شنبه, می 4, 2024
Homeخبریںآرگنائزنگ باڑی کی جانب سے عبوری آئین کے تحت تنظیم کاری کا...

آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے عبوری آئین کے تحت تنظیم کاری کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ بی ایس او آزاد

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے عبوری آئین کے تحت تنظیم کاری کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے ۔آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے جاری اخباری میں کہا گیا کہ جولائی میں بی ایس او آزاد کے آئینی زونوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد تنظیم کے آئین کو عبوری شکل میں بحال کرتے ہوئے انیسویں کونسل سیشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت گزشتہ تین مہینوں سے تنظیمی آئین کی بحالی کیلئے قائمہ کمیٹی کی جانب سے سیر حاصل بحث مباحثے کے بعد عبوری آئین کو حتمی شکل دیتے ہوئے وسیع پیمانے پر تنظیم کاری کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے ۔بیان میں مزید کہا گیا کہ پے در پے سیاسی و آئینی بحرانوں نے بلوچ طلبہ کے واحد منظم سیاسی ادارے بی ایس او کو منتشر اور اپنی حقیقی مقصد سے بیگانہ کر دیا ہے جس کے نقصاندہ اثرات آج نہ صرف طلبہ سیاست بلکہ بلوچ قومی تحریک پرواضح ہو چکے ہیں۔ بی ایس او نے اپنے تاریخی سفر میں بلوچ طلبہ کو ایک سیاسی طاقت بناتے ہوئے قومی سیاست کے نشو نما میں ایک درسگاہ کا کردار ادا کیا ہے جس کے بدو لت ہی بلوچ سماج میں معاشی و سیاسی پسماندگی اور ریاستی جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت تا حال وجود رکھتی ہے البتہ بی ایس او کے اس تاریخی سفر کو ہمیشہ رجعتی خیالات اور پسماندہ سیاسی روایات کا سامنا رہا ہے جو کہ روز اول سے بی ایس او کے بحیثیت ادارہ منظم ہونے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں ۔انہی پسماندہ سیاسی روایات کی وجہ سے ہی بی ایس او ہر دور میں ٹھوٹ پھوٹ اور بحرانوں کا شکار رہی ہے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ ماضی کی نسبت آج جب کہ بلوچ سیاست قابل زکر حد تک ترقی کر چکی ہے اور اپنے پیچھے ایک سبق آموز ماضی رکھتی ہے اس دور میں سابقہ پسماندہ روایات تحت چلتے ہوئے بی ایس او کو شخصیا ت کی ترویج ، مہم جوئی اور نمود و نمائش کی سیاست میں جھونکنا ایک افسوس ناک عمل ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ قومی آزادی کے نام پر سیاست کا دعوی کرنے والے بہت سے گروہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے انہی رویات پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے اور اپنی نمود و نمائش کیلئے بلوچ طلبہ کو بحیثیت آلہ سیاسی مہم جوئی میں دکھیلنے پر یقین رکھتے ہیں۔اس عمل سے جہاں بی ایس او بحیثیت ایک قومی ادارے کے بحرانوں اور انتشار میں گر چکی ہے وہیں بلوچ طلبہ کوآپس میں دست و گریبان کرنے اور بغض و عناد کے بنیاد پر ایک منفی سوچ کو پروان چڑھائی جارہی ہے جس کے اثرات نہ صرف قومی تحریک بلکہ بلوچ سماج پر بھی انتہائی مہلک ثابت ہورہے ہیں۔ بی ایس او کے بطور ادارہ بقاء اور آئینی بحالی کی جد و جہد سے وابستہ طلبہ اس امر کا بخوبی ادراک رکھتے ہوئے گزشتہ تین سالوں سے منفی سیاسی روایات اور قومی آزادی کی تحریک کو انتشار کا شکار بنانے والے عوامل پر تنقید کرنے میں پیش پیش رہے ہیں اور اسی جد وجہد کے تئیں بی ایس او آزاد کے اندرمنفی اور پسماندہ سیاسی رویات کے سامنے بھی ایک مضبوط رکاوٹ کے طور پر قائم رہے ہیں۔ بی ایس او کے بطور اآئینی ادارہ بحالی کی جد و جہد پر یقین رکھنے والے انہی کارکنان نے اس تمام پسماندہ و رجعتی سیاست کے سامنے ڈٹ کر اپنے ہر دل عزیز تنظیم کے آئینی بنیادوں کی بحالی کیلئے جد وجہد کی ہے جس کے بدولت کارکنان تنظیم کو مضبوط بنیادو ں پر از سرے نو منظم کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ بی ایس او سماجی ترقی اور قومی آزادی میں اپنے کردار کا ادراک رکھتے ہوئے تمام بلوچ طلبہ کو منظم کرنے اور انہیں مضبوط اور مثبت سیاسی روایات کے ساتھ بلوچ سماج اور قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے کی قابل بنانے کی جد و جہد پر گامزن ہوچکی ہے۔ بلوچ طلبہ بی ایس او کے آئین کی بقاء اور بطور ادارہ بی ایس او کی مضبوطی کے اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر اس عمل کے خلاف ہمیشہ جد وجہد کرتے رہینگے جو بی ایس او میں بحران پیدا کرنے یا بحیثیت ادارہ اسے نقصان پہنچانے کا باعث بنیں ۔ بی ایس او کے اندر چیئرمین اورسیکریٹری جنرل جیسے عہدوں کے غیر منطقی اختیارات کے تحت نہ صرف شخصیات کو تنظیم پر حاوی کیا جاتا رہا ہے بلکہ انہی غیر منطقی اور پسماندہ بنیادوں کا فائدہ اٹھاتے ہوے ہمیشہ رجعتی گروہ بی ایس او کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں ان تمام آئینی کمزوریوں کاادراک کرتے ہوئے بی ایس او کو پسماندہ روایات کی چنگل سے آزاد کرانا ضروری ہے ۔آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے تنظیم کو درپیش تمام بحرانوں، انتشار اور رجعت پسندانہ سیاست کے تمام پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے ان تمام منفی سیاسی روایات سے بی اس او کو نکالنے کے عزم کے ساتھ تنظیم کاری کا آغاز کیا جاتا ہے جو کہ بلوچ قومی سیاست اور بی ایس او کی تاریخ میں نیا باب ثابت ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز