یکشنبه, می 5, 2024
Homeخبریںمسنگ پرسنز کی احتجاجی ریلی کو سیکورٹی کا بہانہ بنا کر زبرستی...

مسنگ پرسنز کی احتجاجی ریلی کو سیکورٹی کا بہانہ بنا کر زبرستی روکنے کی مذمت کرتے ہیں، بی این ایم

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بلوچستان میں جاری آپریشن کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی احتجاجی ریلی کو سیکورٹی کا بہانہ بنا کر زبردستی روکنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پُر امن ریلی کو اس کی پراکسیوں کے علاوہ کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایسے میں پرامن احتجاج نہ ہونے دینا بلوچ کیلئے تمام راستوں کو بند کرنے کے مترادف ہے۔ علی اصغر بنگلزئی جنہیں آج سے چودہ سال قبل 18 اکتوبر کو فورسزاور خفیہ اداروں نے حراست کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔ ان کی رہائی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ایک احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا تھا جو پریس کلب کوئٹہ سے نکل کر ہائی کورٹ اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کا شیڈول تھا کہ پولیس نے زبردستی روک لیا ۔ بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ آئے دن عام آبادیوں پر فورسزنہتے لوگوں کا اغوا و قتل فورسز کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ان کارروائیوں میں دن بہ دن تیزی لائی جارہی ہے ۔ ہزاروں بلوچ اغوا اور دوران حراست قتل کئے جا چکے ہیں ۔ آج بھی ہزاروں بلوچ زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہی ہیں۔ صرف اسی سال آٹھ ہزار سے زائد اغوا کرکے لاپتہ کئے گئے ہیں جس کا اعتراف خود موجودہ حکومت کرچکی ہے مگر دس مہینے گزرنے کے باوجود کسی ایک کی خیریت کی خبر سامنے نہیں آئی ہے ۔ آج بھی جھاؤ کے علاقے لنجار میں ایک آپریشن میں پیرو ولد باران کو فورسزنے اغوا کرکے لاپتہ کر دیا ہے جبکہ ماسٹر رشید کو شدید تشدد کے بعد زخمی حالت میں چھوڑ دیا ہے ۔ واضح رہے کہ جھاؤ کے کئی علاقے کئی دنوں سے محاصرے میں ہیں جہاں لوگوں کی آمد و رفت اور ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی ہے۔کل گیشکور و کولواہ میں آپریشن میں تین بلوچ فردندوں سراج ، امجد اور رزاق کو شہید کیا گیا اور کئی گھروں کو جلایا گیا۔ عید الفطر کے دن کولواہ و گرد و نواح میں جیٹ جہازوں کی بمباری کے بعد ضلع آواران میںآپریشن کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے جس میں درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ۔ ان آپریشن کے نتیجے میں ہزاروں بے گھر، سینکڑوں شہید و اغوا کئے جا چکے ہیں۔ بلوچوں پر ظلم و کی داستان یہاں نہیں رُکتی ۔ بلوچ بچے وخواتین بھی درندگی سے محفوظ نہیں۔ اب تک دو سو کے قریب بلوچ خواتین اغوا و لاپتہ کئے گئے ہیں۔ پچھلے مہینے کراچی سے سات ، دس اور چودہ سالہ تین بلوچ لڑکیوں کو اغوا کرکے سندھ کی منڈیوں میں بیچا گیا ہے۔یقیناًیہ سب کچھ پشت پناہی میں ہو رہا ہے جو بلوچ خواتین میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش ہے تاکہ بلوچ خواتین کو بلوچ قومی تحریک سے دور رکھا جائے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان کی اس سنگین صورحال میں مداخلت کرکے اپنا فرض نبھائیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز