ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومآرٹیکلزشہید سنگر یار جاوید جان۔ تحریر:دلجان بلوچ

شہید سنگر یار جاوید جان۔ تحریر:دلجان بلوچ

2010 ایک انجانا سا چہرہ معلوم نہیں سنگت امیر جان نے کہاں سے ڈھونڈ کے لایا تھا وہ کہتے ہیں نا سونے کی پہچان سونار کو ہوتی ہے۔ بدن پر کالے کپڑے، کاندھے پر سندھی اجرک، بھورے بال، چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک، ابھی لڑک پن سے جوانی میں قدم رکھا ہوگا۔ اور ابھی ہی اپنے قڈ کاٹ سے بڑی زمہ داری لے کر مادر وطن کی آجوئی کی راہ میں نکل پڑا۔
ٹریننگ شروع کی تواس دوران سب میں گھل مل گیا۔ ابھی ایک ہفتہ مشکل سے گزرا ہوگا کہ ہر محفل میں ہنستے ہنساتے شیخ ( جاوید) سنگت نظر آنے لگا۔ بہت کم لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ کم وقت میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھ کر اس میں ڈھل جاتے ہیں۔ اور اپ سوچتے رہتے ھیں کہ یہ انسان کئی سالوں سے ہمارے درمیان موجود ہے۔شیخ بھی انہی لوگو میں سے تھا۔ جو بہت کم وقت میں سب کے ساتھ گھل مل گیا۔ اور کام پر لگ گیا. ٹریننگ کہ دوران ہی یہاں رہنے سہنے اور اٹھنے بیٹھنے و کام کا ہنر سیکھ لیا تھا۔
ٹرننگ مکمل کرنے کہ بعدخضدار میں اپنی زمہ داریاں نبھانے میں لگ گیا. ہر وقت دوستوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ہر کام میں خود کا حصہ ڈالتا رہا۔ مشکل و مصیبت گھٹن ہر وقت اپنے مشن کو مکمل کرنے کے تاک میں لگا رہتا. جس طرح دشمن نے اپنے چال بدلے تھے۔ ان کہ درمیان رہے کر شیخ و اسکے سنگت اپنے حکمت عملی کو مضبوط بنا کر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے .
وقت گزرتا گیا. مشکلیں بڑھتی گئیں۔ پھر وہ دن آ پہنچا جب شیخ کو شہر چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا. شہید سنگت امیر کے بلانے پر شیخ نے دوستوں کے فیصلے کو قبول کرکے سخت دشوار پہاڑوں کی طرف چل پڑا.
بعد میں آیا دیکھا سوچا سمجھا سب کام کرکے بہت آگے کی صفوں میں نظر آنے لگا۔ ہر کام میں پیش پیش رہنے والا کبھی تکھن کا شکار نہیں ہوا۔
شیخ گشت پے جانا ہے۔
شیخ موٹرسائکلوں کو بنانا ہے۔
شیخ دوست کو لانا لیجانا ہے۔
شیخ قلات میں کام کی ضرورت ہے۔
شیخ حب چوکی میں تیری ضرورت ہے۔
شیخ سوراب بھی آپ کو جانا ہے۔
ہر وقت تیار رہتا۔ قلات کے انجان شہر میں خود جاکر کمان سنبھالنا، دوستوں کو سنبھالنا، کام کرنا، راتوں کو سفر کرکے سامان لیجانا، ہر موقع پر دوستوں سے مشورہ کرنا، یہاں کچھ وقت انتظار کرنا حکمت عملی کے تحت کام روکنا ہوتا تو حب چلے جاتے۔ وہاں اپنے جہد کو جاری رکھا.
کبھی گھر جانے کی خواہش تک نہ کی کہ کہیں دشمن کی نظر میں نہ آجاؤں۔ بس سفر میں زندگی گزارتے رہے. سنگت شیخ نے زندگی ہی اسی سفر کو بنایا تھا۔ تب ہی تو کبھی افسردہ نہیں دیکھے گئے. کبھی شکایت نہیں کی۔ بس شرارت کرتے مسکراتے مزاق کرتے دوستوں کی دیوان میں دکھائی دیتے رہے.
جاوید تم کچھ کہے بنا کسی عضر کے ہر کام میں مگن رہے۔ کبھی تو انکار کرتے کبھی تو کہتے تھک گیا ھوں کھبی تو کہتے کے مجھ سے نہیں ھو سکتا تو آج تمھارے جانے کا اتنا دکھ نہیں ھوتا۔ یہ سوچتا کہ دوست تھا کچھ کام کیا کچھ نہیں.آیا اور چلا گیا۔ مگر تم میں ایسی ایک بھی کمزوری نہیں کہ میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں۔ کم سے کم کسی جنگی معاز پر جانے کے لیے تم اپنے ایک دو قدم پیچھے اٹھاتے کہ مجھے جانا نہیں۔ چاہیے وہ بھی تم نے نہیں کیا.
ھژدھ خول ہو یا منجرو لجے ہو یا سنگر کی زمہ داریاں قلات کی سرد راتیں ہو یاحب کی جھلسا دینے والی گرمی 7 اپریل کی ہیلی بور خونی اپریشن ہو یا 16 فروی کے اپریشن کبھی کسی موقع پر تم ذ را بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ پھر آج کیوں تمہارے جانے پر نہ رو دوں۔ آج تمہارے جانے پر کیوں قلات افسردہ نہ ہو۔ آج تمہارے جدا ھونے پر چنال وال آنسو کیوں نہ بھا دے۔ اتنی جلدی جانا تھا پھر اتنا اچھا کیونکر بنے۔کہ ہر ایک کو تمہاری جدائی کا غم سہنا پڑے۔کچھ لمحے تو رک جاتے ابھی تو بہت کام تھا۔ ابھی تو آئے تھے۔ اجرک کاندھوں پر مسکرائے اور ابھی چل دیئے۔ اسے بیرک بناکے۔ ابھی تو قلات تمہاری راہ تک رہا تھا۔ ابھی تو حب میں دشمن طاقت کے گھمنڈ میں ہے۔ ابھی تو خضدار تمھاری واپسی کا منتظر ہے.شیخ ابھی تو نہیں جانا تھا ۔ابھی تو عرفان چلا گیا تھا۔ شعیب بھی ساتھ تھا۔ خالد بھی چلا گیا.
شیخ تم زندہ ہوتے تو اور مشکلیں اٹھاتے۔ اور سختیاں دیکھتے۔ اس کم عمری میں تم ہار نہیں مانتے۔ ہر لمحہ امتحان سے گرزرنے کا لمحہ ہوتا۔ خواری کاٹتے۔ سفر میں پیاس برداشت کرتے۔ سنگر پر رات رات پہرے دیتے۔
مگر تم نے خود کو ثابت کر ہی دیا۔ تم کھڑے تھے سب کے ساتھ کھڑے رہے۔ ہر اول دستے میں اس آخری کالی رات تک جب درد کی اچانک شدت اور علاج کی کمی نے آپ کو ہم سے جدا نہیں کیا.
تم ہر مشکل سے گزر کر وطن پر قربان ہو چلے۔ جس راہ کا چناو تم نے جس ایمانداری سے کیا تھا اسکی گواہی تمارے عمل کا ہر پہلو بیان کر رہا ہے کہ تم نے آخری سانس تک خود کو ثابت کرکے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ امر ہوگئے.
شیخ تمہیں معلوم ہے۔ ابھی تو سورجائی کا تیرا سنگر
اداس ہے۔ اسے پتہ چلا ہے کہ تم اس سے دور چلے گئے ہو۔ اب وہ اپنے قریب سے راہ گزرتے بہت سو کو دیکھے گا۔ لیکن جس کی وجہ سے سورجائی کی اس چوٹی کو سنگر نام ملا اب وہ سنگر اپنے سنگر یار کو دیکھ نہیں سکھے گا.
اب اسے اگر دیکھنا ہیں اپنے سنگر یار کو تو وہ خود چلا آئے سنگر یار آج سنگت امیر کے پہلو میں آسودہ خاک سو رہا ہے. اسی پارود کے پہاڑوں میں جنہیں اس نے اپنے گھر کے بعد اپنا مسکن بنا رکھا تھا.جن میں سختی سوری بھوک بیماری خواری ہنسی خوشی دکھ درد سب کچھ اپنے قوم کی خاطر برداشت کرکے انہیں اپنے سینے میں خود سمیت پارود کے پہاڑوں میں دفنا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گمنامی کی زندگی سے سرخ روح ہوکر نکلا.پہاڑوں کو بھی رشک آتا ہوگا۔ ایسے جوانوں کو اپنے کوک میں پالتے ہوئے۔ جو اپنے قد اپنی بساط سے بڑھ کر درد اتنے چھوٹے سینے میں کیسے پال کر کبھی اُف تک نہیں کرتے. میرا سنگر یار میرا جاوید میرا شیخ اس عمر میں اتنے کم سمے میں کتنا کچھ کر گزرا کتنا کچھ بدل کر چلا گیا۔جس کے ساتھ آیا تھا۔ اسی کہ پہلو میں ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے جا سو لیا.
یہ بھی پڑھیں

فیچرز