یکشنبه, آوریل 28, 2024
Homeھمگام واچ2023 کی سالانہ رپورٹ میں ایران میں نسلی امتیاز کی وجہ سے...

2023 کی سالانہ رپورٹ میں ایران میں نسلی امتیاز کی وجہ سے پھانسیوں میں بلوچوں کی تعداد سب سے زیادہ۔ رپورٹ: عبیداللہ بلوچ

پچھلی سالانہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں نسلی امتیاز کی وجہ سے سزائے موت کے اعدادوشمار میں بلوچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 2023 میں فی ملین باشندوں میں مقبوضہ بلوچستان فی کس پھانسیوں کے حساب سے 25 پھانسیوں کے ساتھ دوسری نمبر پر رہا۔

دستیاب رپورٹوں کے مطابق 2023 میں چار مقبوضہ صوبوں مغربی آذربائیجان، مشرقی آذربائیجان، بلوچستان اور کردستان میں 150 افراد کو پھانسی دی گئی۔ یہ تعداد 2022 میں 130، 2021 میں 62 اور 2020 میں 60 فیص تھی۔

چونکہ نسلی امتیاز کی وجہ سے پھانسی ان کے آبائی صوبوں میں خصوصی طور پر نافذ نہیں کی جاتی ہے، اس لیے ہر نسلی اقلیتی گروہ کی پھانسی کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ مزید برآں، سزائے موت پانے والوں کے بارے میں معلومات میں ہمیشہ ان کی نسل شامل نہیں ہوتی۔ بلوچ قیدیوں کو پھانسیاں بلوچستان کے علاقے سے باہر کی جیلوں میں دی جاتی ہے۔

2023 میں مشرقی اور مغربی آذربائیجان، کردستان اور مقبوضہ بلوچستان میں ایران ہیومن رائٹس کے ذریعے ریکارڈ کی گئی پھانسیوں میں سے 84 فیصد سے زیادہ کا اعلان حکام نے نہیں کیا تھا۔

سیاسی وابستگی کی وجہ سے سزائے موت پانے والوں کی اکثریت کا تعلق نسلی امتیاز کا نشانہ بننے والے ، خاص طور پر کرد اور بلوچ سے ہے۔ ایران ہیومن رائٹس رپورٹس کا جائزہ ظاہر کرتا ہے 2010-2023 کے درمیان کم از کم 154 افراد کو کالعدم سیاسی اور مسلح گروپوں سے وابستگی کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ ان میں سے 76 (49%) کرد، 45 (29%) بلوچ اور 24 (16%) عرب تھے، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی تھی۔

پھانسی کے اعداد و شمار میں نسلی امتیاز کا نشانہ بننے کی وجہ سے زیادہ تعداد ہونے کی کئی ممکنہ وجوہات ان خطوں میں ایران مخالف رجحان کی وجہ سے ایرانی حکام خوف پیدا کرنے کے لیے زیادہ تشدد کا سہارا لے رہا ہے۔ ژینا (مہسا) امینی کے ریاستی قتل کے بعد ملک گیر مظاہروں کے دوران، کردستان اور بلوچستان وہ علاقے تھے جہاں سب سے زیادہ دیرپا احتجاج ہوا، اور سڑکوں پر مارے جانے والے تمام مظاہرین میں سے تقریباً نصف کا تعلق بلوچستان، کردستان کے بلوچ اور کرد قصبوں سے تھا۔

حکام نے نسلی علاقوں میں اپنے ناقدین کو علیحدگی پسند قرار دے کر پروپیگنڈہ کرکے نشانہ بنایا، ساتھ ہی ساتھ ان خطوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی حکام کے لیے دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے لڑنے کے بہانے موت کی سزاؤں کا جواز پیش کرنا آسان بناتی ہے۔ یہ سب کچھ نسلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پھانسی دینے کے لیے کم ملکی اور بین الاقوامی حساسیت کا باعث بنا ہے، اور اس طرح، مظالم کی کم سے کم سیاسی قیمت ہے۔ آخر کار، ان خطوں کے ساتھ جو پہلے ہی خراب سماجی و اقتصادی حالات سے دوچار ہیں، مقامی عدالتی دفاتر بھی چار نسلی صوبوں میں زیادہ لاقانونیت اور من مانی طریقے سے کام کرتے ہیں۔

بلوچوں کی پھانسی

68 پھانسیوں کے ساتھ مقبوجہ بلوچستان میں کل پھانسیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، 2023 میں فی ملین باشندوں میں 25 پھانسیوں کے ساتھ، فی کس پھانسیوں کے حساب میں دوسری سب سے زیادہ تعداد والا صوبہ ہے۔ ایران میں بلوچ آبادی کی تعداد کے حوالے کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن مختلف ذرائع کے مطابق ان کی تعداد 1.5 سے 4.8 ملین کے درمیان ہے، جو ایران کی کل آبادی کا 2-6 فیصد بنتی ہے۔ (واضح رہے کہ قابض ایران نے ہمیشہ بلوچوں کی تعداد کم بتائی ہے تاکہ ان پر اپنا قبضہ مزید برقرار رکھ سکے لیکن بلوچ قوم پورے ایران میں آباد ایک بڑا قوم ہے )

تاہم ایران ہیومن رائٹس کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں کم از کم 167 بلوچ قیدیوں کو پھانسی دی گئی، جو کہ ایران میں ریکارڈ کی گئی پھانسیوں کا 20 فیصد ہے۔ ان 167 پھانسیوں میں سے 110 پھانسیاں مقبوضہ بلوچستان سے باہر کی جیلوں میں دی گئیں۔ ایران میں پھانسی کے اعداد و شمار میں بلوچوں کی مجموعی طور پر زیادہ تعداد نے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز