیمی امور، تنقیدی نشست، علاقائی و عالمی سیاسی صورت حال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔پروگرام کی باقاعدہ شروعات عظیم بلوچ شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوئی۔اجلاس سے خطاب میں بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کی جانب سے سیاسی تنظیموں پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں کا مقصد بلوچ عوام کو قومی و سیاسی شعور سے دور رکھنا ہے۔ قابض ریاست بلوچستان میں اپنے غیر فطری وجود اور نام نہاد مسلم بھائی چارگی جیسے کمزور اور خود ساختہ نظریات کے تضادات کو عام لوگوں سے چھپانے کے لئے بلوچ جہد آزادی کے خلاف اپنے فوجیوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز میں مذہبی جذبات کو پروان چڑھا کر انہیں استعمال کررہی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی تعلیمات و تحقیق پر پابندی بلوچ انسر جنسی کو کاؤنٹر کرنے کی پاکستانی مرکزی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ بلوچستان پر قبضہ کے خلاف جاری تحریک کے اثرات کو زائل کرنے اور عوام و سیاسی پارٹیوں کو الگ کرنے کے لئے ریاستی مشینری کے تمام پرزے یکساں متحرک ہیں۔ آرمی کے باقاعدہ و جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح دستے بلوچستان کو مکمل ایک فوجی چھاؤنی میں بدل چکے ہیں۔ فوجی کمیپ و چوکیوں کو بلوچ عوام پر نفسیاتی دباؤ بڑھانے کے لئے آبادیوں کے اندر و اسکولوں میں تعمیر کیا جا چکا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہی چوکیاں بلوچ فرزندان کو اغواء کرنے و قتل کرنے میں بھی فوج کے ہمکار ہیں۔ قابض ریاست بلوچ وجود سے اپنی نفرت کے انتہا کو ظاہر کرنے کے لئے نہتے لوگوں کو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے صرف بلوچستان سے تعلق و بلوچ شناخت رکھنے کی وجہ سے قتل کررہے ہیں۔ ریاستی فورسز کی طاقت کے استعمال، مذہبی شدت پسندی کے پھیلاؤ، قبائلی سرداروں اور ریاستی فورسز کے سول دستے کے طور پر کام کرنے والی نام نہاد مڈل کلاس پارٹیوں کی کوششوں کا مقصد بلوچ عوام کو سیاسی شعور و قومی غلامی کے احساس سے دور رکھنا ہے تاکہ معاشی و عسکری حوالے اہم خطہ بلوچستان کو پاکستان اپنے مفادات کے لئے مزید استعمال کر سکے۔ بلوچ سیاسی کارکنان کی گمشدگی و ان کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی این پی جیسے نام نہاد مڈل کلاس پارٹیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی و دیگر نام نہاد پارلیمانی جماعتیں بلوچ سیاسی کارکنان کی اغواء و قتل میں براہ راست ملوث و فوج کے ہمکار ہیں۔ کیوں کہ انہی کارکنان کے جدوجہد کی بدولت بلوچ عوام ان نام نہاد پارٹیوں کی موقع پرستانہ سیاست سے واقف ہو چکے ہیں۔ ریاستی فوج بلوچستان میں حکومت کے لئے اپنے سول نمائندے منتخب کرتی ہے تاکہ دنیا کے سامنے بلوچ مسئلے کو دھندلا کر سکے۔ نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، نام نہاد سرداروں کے ساتھ ساتھ بی این پی مینگل بھی بلوچ مستقبل کا سودا لگا کر ریاستی منصوبوں میں ہمیشہ سے شریک رہا ہے، رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں حکمرانی ہمیشہ فوج کی رہی ہے اس بات کا اعتراف بلوچستان کی کم و بیش تمام کٹھ پتلی وزراء اعلیٰ کر چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود نام نہاد پارٹیوں کی پاکستانی پارلیمانی سیاست سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ پارٹیاں اپنے گروہی مفادات کی تحفظ میں قومی مستقبل کا سودا لگا رہے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر بلوچستان خطے کی دیگر ممالک کے لئے بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بحر ہند پر کنٹرول کی جنگ میں چائنا پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد بلوچستان میں تیزی کے ساتھ اکنامک کوریدور کے نام پر فوجی بیسسز، ائیر پورٹ و دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ چائنا سمندری راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے نے کے لئے اہم سمندری راستوں پر پورٹ تعمیر کرکے ان راستوں کی ناکہ بندی کررہی ہے۔ اپنے ان عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچستان کے اہم ساحلی شہر گوادر کا انتخاب کرکے چائنا تیزی سے اپنے مجوزہ منصوبوں پر عمل درآمد کررہی ہے۔ جس سے چائنا کے روایتی حریف ممالک کی پریشانی اگرچہ معنی رکھتی ہے لیکن سب سے زیادہ خطرہ بلوچ قومی شناخت اور وجود کو ہے۔ قبضہ گیر و محکوم کے درمیان ہمدردی کے رشتوں کے نہ ہونے کی روایات کے مطابق پاکستان بلوچ قومی شناخت و جغرافیے کو درپیش خطرات کو بالائے طاق رکھ کر چائنا و دیگر ممالک کی سرمایہ کاری کو آسان قیمتوں پر بلوچستان میں قبول کررہی ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ معاشی ترقی کے خوش کن نعروں کو اچھال کر چائنا اپنے فوجی مفادات و خطے کی ناکہ بندی کے لئے اپنی طاقت کو تیزی سے وسعت دے رہی ہے۔ چائنا اپنے معاشی ترقی کے حجم میں اضافے اور فوجی طاقت کی توسیع کے لئے افریقی ممالک، پاکستان، سری لنکا، بھوٹان اور برما سمیت دیگر خطوں میں اپنی مداخلت بڑھا رہی ہے، افریقی ممالک و برما میں سرمایہ کاریوں کے بعد عوامی خوشحالی کے برعکس سول وارز نے سر اُٹھائے ہیں، جہاں چائنا کی کمپنیاں اپنا اسلحہ فروخت کررہی ہیں۔ چائنا اپنے دیگر اشیاء کی فروخت کے ساتھ ساتھ جنگی ماحول پیدا کرکے اپنے لئے اسلحہ منڈیاں بھی تلاش رہا ہے۔ باقاعدہ ریاستوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ چائنا نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بھی مالی معاونت کررہی ہے تاکہ انہی کے ذریعے حکومتوں و سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔رہنماؤں نے کہا وقت کے ساتھ ساتھ قوتوں کے مفادات بھی بدل جاتے ہیں جس سے قومی و عالمی سیاست پر منفی و مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایران پر معاشی پابندیوں کے ختم ہونے کے بعد خطے میں اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ ان ممکنہ تبدیلیوں سے بلوچ خطے کا متاثر ہونا لازمی بات ہوگی۔ رہنماؤں نے کہا پاکستان کمزور معیشت، ناکام ہوتی ریاستی ڈھانچے کو صرف فوجی قوت سے تادیر برقرار نہیں رکھ سکتی۔کرپشن، بد امنی اور ریاستی اکائیوں میں پائے جانے والی عدم اعتماد پاکستان کے لئے مستقبل قریب میں انتہائی پریشان کن ثابت ہو سکتے ہیں، جس کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ بلوچ سیاست کاروں کو اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے کر بلوچ عوام کو سیاسی سرگرمیوں میں شریک کرنا ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان مقامی و عالمی طاقتوں کے لئے پراکسی گروہوں کی پیداوار کے لئے ایک زرخیز خطہ ہے۔ مذہبی شدت پسندی پھیلانے والی ریاستیں کم قیمت و کم سرمایہ پر پاکستان میں مدرسوں کا وسیع جال پھیلا چکے ہیں۔ اس کی لہریں بلوچستان میں بھی شدت کے ساتھ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان طالبان کے خلاف آپریشن کے نام امریکہ سے فوجی امداد لے رہی ہے، لیکن طالبان قیا دت کی حفاظت کا زمہ پاکستانی فوج نے لیا ہے۔ جس کے واضح ثبوت طالبان کی مرکزی قیادت کے متعدد ارکان اور القاعدہ کی سربراہ کا پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں و دیگر کاروائیوں میں نشانہ بننا ہے۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا پاکستان طالبان کو افغانستان میں اپنا اثررسوخ بڑھانے کے لئے استعمال کررہی ہے، پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی کسی صورت بدل نہیں سکتی ، پاکستان آج بھی طالبان کو اپنا اثاثہ سمجھتی ہے۔ امریکہ سمیت اقوام عالم کو پاکستان کی اس دوغلی رویہ کا نوٹس لیکراپنی فوجی و مالی مدد پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ طالبان کے خلاف امریکہ سے حاصل کیے جانے والے ہتھیار بلوچستان میں استعمال ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی اور زبان کی تفریق کو بنیاد بنا کر پاکستان مستقبل قر یب میں براہوئی و بلوچی زبان کے نام پر تضاد پیدا کرنے کو کاؤنٹر پالیسی کا مرکزی حصہ بنانے کا اراد ہ رکھتی ہے۔ ان تمام خطرا ت و امکانات کو مضبوط بلوچ پارٹیاں ناکام بنا سکتی ہیں۔ بی ایس او آزاد نے کہا کہ دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ کر وڑ سے زائد آبادی رکھنے والی بلوچ قوم کے اندر سیاست کرنے والی پارٹیوں کو طاقت کے حصول کے لئے بلوچ عوام سے رجوع کرنا چاہیے۔عالمی سطح پر سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی حیثیت سے ہم 2013کے شروع میں قومی اتحاد کے حوالے سے بلوچستان کی تمام سرگرم پارٹیوں کو اپنے تجاویز دے چکے ہیں۔ بی ایس او آزاد قومی اتحاد کے حوالے سے اپنا واضح موقف رکھتی ہے، اپنی موقف سے ڈرا فٹ کے زریعے بلوچ پارٹیوں اور پالیسی بیان کے ذریعے عوام کو بی ایس او آزاد نے پہلے سے ہی آگاہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز