پنج‌شنبه, می 2, 2024
Homeخبریںبلوچستان میں لاپتہ افراد کا عالمی مسئلہ بن چکا ہے

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا عالمی مسئلہ بن چکا ہے

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جبری گمشدگی کے عالمی دن کی مناسبت سے کوئٹہ میں پریس کانفرنس منعقد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے نصراللہ بلوچ اور بی ایچ آر او کی چیئرپرسن بی بی گل نے خطا ب کیا۔ خطاب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی مخدوش صورت حال میڈیا نمائندوں سمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، فورسز کی جانب سے میڈیا پر پابندی اور صحافیوں کو دھمکی کی وجہ سے اگرچہ قومی میڈیا اس حوالے سے خاموش ہے لیکن اس خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ بلوچستان سے لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ یا مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ ختم یا کم ہو چکا ہے۔لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے کا اندازہ صوبائی حکومت کے ترجمان کی بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے صرف ایک سال کے عرصے میں گرفتار ہونے والے 13500سے زائد لوگوں کی گرفتاری کو میڈیا میں ظاہر کیا۔ ریاستی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر فورسز گرفتار لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرنے اور ان پر مقدمات قائم کرنے کے بجائے انہیں لاپتہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 30اگست کا دن دنیا بھر میں جبری گمشدگی کے عالمی دن کے طور پر منایا جارہا ہے، بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ دنیا میں جبری گمشدگی کی عالمی بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے لیکن میڈیا کی غیر زمہ داری اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی اپنی زمہ داریوں سے غفلت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے روز بہ روز پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ لاپتہ افراد کی تعداد اور حراست میں قتل ہونے والوں کی فہرست لمبی ہوتی جارہی ہے۔ایک طرف بغیر مقدمات کے گرفتاریوں کا سلسلہ شدت سے جاری ہے لیکن دوسری طرف مقامی انتظامیہ لاپتہ افراد کی گمشدگی کی ایف آر بھی درج نہیں کررہی ہیں ، ایف آر درج کرنے والے کئی خاندانوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ ریاست لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی اپنی زمہ داری سے دستبردار ہو چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال ماورائے عدالت قتل کے 256واقعات کی تفصیلات بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے پاس جمع ہو چکے ہیں، جبکہ قتل کے واقعات کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ کاؤنٹرانسرجنسی کی پالیسیاں عام لوگوں کی روزانہ کی زندگی کو بھی متاثر کررہی ہیں۔ گھروں کو جلانے اور بزور طاقت بہت سے علاقوں سے لوگوں کو نکل مکانی پر مجبور کرنے جیسی کاروائیوں سے بھی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔ مشکے، جھاؤ، مکران، جھالاوان و سراوان اور ڈیرہ بگٹی کے علاقوں سے کئی ہزار خاندان نکل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جھاؤ کے علاقوں میں فورسز کے اہلکاروں نے گھر گھر جاکر لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکی دی ہے، مکران کے کئی علاقوں اور گوادر کے قریبی شہر دشت میں بھی اسی طرح کی حکمت عملی سے تنگ آ کر عام لوگ اپنی روزگار کے ذرائع اور دیگر سرگرمیاں چھوڑ کر مجبوراََ علاقہ خالی کرچکے ہیں۔ میڈیا کی خاموشی اور بلوچستان میں بڑھتی جبر کی شدت سے لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ اسکولز و کالجوں کو بطور چوکی استعمال کرنے کی پالیسی سے طلباء و ٹیچرز بھی پریشان ہیں۔ غرضیکہ بلوچستان میں زندگی کے تمام شعبے خوف، بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان بھر میں آباد لاکھوں بلوچوں کو اس حال میں چھوڑ کر میڈیا و انسانی حقوق کے ادارے خود کو بھی شریکِ جرم کررہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پر سنز کئی سالوں سے مسلسل بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہے، کراچی، کوئٹہ و اسلام آباد کے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج اور کوئٹہ سے اسلام آباد کی طویل لانگ مارچ بھی عالمی انسانی حقوق کی تنظینیں اور سول سوسائٹی کے احساس ذمہ داری کو جگا نہیں سکی ہے ۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بی ایچ آر او نے کہا کہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ کیے جانے والے لوگوں کے خاندانوں کو دھمکی دینے کے بجائے ان کی ایف آئی آر درج کرانے میں مقامی انتظامیہ کو پابند کریں۔ انہوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اپیل کی کہ وہ کسی دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر اپنے پیاروں کی گمشدگیوں پر خاموشی کے بجائے ایف آئی آر ضرور درج کروائیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز