پیر, مئی 20, 2024
ہومآرٹیکلزقوتِ فیصلہ تحریر : دلجان بلوچ

قوتِ فیصلہ تحریر : دلجان بلوچ

رات کے چار بجے اِسے ایک سنگت نے نیند سے جگاتے ہوئے کہا ، ’’سنگت اٹھو تمہاری ڈیوٹی کا وقت ہے۔‘‘وہ بڑی مشکل سے اپنی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہوا پھر اپنی بندوق ،جاٹھا اور پانی کی کیتلی لیکر اپنے مورچے کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کا ایک سنگت اس سے پہلے ڈیوٹی پر موجود تھا۔رات کو کافی بارش ہوئی تھی اور سرما کی راتیں ویسے ہی بہت طویل ہوتی ہیں اس لیے اب بھی گْھپ اندھیرا تھا۔ اسے ٹارچ کی روشنی کے بغیر مورچے تک جانا تھا کیونکہ اس اندھیرے میں ٹارچ کا استعمال اپنا پتہ دینا تھا ،مورچہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا وہاں تک پہنچتے پہنچتے اسے پانچ بج گئے۔ مورچے پر پہنچ کر اپنے دوست سے ڈیوٹی کا چارج لیتے ہوئے اسے اجازت دے دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مشرق سے پھو پھٹنے لگ گئی۔ وہ اپنے بدن میں کافی درد محسوس کر رہا تھا کیونکہ گزشتہ پانچ دنوں سے وہ اور اس کے دوست دشمن کے خونی آپریشن کا مقابلہ کرتے ہوئے لڑ رہے تھے۔ دشمن ہیلی کاپٹروں اور جدید ہتھیاروں سے لیس تھا اور وہ کلاشنکوف اور چھوٹے ہتھیاروں سے دشمن کا مقابلہ بڑی دلیری سے کر رہے تھے۔ گزشتہ پانچ دنوں سے دشمن کے ساتھ جھڑپ دیتے اور نکل جاتے، پھر دوسری طرف ان کا سامنا دشمن سے ہوتا تو وہ پھر سے کمر بستہ ہو کر لڑتے اور گوریلا حکمت عملی کے تحت نکل جاتے۔ دشمن نے پہاڑی علاقے کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا اور تمام داخلی راستوں کو بند کیا ہوا تھا۔ پانچ دنوں کی جنگ کے دوران وہ صحیح طرح سے کچھ کھائے تھے نہ ہی ٹھیک طرح سے سوئے تھے۔ کیونکہ وہ آٹھ آٹھ کی ٹولیوں میں بٹ ہوئے تھے اور انہیں دن کے وقت موومنٹ کرنا ہوتا ، دن رات ڈیوٹی دینا ہوتا اور دشمن کا سامنا ہونے پر لڑنا اور اپنے دوستوں کو بحفاظت نکالنا بھی ہوتا۔ رات بھر بارش ہونے کی وجہ سے فضا کافی خوشگوار تھی لیکن گذشتہ دنوں سے دونوں طرف سے گولیاں اور دشمن کے دور مار توپوں کے گولوں کی وجہ سے فضا میں ہر طرف بارود کی بْو پھیلی ہوئی تھی۔
اس نے چاروں طرف دور بین سے علاقے کو کلیئر کر دیا۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ رات کو ہونے والی بارش اور تیز ہواؤں نے بھی دشمن کو واپسی پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ دور بین سے چاروں طرف جائزہ لینے سے فارغ ہوا تو آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ آسمان پر اب بھی کچھ کچھ بادل چھائے ہوئے تھے پْر فضا موسم دیکھ کر وہ اپنے ماضی میں چلا گیا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ جب وہ پہلی مرتبہ کوئٹہ جا رہا تھا وہ بھی اسی طرح سردیوں کے دن تھے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کوئٹہ میں اس موسم میں کتنی سردی ہوتی ہے کیونکہ وہ بلوچستان کے کسی گرم علاقے میں رہتا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ ایک نوکری کے سلسلے میں کوئٹہ جا رہا تھا۔ ساری رات بس میں سفر کرنے کے بعد جب وہ کوئٹہ پہنچا تو بس سے اترتے ہی اسے احساس ہوا کہ یہاں کتنی سردی ہوتی ہے اسے اپنے ساتھ جیکٹ لانا چاہیے تھا۔ وہ کافی پشیماں تھا، بس کی ٹکٹ لیتے وقت ٹکٹ دینے والے بس کے منشی نے کہا تھا کہ کوئٹہ جارہے ہو وہ بھی کسی جیکٹ وغیرہ کے بغیر؟ اس وقت اس نے منشی کی باتوں پر توجہ نہیں دی تھی لیکن اب اس کی کہی ہوئی بات اسے شدت سے یاد آ رہی تھی۔ بس سے اترنے کے بعد اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، وہ جلدی سے روڈ کراس کر کے سامنے والے ہوٹل میں داخل ہوا، ہوٹل میں داخل ہوتے ہی اسے گرمائش کا احساس ہونے لگا کیونکہ ہوٹل میں ہیٹر جل رہے تھے. اس نے اپنے لیے چائے پراٹھے کا آرڈر دیا اور ٹیبل کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گیا، اور ادھر اْدھر دیکھنے لگا سب لوگ سردی سے بچنے کے لیے کوٹ اور دستانے پہنے ہوئے تھے سوائے اس کے۔ وہ اب بھی سردی سے کانپ رہا تھا ناشتہ کرنے کے بعد آدھا گھنٹہ وہیں بیٹھا رہا لیکن اسے نکلنا بھی تھا جہاں اس کی انٹری ٹیسٹ ہونی تھی اس جگہ کا پتہ معلوم بھی کرنا تھا۔ وہ جیسے ہی ہوٹل سے نکلا تو سردی نے ایک مرتبہ پھر اسے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ وہ چند قدم بمشکل چل سکا تھا کہ سردی سے اسکے پاؤں شل ہونے لگے. وہ جلدی سے ادھر اْدھر دیکھنے لگا۔ نزدیک ہی اسے ایک اور ہوٹل نظر آیا. ہوٹل میں جانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا. وہ جلدی سے ہوٹل میں گھس گیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ بیٹھنے کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ویٹر اس کے قریب آیا اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا’’ لالا سندھی ہو؟ ‘‘۔’’ نہیں بلوچ ہوں کیوں؟‘‘ اس نے لرزتی آواز میں جواب دیا۔ ویٹر نے کہا’’ نہیں ویسے آپ نے نا کوٹ پہنا ہے اور نا ہی کوئی جرسی میں سمجھا آپ سندھی ہو کیونکہ سندھ میں اس موسم میں بھی گرمی ہوتی ہے اکثر سندھ کے لوگ کوئٹہ آ کر یہی غلطی کرتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ سندھ میں گرمی ہے تو کوئٹہ میں اتنی سردی نہیں ہوگی اور یہاں آتے ہی آپ کی طرح کانپنے لگتے ہیں،چلو خیر آپ کیا لینا پسند کرو گے ‘‘۔’’ ایک کپ چائے ‘‘۔ اس نے کہا۔ دوبارہ سے چائے پی تو اسکے جسم میں تھوڑی حرارت پیدا ہوگئی، جیسے ہی گھڑی پر نظر پڑی تو آٹھ بج رہے تھے، وہ ہوٹل سے نکلا اور سردی سے کانپتے ہوئے رکشے والے سے بات کی رکشے والے نے کچھ زیادہ پیسے بتائے کیونکہ اسے جہاں جانا تھا وہاں تک اتنا کرایہ نہیں بنتا تھا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اسے جہاں جانا ہے وہ جگہ کتنی دور ہے۔ وہ رکشے میں بیٹھ گیا اور رکشہ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا اسے عسکری پارک کے قریب آئی ایس ایس بی سینٹر کے سامنے روڈ پر اتار دیا۔ رکشے والے کو کرایہ ادا کر کے وہ آئی ایس ایس بی سینٹر کی جانب روانہ ہوا۔ گیٹ پر اس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور اپنا شناختی کارڈ و کال لیٹر دکھا کر اندر داخل ہوا۔
اس نے دیکھا کہ اس سے پہلے بھی کافی لڑکے سینٹر آئے ہوئے تھے۔ چائے پلانے کے تھوڑی دیر بعد ان کو نمبر ایشوکیئے گئے اور ایک بڑے سے ہال میں داخل ہونے کو کہا گیا۔آج سیکنڈ لیفٹیننٹ کے لیے ان کا انٹری ٹیسٹ ہونا تھا۔ ہال میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنا رول نمبر والا ڈیسک ڈھونڈنے لگا جو اسے جلد ہی نظر آگیا اور وہ وہیں بیٹھ گیا، بیٹھنے کے بعد ہال میں ادھر اْدھر نظر دوڑائی تو اسے اکثر پنجابی، پشتون اور دیگر زبانیں بولنے والے لڑکے نظر آئے۔ اب تک اسے چند ایک بلوچ ہی نظر آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں کوئسچن پیپر دیئے گئے جو کہ ایک ساتھ مختلف مضامین کے تھے۔ وہ پیپر کو غور سے پڑھنے لگا بہت سے سوال اس کے لیے انتہائی آسان تھے کیونکہ زیادہ تر ٹک مارک کرنے والے تھے اور وہ ویسے بھی اپنی کلاس میں اچھا اسٹوڈنٹ تھا اور علاقے میں ہونہار لڑکوں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان میں سب سے لائق بھی وہی تصور کیا جاتا تھا۔ کھیل کود کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیم پر بھی زیادہ توجہ دیتا، لیکن اپنے باقی دوستوں اور کزنوں کی طرح آوارہ گردی نہیں کرتا۔ اس نے مقررہ وقت سے پہلے تمام سوالوں کو حل کر کے اپنا پیپر واپس جمع کردیا اور باہر نکل گیا۔دوسرے بہت سے لڑکے بھی باہر نکل گئے ہر کوئی اپنے جاننے والے سے پوچھ رہا تھا کہ اس نے ٹیسٹ کیسے دیا،وہ یہی کچھ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان اس کے پاس آیا سلام دعا کے بعد پوچھتے ہوئے کہا ’’ بلوچ ہو؟‘‘ اس نے اپنا نام ذاکر بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ جی ہاں میں بلوچ ہوں‘‘ پھر اس نے مخاطب سے اس کا تعارف پوچھا۔ ’’ میرا نام انیس ہے اور میں مستونگ کا رہنے والا ہوں اس نوجوان نے جواب دیا’’ کیسی رہی ٹیسٹ؟ ‘‘ ، ’’دوست تمام سوال حل کر دیے اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘۔ باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں گیٹ تک آ گئے۔ ایک رکشہ لیکر بازار پہنچ گئے. دونوں نے ایک ہوٹل میں چائے پی اور ایک دوسرے سے اپنے مبائل نمبروں کا تبادلہ کیا. اس نے انیس سے کہا کہ مجھے بلوچستان یونیورسٹی جانا ہے۔ انیس نے کہا پھر چلو لوکل بس میں چلتے ہیں، تم یونیورسٹی اتر جانا میں آگے چلا جاؤں گا۔ دونوں سریاب کی لوکل بس میں سوار ہو کر روانہ ہوئے، تھوڑی دیر بعد یونیورسٹی کا گیٹ پہنچ گیا، وہ انیس سے خدا حافظ کہہ کر لوکل سے اتر گیا اور اپنے دوست علی کو کال کی جو یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔
تھوڑی دیر انتظار کے بعد علی گیٹ پر آ کر اسے ہاسٹل لے گیا۔ علی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے جلدی سے ایک کمبل اوڑھتے ہوئے کہا ’’یار یہ کوئٹہ کتنا سرد ہوتا ہے‘‘۔ ’’یار ابھی تک کہاں ہیں سردیاں‘‘ علی نے ہنستے ہوئے کہا،’’ سردی تو جنوری فروری میں ہوتی ہے۔ علی نے اس کے لیے چائے بنائی اور دونوں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔ وہ علی کے کمرے کے دیواروں کو دیکھنے لگا جن پر مختلف تصویریں چسپاں تھیں۔ اکثر تصویروں کے نام سے پہلے شہید یا اسیر لکھا ہوا تھا. اس نے علی سے پوچھتے ہوئے کہا یار یہ تصویریں تم نے کیوں لگائی ہیں؟ کیوں یہ تصویریں مجھے نہیں لگانی چاہیے تھیں؟ علی نے استفسار کیا۔ ہاں یار میں بھی یہی پوچھ رہا ہوں کہ ان تصویروں کو کیوں لگائے ہوئے ہو اور یہاں تم کسی تنظیم میں تو شامل نہیں ہو؟ ہاں میں بی ایس او کا ممبر ہوں علی نے جواب دیتے ہوئے کہا۔اس نے کہا چھوڑو یار ان تنظیموں کے قریب کب سے ہوئے اور ان تصویروں کو چسپاں کر کے تم کیا دکھانا چاہتے ہو. تم غلام ہو؟ علی نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ہاں یار میں تو یہی سمجھتا ہوں شاید تم نہیں سمجھتے اس لیے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دے کر آئے ہو اور اس گھمنڈ میں ہو کہ فوج میں بھرتی ہو کر اپنے ملک و قوم کی خدمت کروگے۔ ہاں یہی میری سوچ ہے اس نے کہا۔ علی نے سوالیہ لہجے میں اسے پوچھا، اچھا پھر تم بھی ہمارے اوپر ظلم کرو گے ان نوجوانوں کی طرح تم بھی ہم میں سے کچھ کو شہید کرو گے۔ اب بحث بہت زوروں سے جاری تھی یہاں تک کہ علی اس پر ایک دو مرتبہ جذباتی بھی ہوا۔ آخر علی نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا کیونکہ ذاکر جیسا بھی تھا اس کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا مہمان بھی تھا۔رات کے آٹھ بج گئے تھے علی نے اپنی الماری سے ایک پرانی کوٹ نکال کر ذاکر کو دی اور کہا چلو کھانا کھانے کے لیے میس چلتے ہیں۔ دونوں کمرے سے نکل کر میس کی طرف روانہ ہوئے راستے میں جو بھی علی کو دیکھتا تو کہتا "کامریڈ چے حال اے" دونوں میس پہنچے کھانا لیا اور بیٹھ کر کھانے لگے. کھانے سے فارغ ہو کر علی نے سگریٹ نکالتے ہوئے اسے پینے کی آفر کی تو اس نے منع کر دیا، پھر دونوں میس سے باہر نکل گئے۔ ابھی باہر نکلے ہی تھے کہ ایک نوجوان نے علی کو دیکھا اور کہا کامریڈ آج ہمارے کمرے میں کسی دوسرے زون سے چند دوست آئے ہیں چلو وہیں پر چلتے ہیں۔ علی نے کہا چلو چلتے ہیں، پھر تینوں روانہ ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے ایک پرانے دوست کو دیکھا، اس کے ساتھ گرم جوشی کے ساتھ ملا۔ سب بیٹھ گئے حال احوال کے بعد مجلس شروع ہوئی پھر رات دیر تک ان کی یہ سیاسی بحث چلتی رہی، جبکہ وہ اپنے دوست کے ساتھ باتیں کر رہا تھا وہ اور اس کا دوست پرائمری تک ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھے تھے اور کافی اچھے دوست تھے. اس کے بعد اس کا یہ دوست پنجگور چلا گیا آج کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو وہ بہت سی پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے محظوظ ہو رہے تھے ۔ باتوں باتوں میں اسے معلوم ہوا کہ اس کا دوست بھی بی ایس او کا ممبر ہے، رات کافی گزر چکی تھی وہ اٹھ گئے اور دوستوں سے خدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل کر علی کے کمرے کی جانب روانہ ہوئے . راستے میں وہ سوچ رہا تھا اگر اس کا دوست وہاں نہ ہوتا اور اس کے ساتھ مجلس نہ کرتا تو وہ علی اور اس کے دوستوں کی باتوں سے بہت بور ہو جاتا، وہ دونوں کمرے میں پہنچ کر سونے کی تیاری کرنے لگے۔
علی نے پھر سے پوچھا ’’ یار واقعی تم فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہو؟‘‘ ذاکر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دریافت کی کیوں ؟ ۔علی نے کہا یار تمہارے مارکس اچھے ہیں تم کسی اور محکمے میں نوکری کیوں نہیں ڈھونڈتے۔ بہتر ہے تم کوئی اور نوکری تلاش کرو۔ یہ پنجابی فوج میں بھرتی ہونے کا خیال دل سے نکال دو ۔ شاید آپ کو میری باتیں اچھی نہ لگیں لیکن حقیقت میں یہ ہماری دشمن فوج ہے اور آپ ایک کرائے کے قاتل کی حیثیت سے بھرتی ہونے جا رہے ہو۔ اس نے کہا نہیں یار باقی محکموں میں نوکری کہاں ملتی ہے وہاں تو نوکری بڑے لوگوں کی سفارش پر ملتی ہے یا پھر آدمی کے پاس بڑی رقم ہونی چاہیے۔ اور تم جانتے ہو میرے لیے کون سفارش کرے گا. علی نے کہا دوست آج ان حالات کو دیکھنے کے بعد سوچنا چاہیے کہ تمھیں فوج جانا چاہئے کہ نہیں. اور ہاں یہ بتاؤ میرے ساتھ اور کتنا رہو گے؟ بس دو دن کے بعد چلا جاؤں گا اس نے جواب دیا۔علی نے کہا یار ایک ہفتہ رک جاؤ پھر چلے جانا۔ نہیں یار اس دفعہ جاتا ہوں اگر ابتدائی ٹیسٹ پاس ہوئی تو انٹرویو کے لئے جب آؤں گا تو ایک ہفتہ رکوں گا لیکن اِس دفعہ نہیں۔ رات کو وہ سو گئے اور صبح دیر سے اٹھ گئے تھوڑی دیر بعد اس کے دوست نے اسے کال کیا اور پوچھا کہاں ہو۔اس نے جواب دیا کہ وہ علی کے کمرے میں ہے۔ دوست نے کہا ٹھیک ہے میں وہیں آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دوست آیا دونوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ علی نے اس کے دوست سے کہا یار اپنے دوست کو سمجھاؤ یہ پنجابی فوج میں بھرتی ہونے آیا ہے میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری باتیں اس کے دماغ میں نہیں گھستی ہیں۔ اس دوست نے بھی اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی یار یہ کیا کر رہے ہو مت جاؤ دشمن فوج میں لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا. خیر دو دن بعد وہ اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوا۔ علی کو خدا حافظ کہہ کر وہ بس میں بیٹھ گیا اور بس روانہ ہوئی۔
ابھی بس لک پاس ٹنل سے گزری نا تھی کہ اسے بریک لگانی پڑی۔ ڈرائیور نے تمام مسافروں کو اترنے کو کہا، اس نے بس کے اگلے شیشے سے باہر دیکھا تو فورس کی بہت سی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں،وہ سب جیسے ہی اترنے کے لیے اٹھے تو فورس کے چند اہلکار بس میں داخل ہوئے اور سب کو واپس بیٹھنے کا حکم جاری کیا۔ پھر باری باری سب کے چہروں کو دیکھنے لگے۔ ایک اہلکار تھوڑا آگے بڑھا اور بیچ والی سیٹ سے ایک نوجوان کو کالر سے پکڑ کر اسے کھڑا کردیا اور اس کا نام پتہ پوچھنے لگا ۔اس نوجوان کے ساتھ ایک خاتون اور دو بچے بھی تھے۔ جیسے ہی اس نے اپنا نام اور پتہ بتایا تو اہلکار نے اسے مارنا اور گالی دینا شروع کر دیا۔ بچے خوف کی وجہ سے رونے لگے اور خاتون بھی رونے لگی۔ وہ نوجوان شاید اس کا شوہر تھا، اس نے اپنے شوہر کو اہلکاروں سے چھڑانے کی کوشش شروع کردی تو دوسرے سپاہیوں نے عورت کے سر پر بندوق کا بٹ دے مارا۔ عورت کے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ پہلے والا سپاہی اب بھی اس نوجوان پر مکّے برسا رہا تھا اور اسے گالیاں بھی دے رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا بڑے کمانڈر بنے پھرتے ہو دہشت گرد کی اولاد تمھارا باپ بھی بلوچستان کو پاکستان سے جدا نہیں کر سکتا۔ اس نوجوان کو مار مار کر لہو لہان کردیا اور بس سے اتار کر گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ وہ عورت اور بچے ابھی تک رو رہے تھے. فورسس کے جانے کے بعد عورت گلوگیر انداز میں بس میں موجود مرد مسافروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تم لوگوں میں کوئی بلوچی غیرت نہیں تھا کہ وہ دری سپاہی آکر میرے شوہر کو لے گئے اور تم سب دیکھتے رہ گئے ۔ میرا شوہر کوئی چور یا ڈاکو نہیں بلکہ وہ تم لوگوں کے کل کو بہتر کرنے کی خاطر دشمن کی گالیاں اور لاتیں برداشت کر رہا تھا، لیکن تم سب اسے مار کھاتے دیکھتے رہے ،عورت انھیں سنا رہی تھی اور سب لوگ خاموش تھے۔ ان میں ذاکر بھی تمام لوگوں کی طرح سر جھکائے خاموشی سے بس کی فرش کو تک رہا تھا، وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا. سفر جاری تھا کچھ دوسری عورتیں اس عورت اور اسکے بچوں کو تسلی دے رہے تھے۔ جب ذاکرکا علاقہ پہنچ گیا تو وہ بس سے اتر کر گھر چلا گیا۔
دو دن بعد اس نے بس میں ہونے والے واقعے کو بھلا دیا، اب وہ اپنے انٹرویو لیٹر کے انتظار میں تھا اس دوران اس کا رابطہ اپنے پرانے دوست سے فون پر رہتا تھا۔ پندرہ دن بعد اس کے ایڈریس پر انٹرویو کا لیٹر بھی پہنچ گیا۔ اب دو دن بعد پھر اسے کوئٹہ جانا تھا لیکن اس نے سوچا کہ اس بار پہلے کی طرح وہ نہیں جائے گا، وہ بازار گیا اپنے لیے بوٹ اور جیکٹ خریدلیا۔ خریداری کے بعد وہ ایک ہوٹل میں چائے پینے کے لیے چلا گیا اور چائے کا آرڈر دیا ، اس نے دیکھا دوسرے نزدیکی ٹیبل پر چار نوجوان بیٹھے ہوئے تھے اور بڑی زور و شور سے ان کے درمیان سیاسی بحث جاری تھی ، وہ چائے پی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر پڑی کہ ہوٹل کے باہر سامنے فورسز کی کئی گاڑیاں آکر رک گئیں۔ گاڑیوں سے فوج کے اہلکار اترنے لگے اور ہوٹل کو گھیرے میں لے لیا، کچھ اہلکار ہوٹل میں داخل ہو گئے اور ہوٹل میں موجود تمام لوگوں کی چیکنگ شروع کر دی۔ ایک اہلکار نے اس کی بھی تلاشی لی، جب اس نے بات کرنے کی کوشش کی تو اسے ایک فوجی اہلکار نے زور سے تھپڑ رسید کیا باقی اہلکاروں نے ان دیگر نوجوانوں کی تلاشی لی اور انھیں مارنا شروع کر دیا۔ ان کو مارنے اور قابو کرنے کے لیے چند اہلکار اور بھی آگے آ گئے۔ ان نوجوانوں کو مارتے ہوئے پھر سے وہی گالیاں اور باتیں شروع کیں کہ تم پاکستان کو توڑنا چاہتے ہو، انھیں گاڑیوں میں ڈال کر روانہ ہوئے۔ وہ تھپڑ کھانے کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوا اور پورے راستے میں اسے سفر کے دوران بس میں ہونے والے واقعے اور ہوٹل میں ہونی والی باتیں یاد آ نے لگیں، اسے ایسے لگنے لگا کہ وہ بچے آج بھی رو رہے ہیں۔ اب علی اور اس کے دوست کی باتیں اسے شدت سے یاد آ رہی تھیں۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ گھر کیسے پہنچ گیا. پورا دن یہی دونوں واقعات اس کے زہن میں گھوم رہے تھے۔ رات کو والدہ نے کہا بیٹا سو جاؤ صبح تمھیں انٹرویو کے لیے کوئٹہ جانا ہے، میں صبح اٹھ کر تمھارے لیے دعا کروں گی کہ خدا تمہیں انٹرویو میں کامیاب کرے اور تمھیں نوکری مل جائے۔
کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹ گیا لیکن نیند تھی کہ اسکی آنکھوں سے کوسوں دور چلی گئی تھی. وہ اپنا انٹرویو لیٹر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ وہ جس نوکری کے لیے جس خوشی سے ٹیسٹ دے کر آیا تھا اب انٹرویو لیٹر کو دیکھ کر اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ یہ نوکری کرے۔ پتہ نہیں رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔صبح جب اس کی والدہ نے اسے جگایا تو رات دیر سے سونے کی وجہ سے وہ بڑی مشکل سے اٹھ سکا۔ غسل کر کے ناشتہ کیا اور جانے کے لیے تیار ہو گیا، اس کا دل جانے کے لئے نہیں چاہ رہا تھا لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ والدہ کو کیا جواب دوں گا کہ میں انٹرویو کے لیے کیوں نہیں جا رہا ہوں۔ اس نے بادل نخواستہ اپنا بیگ اٹھایا تو ماں نے بہت سی نیک دعائیں دینی شروع کی۔ اللہ تمھیں کامیاب کرے اور تم ایک بڑا افسر بن کر لوٹو۔ گھر سے نکل کر رکشے میں بیٹھ گیا اور بازار میں اتر کر بس کے روانگی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بس بھی روانہ ہوگیا، راستے میں جو شہر یا کوئی گاؤں آتا تو اسے فورسزکی چوکیاں نظر آتیں، حالانکہ یہ چوکیاں پہلے بھی موجود تھیں لیکن اس سے پہلے وہ اپنے دل میں ان کے خلاف اتنی نفرت محسوس نہیں کرتا تھا۔ آج جس چوکی کو دیکھتا یا کوئی فورس کی گاڑی اسے نظر آتی تو اسے وہ عورت کی چیخیں ان بچوں کا بلکنا اور وہ نوجوان یاد آتے اور ساتھ ساتھ اسے اپنی بے عزتی کا وہ تھپڑ بھی یاد آتا۔ کوئٹہ پہنچنے کے بعد وہ سیدھا علی کے پاس آیا کیونکہ اس کا انٹرویو تین دن بعد تھا،رات کو وہ علی کے پاس رہا تو وہ دونوں واقعات علی کو سنائے۔ علی نے کہا دوست بلوچستان کے کونے کونے میں ایسے سینکڑوں واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں، رات دیر تک وہ اسی موضوع پر باتیں کرتے رہے اور سو گئے۔ دوسرے دن علی نے پوچھا یار تمھارا انٹرویو کب ہے۔ اس نے کہا دو دن بعد، علی نے پھر سے وہی سوال دہراتے ہوئے کہا تو تم سچ مچ فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ضرور میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں لیکن ضروری نہیں میں پنجابی کے فوج میں بھرتی ہو جاؤں۔ علی نے پھر سے حیران ہو کر پوچھا پھر کس فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہو؟ اس نے کہا اپنی فوج میں، بلوچوں کی فوج میں بی ایل اے میں۔اس نے مزید زور دیتے ہوئے کہا اس کے لیے تمھیں میرے اوپر بھروسہ کرنا ہوگا، میرے لیے راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ میں انٹرویو دینا نہیں چاہتا اور گھر بھی نہیں جانا چاہتاکیونکہ میں اگر گھر گیا تو مجھے بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یار تم ڈھونڈو اور مجھے بی ایل اے کیمپ روانہ کرنے میں میری مدد کرو وہ مسلسل بولے جا رہا تھا، علی نے راز دارانہ انداز میں کہا کہ یار میں کسی کو نہیں جانتا۔اس نے علی سے کہا جو کرنا ہے تمھیں کرنا ہے میں واپس گھر نہیں جاؤں گا۔ علی نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا۔دوسرے دن اس کا انٹرویو تھا لیکن وہ نہیں گیا اس نے اپنا انٹرویو لیٹر علی کے سامنے پھاڑتے ہوئے کہا میں یہاں سے تب تک نہیں جاؤں گا جب تک تم میرے لیے بی ایل اے تک کا راستہ نہیں ڈھونڈتے۔ علی نے بہت سمجھایا یار میں کسی کو نہیں جانتا، اس نے کہا میں یہیں تمھارے ساتھ رہ کر انتظار کروں گا اور کہیں نہیں جاؤں گا۔
اسے علی کے ہاں رہتے ہوئے دس دن گزر گئے تھے، گھر سے بھی بار بار فون آ رہے تھے اور ہر بار اس سے یہی سوال ہوتا کہ انٹرویو کیسے دیا اور گھر کب آ رہے ہو، وہ گھر والوں کو ٹالتا رہا کہ کہ جلد گھر آؤں گا۔ گیارہویں دن علی پڑھنے کے بعد واپس آیا تو علی کے ساتھ اس کا دوست بھی تھا۔ اس نے دوست کے ساتھ سلام دعا کے بعد بیٹھ کر باتیں شروع کیں، باتوں باتوں میں اس کے دوست نے کہا یار علی کہہ رہا تھا کہ تم انٹرویو دینے نہیں گئے ہو اور کہہ رہے ہو کہ مجھے بی ایل اے میں شامل ہونا ہے۔ اس نے کہا ہاں بالکل، پھر وہ اس موضوع پر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اسے بتایا گیا کہ سنگت یہ سفر بہت لمبا ہے اس میں سوچ سمجھ کر قدم رکھنا پڑتا ہے اور زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ آپ ایسے جذباتی پن میں نہیں کر سکتے ،جذبات سے تو بندہ کچھ دن سفر کر سکتا ہے اس میں مستقل مزاجی نا ہو تو وہ ٹوٹ جاتا ہے تھک جاتا ہے. انسان کو کسی بھی حالت میں کیفیت کا شکار نہیں ہونا چاہیے یوں تو انسان کے احساس کو جگانے کے لیے ایک واقعہ ہی کافی ہے لیکن پھر بھی آپ کو ہر پہلو پر غور کرنا ہوگا. یہ جنگ ہے اس میں کسی بھی قدم پر کچھ بھی ہو سکتا ہے، گھر تباہ ہوتے ہیں اپنے پیارے بچھڑتے ہیں اور ان سپنوں کے بکھرنے کا خطرہ ہوتا ہے جو ہم نے اپنی اپنی دنیاؤں میں بُنے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر دلعزیز سنگت بچھڑتے ہیں جنھیں ہم خود اپنے ہاتھوں سے کاندھا دے کر اٹھاتے ہیں اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفن کرتے ہیں اسی غم اور انتقام کے ساتھ پھر سے ایک جنگ کا آغاز کرتے ہیں. یہاں نام و نمود، شہرت، دستار، کمانڈری، لیڈری کی غرض و لالچ سے بیگانہ ہو کر ہر ہر قدم پر بے غرض بے لوث خدمت و جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت تم جذباتی ہو جبکہ یہ کام جوش سے نہیں ہوش سے کیا جاتا ہے ۔ اس نے کہا نہیں یار میں جذباتی نہیں ہوں میں نے بہت سوچا ہے میں جو قدم اٹھانے جا رہا ہوں وہ بہت سوچ سمجھ کر اٹھا رہا ہوں اور آج مجھے اچھی طرح میری قومی غلامی کا احساس ہے کاش اگر ہم پہلے ملے ہوتے تو آج آپ دونوں کو یوں بار بار یقین دہانی کی نوبت نہیں آتی وہ بولے جا رہا تھا اور اس کی سرخ آنکھوں سے آنسو جاری تھے، جو اس کے زرد رخساروں سے بہہ کر دھار بنارہے تھے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا دوست کیا ہم ایک قوم ایک سرزمین کی کوکھ سے جنم لیکر بھی پھر سے کسی ایک خاندان یا ذات میں قید ہو سکتے ہیں؟۔ کیا اپنوں سے بچھڑنے والا یا اپنی آنکھوں سے اپنے سپنے بکھرتے دیکھنے والا پہلا بلوچ میں ہی ہوں؟ اگر کسی ہردلعزیز کی جدائی مجھے تار تار کر دیگی تو کیا کسی سنگت کا میرے لیے تڑپنا میری زیست کا سامان نہ ہوگا؟ کیا کسی بے بس انسان کو جو اپنی ماں بہنوں کی آنسو دیکھ کر احساس پا لیتا ہے پھر سے اسی بے بسی میں تڑپتے رہنے دو گے؟ یہ باتیں سن کر اس کے دونوں دوست لاجواب ہو کر رہ گئے۔ اب ہر طرف خاموشی سی چھائی ہوئی تھی. چند لمحے بعد اس کے دوستوں نے کہا چلو بازار چلتے ہیں،لیکن اس نے اپنے دوستوں کو منع کرتے ہوئے کہا دوست آج مجھے اکیلے رہنے دو میں آج خود میں کھونا چاہتا ہوں۔ اپنی ماضی میں کھونا چاہتا ہوں اپنے رشتوں کو پھر سے مضبوط کرنے کے لیے بکھیرنا چاہتا ہوں، میں ان بندھنوں کو ایک بار جھنجھوڑنا چاہتا ہوں جو آج تک میرے پاؤں میں زنجیر بن کر میرا رستہ روکے رہے۔ دوسرے دن اس کے دوست نے اسے ایک اور بندے کے ساتھ ملایا، وہ بندہ اسے لیکر روانہ ہوا اب وہ بولان کی طرف جا رہے تھے. دو دن بعد کیمپ پہنچ گئے. وہاں نئے لوگ، نئی جگہ، نئی سوچ تھی . پہنچتے ہی اسے اپنائیت کا احساس ہونے لگا. چالیس کے لگ بھگ لوگوں کے چہروں پر ایک نظر دوڑانے کے بعد اسے زرہ برابر بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کچھ اجنبی لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں.
آج اسے تین سال ہو گئے تھے. کبھی کبھار فون پر گھر والوں سے رابطہ ہوتا وہ تین سالوں سے کبھی شہر بھی نہیں گیا تھا. اسی دوران دور سے آتی ہوئی بھاری آواز نے اسے سوچوں کی دنیا سے واپس نکال دیا. اس نے دیکھا وہ بھاری آواز مزید تیز ہو رہی تھی. وہ سمجھ گیا کہ دشمن کا جاسوس طیارہ ہے. اس نے مخابرہ اٹھایا اور اپنے دوستوں کو جاسوس طیارے کے آنے کی اطلاع دی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز