ہفتہ, مئی 18, 2024
ہومخبریںجرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بی این ایم کے زیر اہتمام ایک...

جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بی این ایم کے زیر اہتمام ایک کانفرنس منعقد کی گئی ،

کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 27 اکتوبر کو جرمنی کے شہر برہمن میں ’پاکستان میں بلو چ قوم ‘ کے عنوان سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیر اہتمام مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے ایک کانفرنس منعقد کی گئی ۔ کانفرنس میں بی این ایم کی نمائندگی بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے نارتھ جرمنی کے کو آرڈینٹر زگرڈکریگ اور ارہارڈ میشے نے کی۔ پروگرام کے دو حصے تھے، خطاب اور سوال جواب ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مقرر نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ یہ پروگرام بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ہیں ۔ زگرڈ کریگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور یہ پامالیاں بلوچستان میں بہت زیادہ ہیں، اس لئے میں آج بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں ضرور بات کرونگی۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں محترمہ سبین محمود کو انسانی حقوق اور بلوچوں کے بارے میں بات کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے تیس اگست کو لاپتہ افراد کا دن اور اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بلوچستان پر خصوصی توجہ ہے اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔زگرڈ کریگ نے مزید کہا کہ ہم نے توتک بلوچستان میں اجتماعی قبروں کی دریافت پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں اور میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئر مین زاہد بلوچ کی طویل گمشدگی پر بھی اظہار خیال کیا۔ پاکستان میں اقلیتوں پر مظالم، مذہبی انتہا پسندی اور بلوچستان میں ہزارہ برادری کے قتل عام کی بھرپور مذمت کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نارتھ جرمنی کے کو آرڈینٹر زگرڈکریگ نے مزید کہا کہ ہم بلوچستان میں انسانی حقوق کے بارے میں لکھتے میں مگر ان کی طرف سے جواب نہیں آتا جو ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ بی این ایم کے حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں۔ بلوچ سیاسی لیڈروں و کارکنوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ بی این ایم کے بانی سربراہ غلام محمد بلوچ اور قمبر چاکر جیسی شخصیتوں کو اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کرکے ویرانوں میں پھینکا گیا۔ بلکہ بلوچ شاعر، ادیب و زانتکار بھی بلوچ نسل کشی میں قتل کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے لاپتہ افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ کئی خاندان دھمکی اور خوف کی بنا پر اپنے پیاروں کے نام ظاہر نہیں کرتے ۔بلوچستان میں انتہا پسندی کو فروغ دیکر بلوچوں کی سیکولر معاشرے میں مذہب کے نام پر بلوچ جہد آزادی کو کاؤنٹر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ میڈیا اور صحافت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ غیر ملکی صحافیوں کی بلوچستان داخلے پر پابندی اور مقامی صحافیوں کو ایک ایک کرکے قتل کیا جا رہا ہے، رزاق گل اور جاوید نصیر اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ بلوچستان میں ایک سنگین انسانی بحران ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ بلوچ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ جاری ہے، اس پر فوری اقدام اور مہذب اقوام کی مداخلت کی ضرورت ہے ۔ آخر میں حمل حیدر بلوچ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا شکریہ ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز