ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومخبریںبی ایس او آزاد کی مرکزی کابینہ کا چھٹا اجلاس زیر صدارت...

بی ایس او آزاد کی مرکزی کابینہ کا چھٹا اجلاس زیر صدارت مرکزی قائمقام چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ منعقد

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد کی مرکزی کابینہ کا چھٹا اجلاس زیر صدارت مرکزی قائمقام چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس میں تنظیمی امور، سیاسی صورت حال اور آئندہ لائحہ کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔اجلاس کی شروعات بلوچ شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے بعد کی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کی پزیرائی اور عوامی شرکت قابض دشمن کے لئے حواس باختگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ بلوچ عوام کو متحرک کرنے اور انہیں پارٹیوں و آرگنائزیشن سے مربوط رکھنے والی پارٹیوں کے خلاف ریاستی کاروائیاں اس بات کی عکاس ہیں کہ ریاست کا اصل خوف بلوچ عوام کو متحرک کرنے والی پارٹیوں سے ہے۔ کیوں کہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ محکوم قوم کو متحد و منظم ایک مضبوط پارٹی ہی کرسکتی ہے۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ قابض ریاست شروع سے ہی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مختلف حربے آزما رہی ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور بلوچستان میں پرامن سیاست کی تمام راہیں مسدود کرنے کے باوجود بھی جب کارکن عوام کے اندر رہ کر اپنی سرگرمیوں میں بدستور مصروف رہے تو ریاست نے ایک منصوبے کے تحت تحریک کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کیا۔بلوچ عوام کے اعتماد کو پارٹیوں سے ختم کرنے کے لئے پارٹی لیڈر شپ کے خلاف بھرپور زہر افشانی کی گئی، تاکہ بلوچ عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پھیلایا جا سکے۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ دنیا کی تحاریک میں گزرتے وقتوں کے ساتھ ساتھ مختلف پیچیدگیاں آتی رہی ہیں یقیناًبلوچ تحریک بھی ان پیچیدگیوں سے مبرا نہیں، لیکن بدقسمتی سے ریاست کی جانب سے پیدا کی جانے والی پیچیدگیوں کوکچھ اپنے لوگ بھی بڑی حد تک سمجھنے سے قاصر رہے، اور ریاستی پالیسیوں کا ایک حد تک حصہ بن گئے، اسی لئے بلوچ عوام سمیت سیاسی کارکنوں میں بھی مایوسی کی سی فضاء قائم ہو گئی۔ لیکن بلوچ سیاسی کارکنوں کی انتھک محنت سے سیاسی کارکن و عوام تحریک سے جُڑے رہے۔ انہوں نے کہا کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جنگوں کی کیفیت بھی تبدیل ہورہی ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے کے ہر فرد کی رسائی میڈیا تک ہے، قابض ریاست الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر مکمل پابندی کے بعد سوشل میڈیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کررہا ہے۔ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو چاہیے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو اپنے کاز کی تشہیر اور بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کو دنیا کے سامنے واضح کرنے کے لئے استعمال کریں۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ 1948 سے بلوچ عوام ریاست کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، لیکن پارٹی وتنظیموں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جدوجہد اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ پائی ہے، انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو ایک بات ذہن میں رکھنا ہو گا کے شخصیات پر انحصار انہیں ان کے مطلوبہ مقاصد تک پہنچانے میں مدد نہیں دے سکتی، بلکہ گزشتہ دور کی طرح شخصیات کہیں پر بھی قوم سے دھوکہ کرکے شہدا کے ارمانوں کو بیچ سکتے ہیں۔گزشتہ کمزوریوں کے تجربے کے بعد نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اداروں کی تعمیر پر توجہ دیں۔ کیوں کہ آج کے مضبوط ادارے ہی ہمارے آنیوالے ریاست کی عکاسی کرتی ہیں۔ سیاسی صورت حال کے ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ قابضین کہیں پر قابض ہوں، ان کا مقصد استحصال، لوٹ مار اور مقبوضہ خطے کی خام مال سمیت تمام وسائل پر آسان دست رس حاصل کرنا ہے۔بلوچستان پر قابض رہنے والے برٹش قابضین کا مقصد بھی بلوچ وسائل کا لوٹ مار کرنا تھا، اب پاکستان بھی وہی تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بلوچ نسلوں کو اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے ایک منصوبے کے تحت قابض نے تعلیمی اداروں کو بند کرکے وہاں اپنے فوجی کیمپس قائم کیے ہیں۔جہاں کہیں نام نہاد کالج و یونیورسٹی موجود ہیں، وہ تعلیمی اداروں سے زیادہ فوجی بیرکوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ قابض ریاست بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے بے بہر کے مستقبل قریب میں سیاست و قومی شعور سے بیگانہ نوجوان نسل تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ بلوچ وسائل کو مزید لوٹا جا سکے۔ بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ بدلتی ہوئی عالمی حالات کے پیش نظر بلوچ سرزمیں اپنے جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔پاکستان کے توسط سے چائنا و ایران اپنے سیاسی و فوجی مقاصد کی تکمیل کے لئے بلوچ سرزمین کو اپنے تصرف میں لانا چاہتے ہیں۔ چائنا کی کروڑں ڈالر کی سرمایہ کاری اور پاکستان جیسی ریاست پر اندھا اعتماد بلوچ سرزمین کی جغرافیائی اہمیت ہی کی وجہ سے ہے۔ بی ایس او آزاد کی مرکزی قائمقام چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کہا بلوچ شہدا کی قربانیوں اور بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسلسل جدوجہد کی بدولت آزادی کا پیغام ہرگھر تک پہنچ چکا ہے۔بلوچ عوام میں آزادی کی ضرورت کا شعور پروان چڑھ چکا ہے۔ ان حالات میں بلوچ سیاسی کارکنوں اور بلوچستان میں سیاست کرنے والی پارٹیوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قدم انتہائی احتیاط سے رکھ کر آگے بڑھیں۔ کیوں کہ یہاں تک دوبارہ پہنچنے میں اس سے کئی گنا زیادہ قربانیاں درکار ہوں گی۔اجلاس میں آئندہ لائحہ عمل کے تحت تنظیمی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے مختلف فیصلے لیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز