پیر, مئی 20, 2024
ہومخبریںشام میں جبری گمشدگیاں کاروبار بن گیا ہے

شام میں جبری گمشدگیاں کاروبار بن گیا ہے

شام (ہمگام نیوز)انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شامی حکومت اور اتحادی ملیشیا سنہ 2011 سے اب تک جبری گمشدگیوں کی ایک مہم میں ہزاروں لوگوں کو گرفتار اور اغوا کرچکی ہے جو کہ انسانیت کے خلاف ایک جُرم ہے۔حقوق کی نِگرانی کے حوالے سے کام کرنے والوں نے گمشدہ افراد کے رشتہ داروں سے ملاقاتیں کیں جنھوں نے بتایا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حکام سے قریبی تعلقات رکھنے والے افراد کو رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ اور اب یہ چور بازاری کے ایک منافع بخش کاروبار کو فروغ دینے کا باعث بن رہا ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اُنھوں نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر شامی حکام سے بات چیت کرنے کی کوشش کی ہے اور اب وہ اُن کی جانب سے جواب کے منتظر ہیں۔شامی حکومت کی جانب سے مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر مبنی رپورٹس کو مسترد کیا جاتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ’شام کی حکومت کی جانب سے سنہ 2011 میں شروع کیے گئے جبری گمشدگیوں کے اس عمل کو شہری آبادی کے خلاف منظم حملوں کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے جو بہت بڑے پیمانے پر اور بہت منظم انداز میں شروع کیا گیا ہے۔‘شام میں شورش سنہ 2011 میں صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوئی جو خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی اورغیر ملکی ریاستوں تک پھیلی اور اس کی وجہ سے حکومتی فورسز اور اتحادی ملیشیا کے خلاف ایک بہت بڑی تعداد میں باغی گروپوں نے جنم لیا۔ شام میں نگرانی کے متعلق کام کرنے والے ایک انسانی حقوق کے گروپ کے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 65 ہزار سے زائد افراد جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے انھیں مارچ 2011 اور اگست 2015 کے درمیان جبراً گمشدہ کردیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اُنھوں نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر شامی حکام سے بات چیت کرنے کی کوشش کی ہے اور اب وہ اُن کی جانب سے جواب کے منتظر ہیں۔

شامی حکومت کی جانب سے مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر مبنی رپورٹس کو مسترد کیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ’شام کی حکومت کی جانب سے سنہ 2011 میں شروع کیے گئے جبری گمشدگیوں کے اس عمل کو شہری آبادی کے خلاف منظم حملوں کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے جو بہت بڑے پیمانے پر اور بہت منظم انداز میں شروع کیا گیا ہے۔‘

شام میں شورش سنہ 2011 میں صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوئی جو خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی اورغیر ملکی ریاستوں تک پھیلی اور اس کی وجہ سے حکومتی فورسز اور اتحادی ملیشیا کے خلاف ایک بہت بڑی تعداد میں باغی گروپوں نے جنم لیا۔شام میں نگرانی کے متعلق کام کرنے والے ایک انسانی حقوق کے گروپ کے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 65 ہزار سے زائد افراد جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے انھیں مارچ 2011 اور اگست 2015 کے درمیان جبراً گمشدہ کردیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق ان قیدیوں کو کھچا کھچ بھرے گندے سیلز میں رکھا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو مختلف طریقوں جیسے الیکٹرک شاک، کوڑوں کے ذریعے، جلا کر اور آبروریزی کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سلام عثمان نامی شخص جنھیں 2011 سے 2014 کے دوران جبری طور پر گمشدہ رکھا گیا تھا کہتے ہیں کہ ’لوگ مرتے تھے اور ان کے جگہ مزید لوگ آ جاتے تھے۔‘رپورٹ کے مطابق سلام کا کہنا تھا کہ ’میں پورے تین سال تک سیل میں محصور رہا اور ایک بار بھی باہر نہیں نکلا ۔۔۔ بہت سے لوگ پاگل ہوگئے اور اُن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ حکومت کے خلاف کوئی تحقیقات کرواتے ہیں تو اُن کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ رشتہ داروں کو ان گمشدہ افراد کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے پاس جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ یہ معلومات کہ اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے یا وہ زندہ بھی ہیں یا اُنھیں ہلاک کردیا گیا ہے۔یہ رشوت خور سینکڑوں ہزاروں ڈالر طلب کرتے ہیں۔ کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جنھیں اُن کی مطلوبہ رقم مہیا کرنے کے لیے اپنے گھروں کو بیچنا پڑتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ’ریاستی حکام شام میں جبری گمشدگیوں کے ذریعے سے منافع کمارہے ہیں۔ اور کس طرح بڑے پیمانے پر رشوت عام ہورہی ہے یہ سب جاننے کے باوجود ریاست نے جان بوجھ کر اس معاملے سے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں

فیچرز