دوشنبه, می 6, 2024
Homeخبریںہماری سیاست کا محور طلبا کو انسان دوستی کی طرف راغب کرنا...

ہماری سیاست کا محور طلبا کو انسان دوستی کی طرف راغب کرنا ہے: بی ایس او آزاد

کراچی( ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی طرف سے چھبیس نومبر کو یومِ تاسیس کے حوالے سے کوئٹہ، کراچی، کولواہ، بلیدہ سمیت بلوچستان بھر میں پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ ان پروگراموں میں بی ایس او آزاد کارکنوں، ٹیچرز صحافیوں اور عام لوگوں نے شرکت کی۔ا نچاسویں یومِ تاسیس کے حوالے سے کراچی میں بی ایس او آزاد کی جانب سے ایک سیمینار بعنوان ’’طلباء کے لئے سیاست کیوں ضروری ہے‘‘ منعقد کیا گیا۔ سیمینار کی صدارت بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن چراغ بلوچ نے کی۔ اس سیمینار میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کارکن فاطمہ زیدی، عوامی جمہوری محاز کے خرم علی، انقلابی سوشلسٹ کے ڈاکٹر ریاض احمد، سماجی کارکن وہاب بلوچ اور صحافیوں سمیت اسٹوڈنٹس اور دیگر شعبوں کے لوگوں نے شرکت کی۔ سیمینار میں بی ایس او آزاد کی سیکرٹری جنرل عزت بلوچ ، بلوچ دانشور اور لکھاری ماما محمد علی تالپور کا مکالہ بھی پڑھا گیا۔ سیمینار سے خطاب میں این ایس ایف کی فاطمہ زیدی نے ’’طلباء کے لئے سیاست کیوں ضروری ہے‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں اس لئے حصہ لیا جاتا ہے کہ اپنے مفادات کا دفاع کیا جا سکے۔ ہمارا میڈیا اس بات کو بارہا دہراتا ہے کہ طلباء ملک کا مستقبل ہیں، لیکن وہ طلباء کو سیاست کی جانب راغب نہیں کرتا، طلباء کو جب تک ملک کی سیاسی و معاشی نظام کی پیچیدگیوں، اقلیتوں کے حقوق کی اہمیت سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا تو وہ کسی ملک کا مستقبل نہیں ہو سکتے، یعنی اس طبقے کو اگر یہ پتہ نہیں کہ ریاست کی بھاگ دوڑ کیسے چلائی جاتی ہے تو وہ آگے چل کر ریاست کا بیڑا غرق کردیں گے۔عوامی جمہوری محاز کے رہنماء خرم علی نے سیمینار کے موضوع پر خطاب میں کہا کہ طلباء کی سیاست میں بی ایس او کا کردار اہم رہا ہے، بی ایس او کے کامریڈوں سے انہیں سیکھنے کو بہت کچھ ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنے حقوق کا شعور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کی بنیاد رکھنے والے نوجوان سیاست میں شریک ہوں، ریاست کے باشندوں کو اگر اپنے حقوق کا شعور نہ ہو تو ریاست ان کے حقوق کا استحصال کرتی ہے اور اس کے بدلے میں صرف گزارے کے لئے لوگوں کو جو کچھ دیتی ہے تو لوگ اسے بھی ریاست کا احسان سمجھ کر قبول کریں گے۔ تمام جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا مفاد اسی میں ہے کہ نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھا جائے، اس سے پورا معاشرہ اپنے حقوق سے بے خبر رہ جاتا ہے اور سرمایہ دار ہر حوالے سے معاشرے کا استحصال جاری رکھتے ہیں۔بلوچ لکھاری واجہ میر محمد علی تالپور نے سیمینار کے موضوع پر لکھے گئے اپنے مکالے میں اس بات پر زور دیا کہ سیاست ہمیشہ حقیقی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ طلباء کے لئے سیاست کیوں ضروری ہے کے موضوع پر بحث کرنا شاید اتنا مشکل یا اتنا آسان ہے جس طرح ’’انسان کیلئے خوراک کیوں ضروری ہے‘‘ کے موضوع پر ۔ کیونکہ طلبا کیلئے سیاست اِسطرح ضروری ہے جس طرح زندگی کیلئے غذاء۔ ہم اپنے ماحول اور منتخب کردہ سیاسی نظام کی پیداوار ہیں۔ سیاست کا کام بھی سماج کے بیجوں’’طلبا‘‘ کو مناسب توانائی فراہم کر کے انہیں سماج کا اثاثہ بنانا ہے۔سیاست کے بغیر کوئی طالبعلم ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں پڑا ہوا ناکارہ بیج ۔ ایک مثبت سیاسی خیالات رکھنے والا طالبعلم سماج کو بہتر سمجھتا ہے اور جب ہم سماج کو سمجھتے ہیں تو اُ سکی خدمت بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ سیاست کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے طلبا کو انسان دوستی کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ بی ایس او آزاد کے علاوہ بھی دوسرے بی ایس او موجود ہیں مگر اُنکا کام محکومیت کو فروغ دینا اور پاکستان اور اسکے اداروں کا معاون بننا ہے، اِس حقیقت سے قطع نظر کہ ریاست اور اسکے ادارے نہ صرف بلوچوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں بلکہ بلوچوں کے خلاف ایک منظم اور باقاعدہ dirty war بھی شروع کیے ہوئے ہیں۔ بلا ظالم کی حمایت کرنے والی سیاست کس طرح ایک مثبت سیاست ہو سکتی ہے؟ وہ جن کے پاس کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں ، ظالم کی حمایت کرنے پر بہانے تلاش کرتے ہیں۔ سیمینار میں بی ایس او آزاد کی مرکزی سیکرٹری جنرل عزت بلوچ کا مکالہ پڑھا گیا۔ عزت بلوچ نے کہا کہ ’’طلباء کے لئے سیاست کیوں ضروری ہے‘‘ کا موضوع بذاتِ خود ایک اہم سوال ہے اس ایک سوال کے ہزاروں جوابات ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں طلباء کے لئے سیاست اس لئے ضروری ہے کہ طلباء کسی بھی معاشرے کا بنیاد ہوتے ہیں، اگر ان کی تعمیر ’’تربیت‘‘ سیاسی بنیادوں پر ہو تو سیاسی معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اگر طلباء کی تربیت جھوٹی نظریات، اور عدم برداشت کی بنیاد پر ہو تو معاشرہ بالکل اسی طرح گھٹن کا شکار ہوتا ہے، جس طرح کہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرہ ہے۔ بلوچستان میں اسٹوڈنٹس سیاست کو ریاست کی جانب سے خطرات تو تھیں ہی لیکن سرداروں کی جانب سے بھی بلوچ اسٹوڈنٹس کی پولیٹکس ہمیشہ عتاب کا شکار رہا ہے۔26نومبر1967کو جب بی ایس او کی باقاعدہ تشکیل ہوئی تو یہ بلوچ تاریخ میں طلباء کی سیاست کا آغاز اور بلوچ سیاست میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ تھا۔ چونکہ عوام کو زیر کرنے والے تجربہ کار حکمرانوں کے پاس ایسے خطروں کو راستے سے ہٹانے کا برطانوی آزمودہ تجربہ ہمیشہ کارآمد رہا ہے، اس لئے یہاں بھی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی ’’طاقت کُش‘‘ پالیسی بلوچ طلباء پر آزمائی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرداروں اور ریاست کی جانب سے بی ایس او کو تقسیم کرنے کا بنیادی مقصد بلوچ عوام کو ایک پارٹی تلے منظم ہونے سے روکھنا تھا۔ جب 2002میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے بی ایس او کی آزاد حیثیت کی بحالی کا اعلان کرکے آزاد بلوچستان کے لئے جدوجہد کا اعلان کیا۔ تو یہ اعلان بلوچ نوجوانوں کی لاشعور میں اٹھنے والی سوالات کا ایک بروقت اور مدلل جواب تھا ۔ 2002کے بعد بلوچستان کی آزادی کا نعرہ ایک بلوچستان گیر نعرہ بن گیا، اور اس نعرے کو زبان زدِ عام کرنے میں سب سے کلیدی کردار بی ایس او کا ہی رہا ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے نعرے کو زبان زد عام کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ معاشرے کو علاقائیت، قومیت اور مذہبی شدت پسندی جیسے ناسور سے بچانے کے لئے بھی بی ایس او کا کردار منفرد رہا ہے۔ عزت بلوچ نے کہا کہ سیاست بذاتِ خود ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں تجربہ ہی پختگی لاتی ہے، اور تجربے کی طوالت کے لئے ضروری ہے کہ زمانہ طالبعلمی سے ہی نوجوان سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوں۔ بی ایس او کی سرگرمیاں جب بلوچستان میں وسیع پیمانے پر شروع ہوگئیں تو ان سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے مقتدرہ قوتوں نے بھی پالیسیاں تشکیل دینی شروع کی۔ ریاست کی کاؤنٹر انسر جنسی پالیسیاں اتنی تیزی سے شدید ہو گئیں کہ 2009سے2016کے درمیان صرف بی ایس او آزاد کے 120سے زائد کارکن و لیڈران اغواء کے بعد قتل کردئیے گئے ہیں۔ جبکہ مرکزی لیڈران سمیت 50کے قریب کارکن لاپتہ ہیں۔ بلوچ طلباء کو دباؤ میں رکھنے کے لئے اس طرح کی سخت پالیسیوں کا سہارا لینا اس بات کا ریاست کی طرف سے اعتراف کہ ہے نوجوانوں کی سیاست نوآبادیاتی حکمرانوں اور اشرافیہ کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ بلوچ نوجوانوں، خاص کر بی ایس او کے ممبران کی اغواء و قتل سے قابض قوتیں قومی تحریک کی تسلسل کو توڑنا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ کسی تحریک کی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس تحریک میں رہنماؤں کی منظم جماعت موجود ہو اوررہنمائی کرنے والے جماعت کی تشکیل کے لئے اسٹوڈنٹس سیاست بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے باالعموم، ڈاکٹر مالک کی تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد سے باالخصوص بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں باقاعدگی سے خوف کو رواج دیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اندر آرمی کیمپوں کے قیام اور ہائی اسکولوں و کالجوں پر قبضے سے بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک سراسیمگی سی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان تمام منصوبہ بند پالیسیوں کے پیچھے صرف طلباء کو سیاست سے دور رکھنے کی کوششیں کارفرما نظر آتی ہیں۔ تاکہ آزادی کی تحریک، جس میں بلوچ نوجوان اپنی قومی، سیاسی اور معاشی بقاء تلاش رہے ہیں اس سے دور ہوجائیں اور آئندہ کے لئے منظم تحریکوں کے سراُٹھانے کا راستہ طلباء سیاست کو ختم کرکے ہمیشہ کے لئے روکا جا سکے۔بلوچ مسئلہ پر اپنا سر ریت میں چھپانے والے دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس حل طلب اور خونی مسئلے کے حل کے لئے ریاستی بیانیے کے بجائے زمینی حقائق کا تجزیہ کریں۔ بلوچ اسٹوڈنٹ سیاست جو کہ شروع سے ہی بالعموم اور پچھلے ایک دہائی سے باالخصوص ریاستی جبر اور پابندیوں کا شکار ہے، اس کی پابندی خلاف لکھیں اور صحت مند مباحثہ کے فروغ کے لئے بی ایس او (آزاد) کا ساتھ دیں۔ کیوں کہ بلوچستان کی آزادی کا مطلب پنجابی دشمنی نہیں بلکہ خالص معنوں میں بلوچ عوام کی ’’سیاسی، معاشی اور معاشرتی ‘‘ آزادی ہے۔ سیمینار سے خطاب میں بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن چراغ بلوچ نے کہا کہ بی ایس او نے بلوچ معاشرے کی فکری تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاست نے جب جہاد کو خارجی پالیسی کا جزو بنا کر مدرسوں کی تعمیر کا ایک وسیع جال بچھایا تو بی ایس او نے بڑی حد تک ریاست کی اس پالیسی سے بلوچستان کو محفوظ رکھا۔ سعودی حکمرانوں کی بے تحاشا فنڈنگ اور پاکستان کی کوششوں کے باوجود بلوچستان میں مذہبی شدت کا نشونما محدود ہونے کا سہرا بی ایس او کے سر جاتا ہے۔ بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ریاست نے براہوئی و بلوچی تضاد، مکرانی و جھالاوانی تضاد، زگری و نمازی جیسے خود ساختہ تضادات کو ہر دور میں ابھارنے کی کوشش کی، لیکن بی ایس او ہمیشہ ان پالیسیوں کے خلاف ایک دیوار بن کے کھڑی رہی ہے۔ اگر بی ایس او بلوچستان میں موجود نہ ہوتا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان آج مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے فاٹا سے مختلف نہ ہوتا۔ چراغ بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان تمام مشکلات کے باوجود سیاست میں عملاََ شریک ہو کر جدوجہد کا حصہ بن جائیں، کیوں کہ بغیر سیاسی شعور کے انہیں اپنے حقوق کا شعور نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز