شنبه, می 4, 2024
Homeآرٹیکلزتشکیلِ ریاست: : ادارے ، لیڈ ر او ر سماج میں مداخلت۔...

تشکیلِ ریاست: : ادارے ، لیڈ ر او ر سماج میں مداخلت۔ تحریر : جمال ناصر بلوچ

سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے ہم سیاست کو سمجھیں .سمجھ یا سیاسی علم ہی ہمارے سیاسی عمل کی رہنمائی کرتاہے اگر سیاسی سمجھ یا سیاسی علم محدود اور نقصاندہ ہو تو کسی انسان کی اچھی نیت کے باوجود بھی سیاسی اعمال نقصاندہ ہوسکتے ہیں کیوں کہ پولیٹیکل ایکشن کا دارومدار پولیٹیکل انٹینشن پر نہیں بلکہ پولیٹیکل مینس پر ہوتا ہے یعنی سیاسی طریقہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اگر اچھی نیت اور ارادے سے بھی غلط سیاسی طریقہ کار اپنایا جائے تو مقصد کا حصول نا ممکن ہوجاتا ہے۔
بلوچ قومی تحریک آزادی کا مقصد ہمیشہ سے ایک آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل تھی اور ہے۔ مگر مقصد یعنی آزاد بلوچ ریاست کو حاصل کرنے کے لیے انقلابی طریقہ کار اپنایا گیا۔ یہاں پر لفظ انقلابی سے مراد وہ سیاسی یا مزاحمتی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ملکوں یا کسی ملک کے ایک حصے میں انقلاب برپا کیا جائے۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف پولیٹکس کے مطابق انقلاب سے مراد ہے کہ “ایک قائم شدہ نظام یا حکومت کو ختم کرنا جہاں پر ریاستی طاقت کو ایک لیڈرشپ سے دوسری لیڈرسپ کو منتقل کیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں سماجی اور معاشی رشتوں کی بنیادی تنظیم نو کی جائے”
بلوچستان میں انقلابی جدوجہد کے ذریعے آزاد ریاست کی تشکیل کا عمل ہر بار ناکام اسی لیے ہوا کہ انقلابی طرز پر جدوجہد کی گئی۔ انقلابی جدوجہد سے زیادہ زیادہ سماجی، سیاسی یا معاشی رشتوں کو بدلا جاسکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ جیو پولیٹکس کو تبدیل کرکے ایک نئی ریاست بنائی جائے۔ روس ، کیوبا، افغانستان سمیت دوسرے بہت سے ممالک انقلابی جدوجہد سے گرز چکے ہیں۔ روس میں جابرانہ بادشاہی نظام کو انقلاب کے زریعے تبدیل کردیاگیا جہاں پہلے حکومتی طاقت ( جوزار بادشاہ کے پاس تھی )کو ہٹانے کے بعد ایک نئی عبوری حکومت کو ریاستی طاقت کے حوالے کی گئی اور دوسرے انقلاب میں لینن عبوری حکومت کا خاتمہ کرکے خود حکومتی طاقت پر قبضہ کرلیتا ہے۔ انقلاب کیلےٗ حکومتی طاقت کے مرکز یعنی دارلحکومت پر قبضہ کرنا لازم ہوتا ہے اسی لیے روسی انقلاب کا مرکز بھی دارلحکومت پیٹروگراڈ (جدید نام ، سینٹ پیٹرز برگ) تھا۔ کیوبا اور افغانستان میں بھی انقلاب کے لیے دارلحکومتوں پر قبضہ کیا گیا۔ انقلابوں میں ریاست کی سرزمین یا سرحدوں میں تبدیلی لائی نہیں جاتی۔ دوسری طرف ایک ریاست تشکیل دینا انقلابی جدوجہد سے مختلف ہے کیونکہ نہ وہ ریاست کے سرحدی ’اسٹیسٹ کو‘ کو مانتی ہے نہ ہی تشکیل ریاست کی توجہ کا مرکز کسی موجودہ ریاست کی دارلحکومت پر ہوتا ہے۔ یہ فرق بہت ہی اہم ہے کیونکہ اگر اس فرق کو نظرانداز کیا جائے تو جدوجہد کی نیت آزاد بلوچستان کی ہوسکتی ہے لیکن غلط سیاسی علم اور طریقہ کار(انقلابی طرز جدوجہد) کی وجہ سے ایک آزاد ریاست کوتشکیل دینا نا ممکن ہوجاتا ہے۔
ریاست تشکیل دینے سے پہلے یہ علم رکھنا ضروری ہے کہ ریاست ہے کیا؟ ریاست وجود میں کس طرح آتی ہے؟ اور ریاست حاصل کرنے یا بنانے کے عمل یعنی اسٹیٹ فارمیشن کو کس طرح آگے لے جایا جاسکتا ہے ؟ ریاست دراصل اداروں کا ایک مجموعہ ہے۔۔۔۔۔ادارے جو طاقت کا استعمال ایک سرزمین پر کرتے ہیں۔ طاقت استعمال کرنے کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ یہ ادارے ایک فرد کے نہیں ہوتے بلکہ زیادہ تر ایک قوم کے ہوتے ہیں۔ قوم کے افراد اداروں کو موجودہ قوانین کے تحت چلاتے ہیں۔ ریاست کا ہر ادارہ
اپنی حدوحدود اور قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ ہر ادارہ اپنے کام میں ماہر ہوتا ہے اور دوسرے اداروں میں وہ دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ ان اداروں میں صرف ایک ادارہ جس کو حکومت کہتے ہیں، ریاست کی طاقت کو استعمال یا طاقت کی رہنمائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پارلیمان قانون ساز ادارہ ہوتا ہے جس کا کام حکومت پر نظر رکھنا بھی ہوتا ہے۔ پارلیمان قانون بناتا ہے اور عدالتیں قانون کی تشریح کرتی ہیں۔ ایک ادارہ فوج ہوتا ہے جو سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے کیونکہ ریاست کے وجود کے لیے سرزمین ضروری ہے اگر زمین نہیں تو ریاست نہیں۔ فوج سمیت تمام اداروں کا سربراہ سوائے عدالت کے حکومت ہوتی ہے۔ حکومت کا سربراہ ایک فرد ہوتا ہے جو اکیلے یا حکومت میں شامل دوسرے لوگوں کی صلح سے تمام اداروں کے اعمال (ایکشن) کی رہنمائی کرتا ہے۔ ریاست کی یہ تصویر فقط ایک مثال ہے ضروری نہیں کہ تمام ریاستوں کا ڈھانچہ اسی طرز پر ہو۔ مگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست تمام اداروں کو جمع کرکے بنایا جاتا ہے دوسری طرف انقلاب ریاست کا صرف ایک ادارہ یعنی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جاتا ہے تاکہ حکومت پر قابض ہوکر اپنی نظریاتی پالیسی کو دوسرے ریاستی اداروں کے زریعے ریاست میں موجود لوگوں پر آزمایا جائے۔
اگر ہم ایک ریاست تشکیل دینے جارے ہیں تو ہمیں اپنی جدوجہد کو بھی اسی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ زمین اور قوم کے بعد کسی بھی ریاست کی پہلی خاصیت مختلف ادارے ہوتے ہیں۔ اداروں سے ہی ریاست کا وجود وابستہ ہے. میکس ویبر کہتے ہیں ریاستی ادارہ اس وقت نتائج دے سکتا ہے جب ادارہ کے اپنے کلیہ قواعد اور کام کرنے کا واضح طریقہ ہوگا. اداروں میں امپرسنل ازم (یعنی غیر ذاتی پن ) ضروری ہے۔ کسی بھی طرح ذاتی خواہش، ذاتی پسند نا پسند ، ذاتی تعلقات وغیرہ ادارے کے مفاد اور قوانیں پر حاوی نہ ہوں۔ مشہور امریکی پولیٹیکل سائنسدان فوقویاما اپنی کتاب’’ دی اوریجن آف پولیٹیکل آرڈر‘‘ (The Origin of Political Order)، میں ریاست کی تشکیل ، کامیاب اور ناکام ریاست سمیت دوسری چیزوں پر بحث کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس کتاب میں افغانستان سمیت دوسرے ملکوں کی ریاستی اداروں کی کمزوریوں کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی ریاست کی تشکیل، اس کی کامیابی اور اس میں موجود لوگوں کی ترقی کا راز ریاستی اداروں اور ریاست کو چلانے والے لوگوں پر منحصرہوتاہے۔ آج کے جدید دور میں کسی بھی ریاست ، ریاست کے ادارے یا ایسے ادارے جو ریاست تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے تین چیز یں ضروری ہیں
اول) ادارہ مضبوط اور جدید ہو
دوم) وہ قائم شدہ قانون کی پاسداری کرے
سوئم) ادارے میں جوابدہی کا نظام
اس کے ساتھ ساتھ ادارے چلانے والے افراد کو بھی اپنی انسانی فطرت سے منسلک کچھ چیزوں پر قابو پانا ہوتا ہے.انسانی سماج، نسل اور مختلف اقوام کی تشکیل ایک طویل ارتقائی عمل کے ذریعے ہوئی ہے۔ جن دو چیزیوں کا ذکر فوکویاما نے کیا ہے وہ چیزیں ہزاروں سال سے انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ وہ دو چیزیں یہ ہیں۔
1) Nepotism(اقرباء پروری)
2) Kinship (خونی رشتوں کو اہمیت دینا)
نیپوٹسم یا اقرباء پروری سے مراد کوئی شخص جس کے پاس طاقت ہووہ اہلیت سے قطع نظر رشتہ داری اور سماجی تعلقات کی بنا پر کسی سے ترجیحی سلوک کرے۔ مثال کے طور پر ایک ملک کا سربرہ یا ایک طاقت ور عہدیدار کسی عہدے ، نوکری یا ذمہ داری کے لیے ایک فرد کو دوسرے فرد (جو کہ زیادہ قابل اور کام کے لیے کامل ہو) پر اس لیے ترجیح دیتا ہے کہ وہ کسی نا کسی طرح اس کا رشتہ دار یا دوست ہے۔ اگر اس انسانی فطرت کو دیکھا جائے تو انسانی تاریخ اس بات کا جیتا جاگتاُ ثبوت ہے کہ تمام بادشاہوں اور طاقت ور انسانوں نے ہمیشہ اپنے دوست اور رشتہ داروں کو سیاسی و ریاستی معاملوں میں دوسروں پر ترجیح دی اس بات سے قطع نظر کہ ان میں وہ ذمہ داری نبھانے کی اہلیت تھی یا نہیں ۔ یہ عنصر سابقہ ادواروں میں قابل عمل تھا کیونکہ اس وقت ریاستی یا سیاسی طاقت صرف ایک خاندان یا چند خاندانوں تک محدود ہوتا تھا مگر جدید ریاست کے وجود کے بعد طاقت کا سرچشمہ قوم ہے جہاں پر ایک قوم کے بہتریں، قابل اور ایماندار افراد اپنی قومی ریاست کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ اگر کسی بھی وجہ سے ریاستی یا سیاسی طاقت کا استعمال اقربا پروری کی بنا پر ہو تو ریاستی ادارے ناکام اور کمزور ہوجاتے ہیں۔
دوسری اہم چیز کن شپ یعنی خونی رشتوں کو اہمیت دینا ہے اور یہ کوشش کرنا کہ کسی نا کسی طرح اپنے ہی بھائی، بہن یا قریب ترین رشتہ داروں کو دوسروں پر اہمیت دی جائے۔ کن شپ کے دائرہ کار میں قبائل پرستی وغیرہ بھی آتے ہیں جہاں پر اس نیٗت سے قبائل کو اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے تاریخی یا سماجی حوالے سے نزدیک ہیں۔
بقول امریکی سائنسدان فوقویاما ریاست کو چلانے والا فرد انسانی فطرت میں موجود ان دونوں چیزوں پراگر قابو نہیں پاتا تو وہ اداروں کو اس طرح سے لیڈ نہیں کرسکتا کہ جس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ریاستوں اور اقوام کی ترقی میں رُکاوٹ اداروں کے ذمہ داروں سے لیکر لیڈر شپ ہیں جن کے اندر اقرباء پروری یا خونی رشتوں کو اہمیت دینے جیسے عناصر پائے جاتے ہیں اور اس طرح کی انسانی فطرت بہت سی ریاستوں کے لیے ناسور بن چکی ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر پیرے وان ڈن برگ جو کہ نسل اور قومیت کے حوالے سے سماجی علوم میں ایک اتھارٹی مانے جاتے ہیں، اپنی تحقیق نسل اور قومیت میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نسل اور قومیت کی تشکیل انسانی ارتقاہ کے دوراں لاکھوں سالوں پر مشتمل ایک پراسس کا نتیجہ ہے اور اس میں سب سے بڑا عمل دخل انسانی فطرت میں موجود اقرباء پروری اور خونی رشتوں کا رہا ہے۔ اپنی نسل بڑھانے کے لیے ارتقائی عمل کے دوران انسان نے دوسرے انسانوں سے زیادہ ان انسانوں کو اہمیت دی جو کہ کسی نہ کسی طرح جینیاتی حوالے سے قربت رکھتے تھے۔ آج بھی زیادہ تر انسانی سماجوں میں یہ انسانی فطرت کسی نہ کسی طرح دیکھی جاسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ کل جس انسانی فطرت نے مختلف نسل اور اقوام کی بنیاد رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا وہی فطرت آج اقوام کے لیے موجودہ دور میں بھی کارآمد ثابت ہو۔ آج دنیا کے تمام ادارے اور ریاست، خاندانی سے (اگر عملن نہیں تو کم از کم نظریاتی طور پر ہی صحیح، کیونکہ آج کوئی خاندان ریاست کو اپنی میراث نہیں کہہ سکتا نہ ہی ایسا کوئی دعو ی ٰ کرسکتا ہے) ترقی کرکے قومی بن چکے ہیں اسی لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک قوم کو چلانے والے ادارے بھی کن شپ (خونی رشتوں کو ترجیع دینا) ، نیپوٹزم، قبیلہ پرستی، اور خاندان پرستی وغیرہ سے نکل کر صرف قوم پرستی کو ترجیح دیں اگر کسی طرح وہ اس میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ادارے چل نہیں سکتے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فوکویاما اور ویبر سمیت دوسرے سماجی علوم کے دانشوروں کی اس بات سے میں قائل ہوں کہ سخت ادارتی اصول اور قانوں کے ہوتے ہوئے بھی ادارے ناکام ہوجاتے ہیں اگر ان اداروں کے سربرہ ذاتی پسند نا پسند، نیپوٹزم، اقرباء پروری اور قبیلہ پرستی سے پاک نہ ہوں۔ اس دعوے کو ماضی اور حال دونوں درست ثابت کرتے ہیں۔ اداروں کو چلانے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قانون پر عمل کر یں۔ لاقانون ادارے چل نہیں سکتے اور ناکام ادارے نتائج دے نہیں سکتے ہیں۔ قدیم انسانی تاریخ ہو یا انسان کی جدید تاریخ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ، قانون، اصول، ڈسپلن، غیر ذاتی پن اور اقرباء پروری کی مخالفت ہی کسی قوم کو کامیاب کرسکتی ہے۔ قدیم انسانی تاریخ میں اس کی واضح مثال چینی جرنل اور فلسفی سن زو ہیں۔500قبل مسیح میں لکھی گئی کتاب آرٹ آف دی وار اور اس کے مصنف سن زو کے متعلق سب سے زیادہ مستند معلومات چینی تاریخ دان سیما کیان فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بیان کردہ واقعات ڈھائی ہزار سال گزر جانے کے بعد بھی ہمیں اداراتی قانون کی اہمیت اور فوجی ڈسپلن کی طاقت کا راز بتاتے ہیں۔ سیما کیان لکھتے ہیں کہ جب ریاست چی کے باشندہ ’سن زو‘ کی جنگی حکمت عملی کی تحریروں کو ریاست وْو کا بادشاہ ’ہو لو‘ پڑھتا ہے تو وہ سن زو کو اپنی ریاست میں طلب کرتا ہے۔ ہو لو کہتا ہے کہ میں نے تمہاری تحریریں پڑھی ہیں کیا میں تمھارے فلسفے کا امتحان لے سکتا ہوں؟ سن زو رضامندی ظاہر کرتا ہے۔ بادشاہ پوچھتا ہے ، کیا امتحان میں عورتیں استعمال کی جاسکتی ہیں؟ سن زو کا جواب اب بھی ہاں میں ہوتا ہے۔ بادشاہ کے حکم پر 180 شاہی کنیزوں کو محل کے باہر لایا جاتا ہے جن کو سن زو دو کمپنیوں میں بانٹ لیتا ہے۔ بادشاہ کی دو پسندیدہ کنیزوں کو ان کی کمان سونپ دی جاتی ہے۔ سن زو حکم دیتا ہے کہ سب اپنے نیزے پکڑلیں اور ان سے اس طرح مخاطب ہوتا ہے۔
سن زو: میرا خیال ہے کہ آپ کو آگے پیچھے اور دائیں بائیں کا فرق پتہ ہے؟
عورتیں کہتی ہیں: جی ہاں۔
شن زو کہتا ہے : جب میں بولوں ’سامنے دیکھو، آپ سب کو سیدھا دیکھنا ہے۔ جب میں بولوں ’بائیں مُڑوآپ کو بائیں طرفُ مڑنا ہے۔ جب میں بولوں ’دائیںُ مڑو‘ آپ کو دائیں طرفُ مڑنا ہے۔ جب میں بولوں ’پیچھے مُڑو آپ کو پیچھےُ مڑ جانا ہے۔
لڑکیوں نے اس کو تسلیم کیا۔ اس طرح کمانڈ کے الفاظوں کی وضاحت کردینے کے بعد اس نے مشق شروع کرنے کا اشارہ دیا۔ اس نے طبل کی آواز پر حکم دیا ’دائیںُ مڑو‘۔ لیکن لڑکیوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔
سن زو نے کہا: ’اگر کمانڈ رکے الفاظ واضح اور صاف نہیں ہیں،اور ا حکامات پوری طرح سمجھے نہیں گئے تو یہ جنرل کا قصور ہے‘۔
تو سن زو نے دوسری دفعہ صاف الفاظوں میں ان کو طریقہ کار سمجھایا اور اس نے انھیں پھر سے مشق کرانا شروع کی اور طبل بجنے پر سن زو نے اس دفعہ حکم دیا ’بائیںُ مڑو‘ لڑکیوں کو پھر سے ہنسی کے دورے پڑگئے۔
سن زو کہتا ہے: اگر کمانڈ کے الفاظ واضح اور صاف نہیں ہیں، اورا حکامات پوری طرح سمجھے نہیں گئے تو یہ جنرل کا قصور ہے۔ لیکن اگر اس کے احکامات واضح ہیں اور سپاہی پھر بھی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو یہ ان کے افسروں (کمان داروں) کا قصور ہے‘۔
یہ کہتے ہوئے اس نے حکم دیا کہ دونوں کمپنیوں کے کمانوں کے سرقلم کر دیے جایءں۔ اب وْو کا بادشاہ ایک اونچی جگہ لگائے گئے شامیانے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اس نے جب دیکھا کہ اس کی من پسند کنیزوں کوسزا ملنے والی ہے تو وہ جلدی سے نیچے یہ پیغام بھیجتا ہے
بادشاہ : ہم اپنے جنرل کی فوج سنبھالنے کی صلاحیتوں سے پوری طرح مطمئن ہوچکے ہیں۔ اگر ہم ان دو کنیزوں سے محروم ہوگئے تو ہماری شراب و کباب کی لذت جاتی رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ ان کے سر قلم نہ کیے جائیں۔
سن زو بادشاہ کو جواب دیتا ہے کہ : بادشاہ سلامت سے اس فوج کا جنرل ہونے کا اختیار پانے کے بعد، اس کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں بادشاہ سلامت کے چند مخصوص احکامات کی بجا آوری سے قاصر ہوں۔
سن زو ان دونوں کنیزیوں کے سر قلم کروادیتا ہے۔ کیونکہ سن زو کے نزدیک جنگ کوئی مزاق نہیں بلکہ اس کے لئے جنگ، زندگی اور موت ہے۔ اس کے بعد ترتیب میں ان کے فورا ً بعد آنے والے جوڑوں کو ان کی جگہ کمان کے لیے مقرر کردیا جاتا ہے ۔ جب یہ ہوچکا تو پھر سے مشقوں کے لئے طبل بجائے گئے او ر سن زو پھر سے حکم جاری کرتا ہے اب کی بار، دائیں مڑنا ہو یا بائیں، سیدھا چلنا ہو یا الٹا، گھٹنوں کے بل یا کھڑے ہو کر، لڑکیوں نے بلاچون وچرا تمام منازل پوری درستگی کے ساتھ طے کیں۔ سن زو بادشاہ کو پیغام بھیجتا ہے کہ آپ کی فوج اب جنگ کے لیے تیار ہے انھیں آگ میں سے گزرنے کا حکم دیں یا پانی میں سے، وہ حکم کی سرتابی نہیں کریں گے۔ ( حوالہ: آرٹ آف دی وار، چینی سے انگریزی مترجم، لاوینل جائلز، اردو مترجم اقبال پاشا۔)۔ سن زو ڈسپلن اور اپنی فوجی حکمت عملی سے وْو کی کمزور فوج کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ریاست ’چْو‘ کی تین گناہ بڑی فوج کو شکست سے دوچار کرتی ہے۔ تاریخ میں ذاتی پسند نا پسند، نیپوٹزم، اقرباء پروری اور کمزور اداروں کی دوسری واضح مثال جدید انسانی تاریخ میں امریکی خانہ جنگی کے دوران ملتی ہے۔ ابراہم لنکن جب امریکہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کے منتخب ہونے پر سیاہ فام غلاموں کے مسئلے پر جنوبی امریکی ریاستیں فیڈریشن کے خلاف اعلانِ بغاوت کر کے جنوبی ریاستوں پر مشتمل ایک نیا اتحاد بنا لیتی ہیں۔ اس طرح امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے۔ شروعاتی جنگوں میں ابراہم لنکن کی فوج کو باغیوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ کا فوجی نظام ہوتا ہے جہاں پر جنرل قابلیت کے بجائے ہمیشہ سیاسی تعلقات کی بنا پر تقرر کئے جاتے تھے۔ چونکہ ابراہم لنکن کو بھی صدراتی دوڑ کے دوران سیاسی حمایت لینی پڑی تھی اسی لیے وہ بھی قائم شدہ سیاسی کلچر کے تحت، یعنی حمایت کی بنیاد پر اپنے فوج کے جنرل تقرر کرچکے تھے۔ لیکن شروعاتی جنگوں میں شکست کے بعد امریکہ کا وجود قائم رکھنے کے لیے لنکن بھی مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ سیاسی لین دین کی بنا پر تقرر کیے جانے والے جنرلوں کی جگہ ان فوجی افسروں کو زیادہ اہمیت دیں اور تقرر کریں جو کہ زیادہ قابل اور بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ادارتی اصول کو لاگو کرنے سے جنگی نتائج تبدیل ہوجاتے ہیں اورجیت ابراہم لنکن کی ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں ذاتی پسند نا پسند، نیپوٹزم، اقرباء پروری، اداروں میں لاقانونیت اور قبیلہ پرستی اب تک نارمل سیاسی یا ادارتی کلچر ہے۔ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کسی تنظیم کا ذمہ دار اور اختیار دار اپنے کسی ہم فکر سیاسی دوست کی زندگی بچانے کی اہلیت رکھتا ہے مگر دوست کی جگہ اپنے بھائی کو ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ ان کے سیاسی اصول نیپوٹزم، اقرباء پروری ہیں جہاں خونی رشتے قومی مفادات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی تنظیم کا ذمہ دارایک فکری دوست سے تھوڑی بہت رنجش رکھتا ہو لیکن جس سے وہ خفا ہے وہ دوسرے دوستوں سے بہتر، قابل اور ایماندار کیوں نہ ہو مگر اس کو دوسروں پر اہمیت اس لیے نہیں دی جاتی کہ وہ دوسروں کی طرح عہدیدار سے ذاتی سنگتی نہیں کرتا۔ جدوجہد قومی ہو، دعوی قومی آزادی کا ہو لیکن قابل ، ایماندار اور مخلص فکری دوستوں کے بجائے ذمہ دار، سربراہ یا عہدیدار کی طرف سے صرف اپنے رشتہ داروں، اپنے قبائل کے افراد یا اپنے ذاتی دوستوں کو دوسرے قابل، ایماندار اور مخلص سیاسی کارکنوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہو۔ یہ رویے اداروں کو دیمک کی طرح اندر سے کھو کلا کردیتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی فرد یا تنظیم کا سربراہ موجودہ سیاسی کلچر کی مخالفت کرے، نیپوٹزم، اقرباء پروری کو رد کرکے قانون کو برابری کی بنیاد پر لاگو کرے، سن زو کی طرح فوجی ڈسپلن پر کمپرومائز کرنے کے بجائے اسے سختی سے لاگو کرے ۔ جنگ کو مزاق کے بجاے، قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھے۔ تو خونی رشتوں ، نیپوٹزم، قبیلہ پرستی، اور خاندان پرستی کو رد کرنے کی، امپرنسل ازم( غیر ذاتی پن) کی پاسداری کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ سخت ڈسپلن کو ڈکٹیٹری کہا جاتا ہے اور نیپوٹزم رد کرنے پر بھائی سے ذاتی دشمنی کے قصے گھڑے جاتے ہیں۔ یہ مثال بلوچ رہنما حیربیار مری کے سخت اصولوں کی وجہ سے ان کے خلاف سیاسی مہم کی طرف اشارہ ہے۔ جو اصول، فکر اور اندازِ رہنمائی ، سماجی علوم اور انسانی تاریخ کے مطابق تشکیلِ ریاست، اور اداروں کو چلانے کے لئے لازم قرا ر دیے جا چکے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے نتائج آج کاہان سے لیکر گوادر تک ہمارے سامنے ہیں۔ کیونکہ کوئی جدوجہد کامیاب نہیں ہوسکتی ، کوئی ادارہ مستقل نتائج نہیں دے سکتا اگر اس کا رہنما ان اصولوں پر نہیں اترتا جن کو ویبر ا ور فوکویاما نے واضع کیا ہے۔ صرف آئین، کاغذپر لکھا گیا قانون کافی نہیں اگر کسی فرد میں اسے لاگو کرنے کی صلاحیت اور لیڈرشپ ہی نہیں تو ایسا قانون ردی کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ کیوں پاکستانی ریاست کے ادارے ناکام اور ریاست برباد( اس کی تاریخ، وجود، یا غیرفطرتی بنیادوں پر بحث نہیں)، سیاسی طاقت منتشر، اداروں کی کوئی حدوحدود نہیں جبکہ جمہوریہ قربض، ملائیشیا اور جمہوریہ سنگاپور جدید ریاستیں بن چکی ہیں جہاں قانون کی برابری،معیارزندگی وغیرہ پاکستان سے ہزار گناہ بہتر ہے ؟ حالاں کہ ھینڈبک آف پارلیمنٹ (جودنیا کی تمام ممالک کے تحریری قانون جیسے کہ آئین وغیرہ کے حساب سے پارلیمان کی طاقت کا انڈیکس بتاتی ہے) کے شماروں کے مطابق پاکستان کے پارلیمانی اداروں کی طاقت (صرف تحریری حساب سے) ۴۴ ہے جو کہ جمہوریہ قربض ( ۴۱ )، ملائیشیا(۳۸) اور جمہوریہ سنگاپور (۳۸) سے زیادہ ہے۔ اگر اس انڈیکس کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کو یوروپین یونین کے رکن ملک جمہوریہ قربض، ملائیشیا اور جمہوریہ سنگاپور سے بہتر ہونا چائیے تھا، چونکہ تبدیلی یا اداروں کی مضبوطی ،صرف قانون لکھنے سے نہیں آتی, اسی لیے پاکستان ایک ریاست کے طور پر برباد اور دوسرے ممالک آباد ہیں۔ یہ شمارے سیاست کی اس اٹل حقیقت کو مزید واضح کرتے ہیں کہ بہترین قانون کو ایک بہترین رہنما ہی لاگو کرسکتا ہے جو خودذاتی پسند نا پسند ، نیپوٹزم، قبیلہ پرستی ، خاندان پرستی اور اقرباء پروری سے پاک ہو۔
اگر اداروں کی تشکیل کے لیے تین بنیادی خواص اور ان اداروں کو لیڈ کرنے والا فرد فوکویاما اور ویبر کے اصولوں میں پورا اترتا ہے تب جاکر ادارے کامیابی سے اپنے مقاصد پورے کرسکتے ہیں۔ اداروں اور لیڈرشپ کے علاوہ بلوچ قومی تحریک میں سماج اور سماجی تبدیلی کے حوالے سے پالیسیوں پر ابہام پایا جاتا ہے۔ اگر مسلح ادارے کامیاب ، لیڈر بہترین ہوں تب جاکر ہم سماج میں، موجود جیو پالیٹکس کے ہوتے ہوئے دخل اندازی کرسکتے ہیں ؟ میرے نزدیک، اگر ادارے اور لیڈر دونوں ان اصولوں اور شرائط (جن کا ذکر تفصیل سے کیاگیا ہے) پر مکمل اترتے ہیں تب بھی مسلح تنظیموں کی طرف سے سماجی تبدیلی یا انصاف کو اپنا اجنڈا بنانا تحریک کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ ادارے اور تشکیلِ ریاست کے عمل کی نا سمجھی کی وجہ سے بلوچ جدوجہد آزادی میں سماجی تبدیلی کے عناصر بھی شامل کردیے گئے ہیں۔ بلوچ رہنما حیربیار مری کے اشتراک عمل کے لیے بیان اور دو شرائط میں سے ایک شرط بھی اسی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ شرط اول کے مطابق ’بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم رواج کو پامال کرنا یا کسی بھی قوت کا پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا ،جیسی پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے‘۔ اگر اس شرط کو سب مانتے ہیں اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ بہت سے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک سماجی مسائل میں دخل اندازی نے اس لئے جنم لیا کیوں کہ بلوچ قوم کی مسلح تنظیمیں اپنے وجود کو آزادی دہندہ تنظیم کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف قائم رکھنے کا آلہ بھی سمجھتی ہیں ( یہاں پر سماجی انصاف پر بحث نہیں، جس کے معنی علاقائی اور قبائلی مزاج کے اعتبار سے بدل جاتے ہیں )۔ بلوچ مسلح تنظیمیں جدوجہد آزادی کا مکمل کل نہیں ہیں اور ان کا کردار اسی قسم کا ہونا چاہئے جس طرح کسی آزاد ریاست میں ایک فوج کا ہوتا ہے۔ اس دلیل کی ایک بنیادی وجہ انقلاب اور تشکیل ریاست کا وہ فرق ہے جس کا ذکر شروع میں کیا جاچکا ہے۔ بہت سی سیاسی حلقوں کی طرف سے سماج میں دخل اندازی کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیے جاتے ہیں۔
1. بلوچ سماج میں لڑکیوں کو برابری ملنی چاہیئے۔ ہماری جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی آزادی اور برابری کے لیے ہے اسی منطق کے تحت اگر کم عمر لڑکی کی شادی اس سے کہیں زیادہ عمر کے مرد کے ساتھ کی جارہی ہو اور وہاں اگر لڑکی کے خاندان کے افراد لڑکی کی بات نہیں سنتے اور مسلح تنظیموں کے پاس سوائے مداخلت کے اور کوئی راستہ نہیں تب ان تنظیموں کو مداخلت کرنے کا حق حاصل ہے۔
2..ہماری جدوجہد بلوچ کی ترقی کے لیے ہے اسی لیے ہم ایسے قبائلی اورفرسودہ رسومات کو ایک ایک کرکے ختم کریں گے جو کسی نہ کسی طرح ظلم یا نا انصافی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ( یہاں ہر لفظ ظلم پر بھی بحث نہیں، کیونکہ ہر سیاسی کارکن، ظلم کا اپنا نظریہ اور مفہوم دیتا ہے)۔
3.پاکستانی عدالتیں انصاف نہیں دیتیں اسی لیے اگر کوئی بلوچ انصاف کے لیے ہم سے رجو ع کرتا ہے تو اس کے لیے ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس کے مسئلے کی شنوائی کریں
4..اگر ہم ان معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور اوپر دی گئی شق ایک اور تین پر عمل کرتے ہیں تو اس سے عوام میں بلوچ سرمچار ایک انصاف پسند طاقت کے طور پر جانے جائیں گے۔
یہ چار نکات ان دلائل کا لن تن ہیں جو مسلح تنظیموں کی سماج میں دخل اندازی کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ ان دلائل یا ممکنہ دخل اندازی کی وجوہات کے خلاف میں اپنے دلائل تین حصوں میں دونگا۔
اول) فلسفیانہ اور تشریحاتی مسائل
دوم) بحیثیت مسلح تنظیم تکینکی مسائل
سوئم) زمینی حقائق
اول) فلسفیانہ اور تشریحاتی مسائل:
کسی بھی عمل کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سماجی معاملوں میں دخل اندازی کے پیچھے یہ واضح سوچ کارفرما ہے کہ بلوچ سرمچاروں کے کندھوںں پر ایک آزاد سماج تشکیل دینے کا بوجھ بھی ہے۔ آزاد سماج کیا ہے ؟ اس کی حدیں کیا ہیں ؟ کیا آزاد سماج یا برابری کے معنی ہمیشہ ایک ہی ہونگے یا ان کے معنوں، حدوحدود وغیرہ میں بدلاو آسکتا ہے ؟ آزاد سماج کی تشریح پر اتفاق کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا کہ متفق شدہ تشریح پر عمل درآمد کروایا جاسکے۔ یہاں پر لفظ ’تشریح پر اتفاق‘ اس لیے معنی رکھتا ہے کہ بحیثیت قوم سماج کے بہت سے معاملوں میں ہم ایک دوسرے سے گہرا اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک قوم کسی بھی سیاسی نظریہ، سوچ، مذہب، عقیدے سے اس لیے بڑا ہے کہ اس میں طرح طرح کی سوچ رکھنے والے افراد ہیں۔ شائد ایک بلوچ اسلام دوست ہو اور ساتھ ہی ایک آزاد قوم و ملک کی جدوجہد پر یقین رکھتا ہو۔ دوسرا بلوچ خدا کے وجود سے انکاری ہو مگر پھر بھی قوم و ملک کی آزادی کا ماننے والا ہو۔ تیسرا بلوچ شائد قدامت پرست اور چوتھا ایک لبرل ہو۔ چاروں اقسام کی سوچیں قومی آزادی پر تو یقین رکھتے ہوں لیکن سماج، رسم و رواج، عورت اور مرد، شادی بیاہ، تعلیم اور دوسرے سماجی معاملات میں اختلاف رکھتے ہیں اب اگر ’عورت کی برابری‘ یا ’سماجی آزادی‘ کا سوال ہے تو مسلح تنظیمیں چاروں اقسام سے کس سوچ کی آذادی‘ یا ’برابری‘ کو رائج کریں گی ؟ کیوں کہ اسلام دوست بلوچ کے لیے عورتوں کے حقوق یا آزادی ، لبرل بلوچ سے مختلف ہونگے تو آزادی پسند تنظیمیں کس کے خلاف اور کس کے ساتھ ہونگی؟ یہاں پر الفاظ ’ساتھ یا خلاف‘ کا استعمال اس لیے ضروری ہے کیونکہ بلوچ قوم میں سماجی معاملوں میں پر تضاد سوچ موجود ہیں اور کسی ایک سوچ کا ساتھ دینا ازخود دوسرے کی مخالفت ہوگی۔ اور اس طرح سیاسی جدوجہد کو سماجی مسئلوں میں الجھانا تحریک کے لیے نئے مسائل جنم دیگا اور یہ عمل قومی یکجہتی کے بجائے تقسیم کا باعث ہوگا۔
دوم) بحیثیت مسلح تنظیم تکینکی مسائل:
اگر کسی نہ کسی طرح تشریحی مسائل جنم نہیں لیتے یا کوئی ان تشریحی مسائل کو سرے سے رد کردے، تب مسلح تنظیموں کے لیے تکینکی مسائل جنم لیتے ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی آزادی کی جدوجہد میں ایک مسلح تنظیم کی جدوجہدکے حوالے سے حدوحدود کیا ہونے چائیے ؟انقلابی جدوجہدوں میں اس بات کی مثالیں مل سکتی ہیں کہ جہدکاروں نے اپنے کنڑول کردہ علاقوں میں جہاں جہاں ان کا اثروروسوخ رہا ہے وہاں وہاں سرکار کے مقابلے اپنے اپنے قانون لاگو کیے۔ اپنے نظریہ کے تحت انصاف اور برابری قائم کی۔ اگر
کسی ملک میں جدوجہد طبقاتی تھی تب وہاں پرانصاف کا نظریہ ، معاشیات کے کرد گھومتا تھا یعنی انقلابی طاقتیں زمین دار کی زمین پر قبضہ کرکے اسے کسانوں میں بانٹ دیتے۔ مگر چونکہ بلوچ تحریک انقلابی نہیں ریاست کی تشکیل کی ہے۔ اسی لیے اگر مستقبل میں عالمی مداخلت کے باعث یہ حالات پیدا بھی ہوجاتے ہیں کہ ہم اپنا عدالتی نظام جنگ کے دوران قائم کریں (جیسے کہ شام کے مقبوضہ کرد علاقوں میں کردوں نے کیا) تب بھی مسلح تنظیمیں براہ راست عدالتی نظام میں دخل نہیں دے سکیں گی۔ انصاف دینا ایک الگ پیشہ اور کام ہے. اگر قانون سازی ، ملزم کو پکڑنا، سزا اور جزا کا فیصلہ کرنا، جیسے عوامل ایک ہی ادارے کے پاس ہونگے تو طاقت کے ناجائز استعمال کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ خود کا قانون ہوگا، خود اس کی تشریح کی جائے گی، خود ملزم کو پکڑ کر خود ہی اس کو مجرم قرار دیکر اس کو خود ہی سزا دی جائے گی۔ اس نظام اور فلسفے کی ایک جھلک آج کل مکران میں ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری وجہ پروفیشنل ازم ہے۔ کوئی ادارہ جسکا عمل دخل ریاست یا ریاست کی تشکیل سے منسلک ہو وہ کام کے حوالے سے موثر کردار ادا نہیں کرسکے گا اگر وہ ادارہ اپنا مخصوص کام کرنے کی بجائے تمام کاموں میں دخل اندازی کرے۔ موجودہ حالات میں مسلح اداروں کو جدید بنیادوں پر تنظیم نو کی اشد ضرورت ہے تاکہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ادارے موثر جنگی کردار ادا کرسکیں۔ کسی بھی طرح غیرجنگی ( وہ عمل جس کا مسلح محاذ سے تعلق نہیں ) معاملوں میں مسلح ادارے اپنی توانائی صرف کریں گے تو خودبہ خود ان کی توجہ مختلف حصوں میں بٹ جائے گی۔ جس کی وجہ سے ادارے جنگی مہارت کی اس حد تک نہیں پہنچ سکیں گے جو موثر نتائج دینے کے لیے درکار ہوں۔ کسی آزاد ریاست میں ریاستی ادارے مل کر سماجی ترقی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اگر ہمارے سماج میں ایسے رسم و رواج بھی ہوں جن کو بہت سے لوگ زیادتی یا ظلم کے زمرے میں لیتے ہیں تو ان کی تبدیلی ریاستی اداروں کی مشینری سے ہی ممکن ہے جس میں، تعلیمی پالیسی، معاشی نظام،نظامِ حکومت اور قانون سازی وغیرہ شامل ہیں۔
سوئم) زمینی حقائق:
اگر فلسفانہ اور تکنیکی مسائل کو رد کردیا جائے اور کوئی ان دونوں حصوں کے دلائل کو ماننے سے انکاری ہو تب میرے نزدیک آخری سوال زمینی حالات اور حقائق کا ہے۔ اگر کوئی بھی تنظیم عورت کی برابری کے نام پر کسی ایسے مسئلے میں دخل اندازی کرتی ہے جہاں خاندان کے افراد اور مسلح تنظیمیں آمنے سامنے ہوں تو یہ عمل برائے راست قومی تحریک کے خلاف ہوگا۔ اس کی ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ، خاندان کے تمام افراد لڑکی کی شادی کہیں کررہے ہیں اگر لڑکی اس بات سے خوش نہیں ، تو کیا مسلح تنظیموں یا موجودہ حالات میں کسی بھی آزادی پسند ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لڑکی کو اسکے حقوق دلانے کے فلسفے کے تحت خاندان سے ٹکر لے اور اپنی طاقت کا استعمال کرے؟ ؟ ایک آدرشوادی اور آئیڈیلسٹ شخص شائد اس عمل کی بھرپور حمایت کرے لیکن اگر ریل پولیٹکس (حقیقت پسندی ) کے حساب سے دیکھیں تو ہر باشعور بلوچ اس کی مخالفت کرے گا۔ کیونکہ قومی آذادی کی جدوجہد قوم کو بچانے کے لیے ہورہی ہے تاکہ قوم کی اپنی ریاست ہو، اسی ریاستی طاقت کو استعمال کرکے زبان، ثقافت اور رسم و رواج کو ترقی دی جاسکتی ہے اور اسکی حفاظت کی جاسکتی ہے لیکن دوسری طرف اْسی رسم و رواج کی دھجیاں انصاف اور سماجی آزادی کے نام پر اُڑائی جائیں توکیا یہ ازخود تضاد نہیں ہوگا؟؟ مزید یہ کہ، ایک لڑکی کو آدرشوادی سوچ کے تحت انصاف تو دیاجارہا ہے مگر دوسری طرف لڑکی کے خاندان کے تمام افراد کو تحریک سے بدزن بھی کیا جارہا ہوگا اور ان کے دلوں میں اس عمل سے تحریک کے لیے نفرت پیدا ہوگی۔ یہ طاقت فقط ایک ریاست کو ہی حاصل ہے کہ وہ قانون کو سماج میں برابری سے لاگو کرسکے اسی لیے تشکیل ریاست کے دوران ’آدھا انصاف ‘ یا ’منتخب انصاف‘ صرف عزت دار بلوچ خاندانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوگا جس سے مسئلے حل ہونے کے بجاے مزید گمبیر ہونگے۔
مسلح تنظیموں کی مداخلت کے حق میں ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر قومی تحریک میں موجود مسلح طاقتیں سماجی، کاروباری یا خاندانی مسائل کو حل کریں گی تو اس عمل سے لوگوں میں آزادی کا پرچار ہوگااور تحریک کی زیادہ حمایت کی جائے گی۔ اس دلیل کی یہ منطق سچ ہے کہ اچھے رویے سے لوگوں پرگہراثرپڑتا ہے لیکن کیا مسلح تنظیموں کو ایسے طریقے استعمال کرنے سے فائدہ یا استعمال نہ کرنے سے نقصان ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ بلوچ تحریک کے حوالے سے ضروری ہے ؟ کامیاب حکمت عملیاں خواہشات سے زیادہ ضروریات کی تحت بنائی جاتی ہیں اور اسکے طویل مدتی نتائج کو پرکھاجاتا ہے کہ آیا اس عمل سے نقصان ہے یا فائدہ۔ نقصان اور فائدہ قومی مفادات کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ راقم سمجھتا ہے کہ نیشنل ازم کی بنیاد ر ریاست تشکیل دینے والی مسلح طاقتوں کو تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے اس امر کی ضرورت نہیں کہ وہ عدالتوں کی طرح انصاف فراہم کرتے پھریں۔ نیشنل ازم کی بنیادیں الگ پہچان، قومیت، سرزمین، ثقافت وغیرہ پر انحصار کرتی ہیں اسی لیے قوم ، قومیت اور قومی آزادی کی بنا پر تحریک آزادی کی حامی ہے ۔ اسکی واضح مثال بلوچستان کے باہر مقیم ان بلوچ فرزندوں کی طرف سے تحریک کی حمایت ہے جو بلوچستان میں نہ رہتے ہیں نہ وہاں پر ان کا کاروبار ہے، کوئی آزاد ی پسند تنظیم چاہتے ہوئے بھی ان کے مسائل کو حل نہیں کرسکتی ۔ پھر بھی نظریہِ عدل اور انصاف کے بغیر بلوچ تارکین وطن کی مکمل حمایت قومی تحریک کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کاروباری یا سماجی فائدہ اور نقصان سے زیادہ اہمیت اس حقیقت کو دیتے ہیں کہ آزادی کے ذریعے دنیا میں ان کی ایک الگ پہچان ہوسکتی ہے، وہ بحیثت بلوچ اور بلوچستانی ایک الگ شناخت کے مالک ہوسکتے ہیں ، خواہش ِ پجار کے سامنے دور غلامی میں دوسری خواہشات ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انقلاب کے دوران چونکہ جدوجہد پہچان سے زیادہ سماجی انصاف، نظریہ یا طبقاتی مفادات کے گردگھومتی ہے اسی لیے وہاں پر لوگوں کو قائل کرنے کے لیے انقلابیوں کو اپنے سماجی انصاف یا نظریے کی عملی جھلک دکھانا پڑتی ہے۔ لیکن یہ عمل ہمارے جدوجہد کے لیے ضروری نہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچ قوم کی اکثریت جدوجہد کو مکمل سپورٹ کرتی ہے اور کرے گی بشرطیکہ مسلح ادارے خود بلوچ قوم کو تحریک سے بدزن نہ کریں۔
یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم انقلابی جدوجہد اور تشکیلِ ریاست کے عمل کے فرق کو سمجھیں۔ کامیاب ادارے اور تشکیل ریاست کو عملی جامع پہنانے کے لیے فوقویاما کے دیے گئے ۳ بنیادی ادارتی اصولوں کا بغور جائزہ لیکر اداروں کو انہی بنیادوں پر اسطوار کریں۔ اقربا پروری، خونی رشتوں، ذاتی پسند نا پسند، قبیلہ پرستی اور خاندان پرستی وغیرہ کی بھرپور حوصلہ شکنی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام ادارے ان ہی کاموں سے کام رکھیں جن کے لیے ان اداروں کو بلوچ قوم نے تشکیل دیا ہے۔ اپنی طاقت سماج یں دخل اندازی کے بجائے صرف جنگی محاذ اور دشمن کے خلاف استعمال کریں۔ سماجی آزادی و تبدیلی، عورتوں کی برابری یا عدالتوں کا کردار ادا کرنے کی بجائے جنگی حربوں پر توجہ دیں تاکہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تحت بلوچ قومی طاقت کو دنیا کے سامنے منوا کر، قومی محکومیت کو آزادی میں تبدیل کریں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز