ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومخبریںسات مہینوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود شبیر تاحال لاپتہ...

سات مہینوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود شبیر تاحال لاپتہ ہے:اہلخانہ

کراچی (ہمگام نیوز)آج بروز پیر لاپتہ اسٹوڈنٹس رہنماء شبیر بلوچ کے اہلخانہ کی طرف سے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس منعقد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں شبیر بلوچ کے لواحقین نے کہا کہ شبیر بلوچ کی عمر 24سال ہے، وہ ایک طالبعلم ہے ۔ 4اکتو بر 2016کو کیچ کے علاقے سے فورسز نے 25دیگر افراد کے ساتھ شبیر کو گرفتار کرلیا۔ چند دنوں کے وقفے کے دوران گرفتار ہونے والے بیشتر افراد رہا کردئیے گئے، لیکن سات مہینوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود شبیر تاحال لاپتہ ہے۔ گرفتاری کے وقت شبیر بلوچ کی بیوی بھی وہاں موجود تھی، جس نے اپنی آنکھوں سے شبیر بلوچ کی گرفتاری کا سارا واقعہ دیکھا۔ اس کے باوجود طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود شبیر کی زندگی کے متعلق ہمیں مکمل طور پر لاعلم رکھا جارہا ہے۔بازیابی کے لئے ہم نے عدالتوں اور تھانوں کا دروازہ کٹکٹھایا، احتجاجی مظاہرے کیے، کراچی پریس کلب کے باہر تین دنوں تک بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے رہے لیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ ہمارے خاندان کے لئے یہ بات باعث تکلیف ہے کہ گھر کا ایک نوجوان فرد مہینوں سے لاپتہ ہے، آئے روز کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے ہمارا پورا خاندان ذہنی طور پر پریشان ہے، کہ کہیں شبیر بلوچ کی زندگی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شبیر بلوچ کی گمشدگی کی رپورٹ تربت پولیس تھانے میں درج کرنے کی کوشش کی، لیکن مقامی پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا، اس کے بعد ہم نے بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی، لیکن شبیر بلوچ کی گمشدگی کے بارے میں عدالتیں بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔انہوں نے اعلیٰ سرکاری ادارو ں سے مطالبہ کیا کہ وہ شبیر بلوچ کی بازیابی میں کردار ادا کریں۔ اگر شبیر بلوچ قابلِ اعتراض سرگرمیوں کا حصہ رہا ہے تو اس کے لئے انصاف کے ادارے موجود ہیں۔ شبیر بلوچ پر مقدمات قائم کرکے اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اس طرح ایک نوجوانوں کو اٹھانا اور مہینوں و سالوں لاپتہ کرنا انسانی آزادی اور زندگی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ میڈیا کے نمائندے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانیت کا درد محسوس کرنے والے حضرات قومیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر شبیر بلوچ کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ اگر ایک بے گناہ نوجوان کی گمشدگی پر انسانیت کے نام لیوا ادارے و شخصیات خاموش بیٹھیں گے تو اُن کا یہ عمل نہ صرف اِن اداروں کی ساکھ کے لئے باعثِ نقصان ہوگا، بلکہ اُن تمام خاندانوں کا بھروسہ بھی ان اداروں سے اٹھ جائے گا جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے آواز اٹھانے کی امید مذکورہ اداروں پر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز