یکشنبه, آوریل 28, 2024
Homeھمگام واچچین کی چاہت اور چیلنج۔ ہمگام رپورٹ

چین کی چاہت اور چیلنج۔ ہمگام رپورٹ

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی شاہین صہبائی نےمائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر خبر دی ہے کہ چائنا اور آئی ایم ایف کے آپسی مفادات میں پاکستانی معیشت کی مثال ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس جیسا ہے۔

یاد رہے کہ چین نے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں سی پیک اور گوادر پورٹ کے تناظر میں ملٹی بلین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کی ہے اور اس بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری اور اسکی دور رس نتائج سے عالمی قوتیں کسی بھی طرح خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ کاری اصولوں کے تحت لایا جائے جو کہ چائنا کے لیئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ چائنا دنیا بھر میں اپنے سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کے حوالے سے شفافیت کو لے کر بہت بدنام ہے اور اس میں دیئے گئے قرضوں پر بھاری بھر کم سود کی ادائیگیاں خود میزبان ملک سمیت عالمی معیشت کے لیئے درد سر بن جاتے ہیں اور ڈیفالٹ کی صورت میں چائنا ان ممالک کی اثاثوں کو اپنی پاس گروی رکھ کر تا دیر اس ملک کی سیاسی و معاشی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری طرف آئی ایم ایف جو عرصہ دراز سے پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارے کے طور پر کئی بار بیل آؤٹ پیکجز دے چکا ہے ۔اوروہ بھی پاکستان پر سرمایہ کاری کی شفافیت کو لے کر اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے، ایسے میں پاکستانی معیشت کا دو عالمی فیصلہ ساز طاقتوں چین اور اٹرنیشنل مانٹری فنڈ کے درمیان سنڈوچ بن جانے کا قصہ کافی مزے دار ہے، جہاں پاکستان اپارچنیٹی کوسٹ یعنی ایک کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس جانے میں کافی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔

یاد رہے کہ ہمگام نے اپنی 14 مارچ کی رپورٹ میں چائنا اور انڈیا کے حوالے سے لداخ اور گرد و نواح کے علاقوں میں دونوں ممالک کی باہمی چپقلش کے حوالے سے بات کی تھی اور اس رپورٹ میں چائنا کے معاشی بادشاہت کے حوالے سے مشکلات و مواقعوں کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ چائنا کی 2013 میں شروع کی ہوئی Belt & Road Initiative کم و بیش 1 ٹریلین ڈالرز کا کثیر الجہتی معاشی منصوبہ ہے جس میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ سمیت دنیا بھر سے تقریباً 140 ممالک جڑے ہوئے ہیں، عالمی تجارتی سسٹم میں زیادہ تر دباؤ اس وقت دیکھنے میں آئے، جب 2019 میں عالمی تجارت کے قانونی معاملات کو نمٹانے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی اپیلٹ باڈی تقریباً غیرفعال رہی ہے، اس سے بہت قانونی مسئلے سردخانے کی نظر ہوکر عالمی و علاقائی تجارت کے حوالے سے شامل بنیادی لاگت کو مزید بڑھارہے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا میں کساد بازاری اور افراط زر کا ایک نیا سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اصل میں بریٹن ووڈ کی کئی کوتاہیوں اور معاشی پروگرام کے ناکامیوں کے بعد چائنا یہی چاہتا کہ وہ عالمی منظرنامے میں ایک ایسا تجارتی نعم البدل اور روڈ میپ کی تشکیل کرے جو امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کے معاشی پروگرام کے اثرات سے نہ صرف آزاد ہو بلکہ خود چائنا یہ چاہتا ہے کہ وہ معاشی طور پر دنیا کے کئی دیگر خطوں میں موجود ممالک پر اپنا اثر و رسوخ کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائے۔ سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور WTO کے مشیر ہنری گاو کہتے ہیں، “چین نے محسوس کیا کہ اسے اپنے مفادات کے لیے ایک متبادل نظام بنانے کی ضرورت ہے۔” اسی B & R کے تحت چائنا نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں نہ صرف ڈیپ سی پورٹ کو مکمل آپریشنل کرنے میں پاکستانی قبضہ گیر قوتوں کی مدد کی بلکہ وہ اسکے بعد 60 بلین ڈالرز کی حجم پر پھیلے ایک متنوع منصوبے کی شروعات کی جسے CPEC یعنی چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کا نام دیا گیا جوکہ پاکستان کے طول و عرض میں ایک طرف ایران افغانستان اور دوسری طرف ہندوستان تک ریل اور سڑک کے نیٹورکس کو آپس میں منسلک کرکے ایک تزویراتی تبدیلی کی شرعات کریگی۔

اس ضمن میں امریکہ اور مغربی اتحادی ممالک سمیت خود ہندوستان کو بھی بہت زیادہ تحفظات ہیں اور ان میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ چین کی عالمی تجارتی و تزویراتی گزرگاہوں پررسائی اس قدر آسان اور جلدی ممکن ہو کہ کسی ممکنہ عالمی چقپلش کے پیش نظر چین باقی دنیا کے دیگر طاقتوں کے خلاف اسی بنیاد پر اپنی برتری کو ثابت کرسکے۔

اپنی تجارتی سرگرمیوں کے تحفظ کے لیے چین کا دباؤ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عالمی تجارتی نظام کے پژمردگی کے بارے میں اس کی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے، یہ خطرہ 2018 کے بعد سے شدت اختیار کر گیا ہے، جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارت پر بھاری محصولات عائد کیے تھے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے Unctad کے مطابق، عالمی تجارتی قدروں میں گزشتہ سال 5 فیصد کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے کیونکہ “تجارتی پابندیوں کے اقدامات” جس میں ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات شامل ہیں ، میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دنیا ایک واضح معاشی و سیاسی چپقلش کی جانب بڑی تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے، بلوچستان اس ممکنہ عالمی چپقلش کا مرکزی میدان ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا میں بڑی قوتوں کا آپسی چپقلش معاشی بنیادوں پر ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ایسے میں بلوچستان کی مرکزی حیثیت کو کوئی بھی ملک یا عالمی قوت نظرانداز نہیں کرسکتا لیکن اب دیکھنا یہی ہے کہ اس ضمن میں خود بلوچ سیاسی قوتیں دنیا کے سامنے خود کو کس حد تک منوا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز